اجتماعی شادی اور مذہبی ہم آہنگی

170

معاشرے میں پھیلی عدم تحفظ و عدم برداشت کی فضا نے جہاں دیگر خوشیوں اور تہواروں کو ایک حسرت میں تبدیل کردیا ہے، وہاں شادی جیسے مذہبی اور سماجی بندھن کو بھی غریب اور متوسط طبقے کے لیے مشکل بنادیا ہے۔
ہندو مذہب کے پیروکار پاکستا ن میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر زندگی بسر کررہے ہیں۔ قیام پاکستان سے ہندو کمیونٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ شادیوں کے حوالے سے بھی رہا ہے۔ طویل عرصے تک ہندو شادی ایکٹ نہ ہو نے کی وجہ سے ہندو اپنی شادیوں کی قانونی حیثیت سے محروم رہے۔ ہندو کمیونٹی کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے کے چند باہمت اور پُرخلوص افراد نے غریب و نادار بچوں کی شادی کا بیڑا اٹھایا۔ ہندو کمیونٹی کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے پندرہ برس قبل پاکستان ہندو کونسل کے پلیٹ فارم سے ہندو واسیوںکی شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہندو میرج سرٹیفکیٹس کا اجرا اورسالانہ بنیادوں پر اجتماعی شادیوں کی تقاریب کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی 9 جنوری کو کراچی میں پاکستان ہندو کونسل کے زیر اہتمام اجتماعی شادیوں کے سلسلے کی پندرہویں رنگارنگ تقریب منعقد کی گئی، جس میں پاکستا ن بھر سے ہندو برادری کے مرد، خواتین، بچے اور بزرگ جمع تھے۔
وسیع و عریض میدان میں ہر جگہ ہندو ثقافت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے، موسیقی کی دھن اور خوش لباس شرکا کے چہروں پر بکھری مسکراہٹیں ایک الگ ہی منظر پیش کررہی تھیں۔ مکمل مذہبی و ثقافتی پیرائے میں اجتماعی شادی کی یہ تقریب سجائی گئی تھی جہاں 77 ہندو جوڑوں کی شادی انجام پائی۔ پنڈال کو خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ اجتماعی شادی کی تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان بیت المال سمیت مختلف فلاحی ادارے اور مخیر خواتین و حضرات بھی اپنا کردار بہ خوبی نبھاتے ہیں، پاکستا ن ہندوکونسل کے توسط سے یہ پیغام بھی بھیجا جاتا ہے کہ محب وطن پاکستانی ہندو کمیونٹی پاکستان کو اپنی دھرتی سمجھتی ہے اور اس کی ترقی و سربلندی کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے بتایا کہ میری نظر میں ہمارا یہ فیسٹیول، ہماری حب الوطنی پر مبنی عزم پاکستان کی دیگر اکثریتی و اقلیتی برادریوںکے لیے بھی ایک روشن مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں سالِ نو کا آغاز خدا کو خوش کرنے سے کرنا چاہیے، اور خدا کے نزدیک بہترین کام کسی کا گھر بسانا ہے، مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں خدا کے فضل و کرم سے گزشتہ پندرہ سال میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ مجموعی طور پر پندرہ سو سے زائد گھر آباد کرا چکا ہوں۔ ہندو کمیونٹی سے منسلک وہ سیکڑوں خاندان جو تنگ دستی کے باعث اپنے بچوں اور بچیوں کی شادی کے وسائل نہیں رکھتے، اُن کے خوشیوں سے بھرپور چمکتے دمکتے چہرے دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ خدا اس عظیم نیکی کے طفیل پاک سرزمین پر اپنی رحمتوں کا نزول جاری رکھے گا۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں شرکا کے ساتھ اجتماعی شادی کی یہ تقریب بڑے خوش گوار انداز میں ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ ہمیں نفرتوں کو رد کرکے امن و محبت کا پیغام عام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اقلیت اور اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکر برداشت، رواداری اور امن کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے، ہندو کمیونٹی کے اس عظیم الشان اجتماع نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پاکستا ن میں غیر مسلم اپنی سماجی و مذہبی تقریبات منانے کے لیے آزاد ہیں۔
اجتماعی شادی کی تقریب میں شریک انیتا کماری نامی لڑکی نے بتایا کہ وہ اپنے گھر والوںکے ساتھ اس تقریب میں شرکت کے لیے آئی ہیں، ان کے رشتے دار کی بھی اس اجتماع میں شادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر کے مقابلے میں یہاں اس طرح اجتماعی شادی میں بہت مزا آرہا ہے اور اپنی ہی برادری کے بہت سے افراد دیکھنے کو مل رہے ہیں جن سے ہم بہت عرصے سے نہیں ملے تھے۔
کراچی کے رہائشی گوتھم گوندکا کہنا تھا کہ ہندو اجتماعی شادی کی تقریب میں ہر شعبۂ زندگی کی نمایاں شخصیات کی موجودگی نے ثابت کردیا کہ چند فیصد شدت پسند عناصر کے سوا پاکستان بھر کے عوام کی اکثریت برداشت، تحمل اور رواداری پر مبنی پاکستانی معاشرہ دیکھنے کی خواہاں ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا ہندو ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان میں رہتے ہوئے کسی خاص مشکل کا سامنا ہے؟ تو اُن کا جواب تھا کہ جو مسائل ملک کی باقی 93 فیصد آبادی کو درپیش ہیں، اقلیتی 7 فیصد آبادی کو بھی وہی مسائل درپیش ہیں۔ یہ ملک سوہنی دھرتی ہے، تمام دنیا سے اچھا… مگر یہاں انصاف کی کمی ہے۔ ہر سال اس موقع پر پاکستان کی سلامتی و خوش حالی، علاقائی امن و استحکام اور ملک بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے خصوصی دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں جس میں ہندو، مسلمان و دیگر مذاہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ہے۔

حصہ