گلاب کھلنے دیں

242

’’حیرت ہوتی ہے کلاس میں آپ کے دونوں بچوں کی کارکردگی دیکھ کر، ایک بچی اتنی لائق، ذہین، قابل، اور اس کا بھائی…!‘‘ ہلکی سی تمسخرانہ مسکراہٹ لبوں پر آئی اور انھوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بڑی دلہن کا جہیز اتنا قیمتی نہیں جتنا چھوٹی کا ہے، الیکٹرانکس کا بھی اتنا سامان لائی ہے کہ گھر میں رکھنے کی جگہ نہیں۔ حد تو یہ کہ سسرالیوں کے بھی جوڑے ہیں، وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک۔‘‘
یہ جملے بڑے تفاخر سے ہر آنے جانے والوں کی سماعت میں انڈیلے جا رہے تھے۔
’’اتنی اچھی جاب مل گئی تمھارے بھائی کو، حالانکہ تم سے چھوٹا ہے۔ کچھ تو شرم کرو، سارے گھر کا خرچا وہی اٹھا رہا ہے، حالانکہ تمھاری پڑھائی پر کتنا پیسہ لگایا۔‘‘
’’ارے! تمھاری بہنیں تو اتنی خوب صورت نہیں، تم کس پر چلی گئیں…! چمکتی رنگت، پُرکشش خدوخال، دراز قد…‘‘
یہ اور اس جیسے توصیفی یا طنزیہ جملے جو دو بہنوں، بھائیوں یا بہن بھائی کے درمیان موازنہ کریں… ان کی صلاحیتوں، قابلیت، ہنر، پیسہ یا ملازمتوں کا فرق اس طرح واضح کریں کہ دوسرا فریق بے قصور ہوتے ہوئے بھی ندامت محسوس کرے اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائے، یہ ایسے نادیدہ لیکن افسوس ناک بلکہ خطرناک پہلو ہیں جو معاشرے میں مایوس اور کم حوصلہ افراد تیار کررہے ہیں جس کے نتائج پریشان کن ہیں۔ یہ ایسے افراد ہوں گے جو زندگی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔ لوگوں کی باتوں، ان کے طنز، مذاق کا ڈر انہیں پیچھے دھکیلتا چلا جاتا ہے، قوتِ فیصلہ کمزور ہوجاتی ہے، اور یہ جملے کہنے والے بھی غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور اساتذہ بھی ہوتے ہیں۔
بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا… موازنہ عمر کے کسی بھی حصے میں کیا جائے، یہ ہمیشہ منفی جذبات پروان چڑھاتا ہے۔ آپ کی رہی سہی صلاحیتوں کو بھی دبا دیتا ہے۔ تعجب تو اس پر ہے کہ فخر بھی اُس خوبی پر کیا جاتا ہے جس میں انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اب وہ حسین صورت ہو یا دراز قامتی، ذہانت ہو یا اعلیٰ عہدہ، یہ سب اللہ کی دین ہے، وہ چاہے تو نواز دے اور چاہے تو محروم رکھے۔
آج ہمارا معاشرہ نمبروں کی دوڑ، وجاہت، اور مال و اسباب کی زیادتی کا شکار ہے۔ ہر کوئی مخصوص عینک لگا کر اسی کو کھوج رہا ہے۔ اعلیٰ اوصاف حقیقتاً کس کو کہتے ہیں، اس سے سب ناواقف ہیں۔
موازنہ ہی کرنا ہے تو اُن جہتوں میں کیجیے جن میں انسان خود کمال حاصل کرسکتا ہے۔ حُسنِ اخلاق، سیرت، کردار، نیکیوں میں سبقت، حقوق العباد، حقوق اللہ… یہ وہ عوامل ہیں جن میں آپ آگے بڑھنے کی کوشش کرسکتے ہیں، اور دیکھنے والے ان میں موازنہ کرتے ہوئے بھی اچھے لگیں گے، کیوں کہ یہ خالصتاً آپ کی اپنی کاوشوں پر منحصر ہوگا اور اس کا سارا اعزاز بھی آپ کی ذات کو دیا جائے گا۔
لہٰذا آئندہ موازنہ دو بہنوں کی دلکشی پر، یا دو بھائیوں کی نوکری پر نہیں، بلکہ تقابل اس طرح ہونا چاہیے کہ بڑی بہن تو ہر ایک سے حُسن سلوک سے ملتی ہے تو چھوٹی کیوں نہیں؟ یا بڑا بھائی اپنے پرائے سب کے کام آتا ہے لیکن چھوٹا ذرا فاصلے سے رہتا ہے۔ اسکول میں ایک بچی تو اپنے ہم جماعتوں کی بڑی مدد کرتی ہے، لیکن اس کا بھائی نہیں۔
اس تقابل سے دوسروں کو بھی نیکی اور خیر خواہی کی ترغیب ملے گی۔ وہ بھی اچھی عادات اپنانے کی کوشش کریں گے۔ ہمدردی کا جذبہ موجزن ہوگا۔ ہمیں معاشرے کے سدھار کی کوشش کرنی ہے۔ خاندانوں میں بہتری کی ضرورت اور اعلیٰ اقدار کو پروان چڑھانا ہے۔ ان پھولوں سے سارا گلستان مہکانا ہے۔ انہیں کھلنے سے قبل ہی مسلنا یا مرجھانے کی طرف مائل نہیں کرنا۔ اگر ذہانت اس درجے کی نہیں تو مہارت تو ہوگی۔ مال و متاع نہیں تو حُسنِ سیرت ہوگی، شکل صورت واجبی سہی، اخلاق کی بیش بہا دولت تو ہوسکتی ہے۔
المختصر… امارت، وجاہت، قابلیت، اسباب، جوانی، طاقت و توانائی ہو یا اس جیسی دوسری خوبیاں… سب وقتی اور چند روزہ ہیں۔ دیرپا اور پائیدار صرف وہی ہوتی ہیں جو آپ نے اپنی محنت سے حاصل کی ہوں، اور مقابلہ بھی پھر اسی میں ہو تو جائز ٹھیرے گا۔

حصہ