تہذیب حجاب

270

انسانی تہذیب میں سب سے زیادہ اہمیت زبان اور رویّے کی ہوتی ہے۔ زبان اور رویّے کی وجہ سے قوموں کو تہذیب یافتہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح نرم اور شائستہ لب و لہجہ رکھنے والے مہذب کہلاتے ہیں۔ زبان ہمارے جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ خیر کے کاموں کی دعوت بھی اسی سے دی جاتی ہے اور کلمۂ کفر، شرکیہ الفاظ، جھوٹی گواہی، قسمیں، چغلی اور گالیاں بھی اسی سے دی جاتی ہیں۔ اگر اس میں کجی آجائے تو ہم میں بھی کجی آجائے گی اور ہم راستے سے بھٹک کر بے راہ روی اختیار کرلیں گے، اور جسم کے دوسرے اعضا بھی اس ٹیڑھ پن کی زد میں آجائیں گے۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچانا ہی زبان کی حیا کہلاتی ہے۔ جب تک زبان کی حفاظت نہیں ہوگی انسان کی حیا مکمل نہیں ہوگی۔ ہماری زبان سے کسی کے دل پر چوٹ لگے گی تو کیا ہمیں حیا نہیں آئے گی؟ تب ہی ہمارے مزاج کا ٹھیراؤ بتائے گا کہ ہم باحیا زبان کے مالک ہیں یا تیز دھار زبان کے۔ یہ سبھی کو پتا ہے کہ افضل مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔
منافق کا زبان کی حیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی زبان حیا و حفاظت کے حجاب کے بغیر ہی ہوتی ہے، اور معمولاتِ زندگی میں سب سے زیادہ نقصان بے حیا زبان سے ہی ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر روز جسم کے اعضا زبان سے یہ کہتے ہیں کہ تُو سنبھل کر رہنا، تیرے نہ سنبھلنے کی وجہ سے ہم جہنم میں جائیں گے۔ اسی لیے بزرگ کہتے ہیں کہ زبان کی حیا کو قائم رکھنا ہے تو بری بات کہنے سے بہتر ہے خاموش رہو۔
ایک جگہ پر تلوار، خنجر، تیر اور چھری کی بحث چل رہی تھی کہ گہرا زخم کس کا ہوتا ہے، اور زبان مسکرا رہی تھی کہ کچھ بھی کرلو زخم تو میرا ہی گہرا ہے۔ یہی حال ہماری محفلوں کا ہے۔ کوئی متکبر چار لوگوں میں بیٹھ کر کسی غیر موجود کو نیچا دکھانے کے لیے اُس کی برائی کرتا ہے تو حیا تو اُن چار لوگوں کو بھی آنی چاہیے جو کھانوں سے زیادہ غیبت انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں ہمیں مختلف قسم کے روّیوں کا سامنا ہوتا ہے۔
اگر ہم تیس، پینتیس سال پیچھے مڑ کر معاشرتی رویوں کو دیکھیں تو گزرے زمانے اور انٹرنیٹ کے اِس عہد میں لوگوں کے روّیوں میں امتیاز نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے منفی روّیے مار دیتے ہیں اور مثبت روّیوں سے ترقی یافتہ معاشرے بنتے ہیں۔ برے روّیوں سے معاشرے کا چلن ہی بدل جاتا ہے۔ دو، تین عشرے پہلے تک بھی جیسے ہمارے چچا، ماموں، تایا، یا ہر محلے یا گلی میں ایک رعب دار شخص ہوتا تھا جو کسی کو غلط کام پر آرام سے ڈانٹ دیتا تھا اور کسی کو اعتراض نہ ہوتا تھا، اور عورتیں اُن سے حیا کرتی گزر جاتی تھیں۔ معاشرے میں ہر انسان کا روّیہ اس کی پہچان ہوتا ہے۔ ہماری سوچ کی وضاحت ہمارے روّیوں سے ہوتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی روّیے کسی حد تک ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں، ہمارے اجتماعی رویوں سے سماجی انتشار پھیل سکتا ہے۔
انسان نے مادّی ترقی کرلی ہے لیکن ہمارے روّیوں میں سستی اور کاہلی آگئی ہے۔ میں یہاں سوک سینس کا ذکر ضرور کروں گی۔ شہری حقوق جن میں گاڑی غلط پارک کرنا، غلط اوورٹیک کرنا، کچرا کوڑے دان میں نہ ڈالنا، لائن میں نہ لگنا، ٹینٹ لگا کر راستہ بند کرکے محفل سجانا… یہ سب ہمارے منفی روّیے ہیں۔ اگر شہری اپنے منفی روّیوں کی ذمے داری قبول نہیں کرے گا تو اُسے ان سے حیا بھی نہیں آئے گی۔ شہری کو اپنے روّیوں کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی اور اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا تبھی وہ اپنے روّیوں کو باحیا بنا سکتا ہے۔ بچے ہمارے روّیوں کی نقل اتارتے ہیں اور پھر یہ بات بہت آگے تک جا پہنچتی ہے۔
میری ایک دوست کے پاس تین بھائی پڑھنے آتے ہیں، ایک دن صرف دو بھائی آئے اور اپنے تیسرے غیر موجود بھائی کی برائیاں کرنے لگے۔ میری دوست نے کہا ’’کیوں اپنے بھائی میں کیڑے نکال رہے ہو!‘‘ ایک بچہ بولا ’’مس! اس کے کیڑے نکال ہی رہے ہیں نا، ڈال تھوڑی رہے ہیں۔‘‘
یعنی الزام اور غیبت کے نقصان کے بارے میں پتا ہی نہیں۔ دراصل احساسات ہی ہمارے روّیے ہیں، اگر میں بے حس ہوں تو میرا روّیہ بھی سخت ہوگا، اور اگر میرے اندر احساس ہے تو میرا روّیہ بھی خوب صورت پھولوں، رنگوں، تتلیوں، اڑتے بادلوں، بھیگے موسموں اور ٹھنڈی ہواؤں جیسا ہوگا اور مجھے سخت روّیہ رکھنے سے حیا آئے گی۔
مجھے اور معاشرے کو اخلاق کا حجاب، محبت کا حجاب، میٹھے بول کا حجاب اور سلجھے روّیوں کا حجاب چاہیے۔

حصہ