فشار خون(بلڈ پریشر)

552

خون رگوں میں دوڑتے وقت جو دبائو رگوں پر ڈالتا ہے اسے’’فشارِ خون‘‘ یا ’’بلڈ پریشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی جب بھی قلب کا بایاں بطن سکڑتا ہے تو اس کے دبائو سے صاف خون رگوں میں‘ جنہیں شریانیں‘ کہا جاتا ہے‘ قوت کے ساتھ چلا جاتا ہے اور یہی دبائو جو کہ خون شریانوں کی دیواروں پر ڈالتا ہے ’’فشارِ خون‘‘ ہے۔
شریانوں میں لچک ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پھیلتی اور سکڑتی رہتی ہیں اس طرح خون کے بہائو میں مدد ملتی ہے جب خون کی رگیں کسی وجہ سے تنگ ہو جائیں یا ان میں لچک کم ہو جائے تو خون کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو دبائو کے بڑھ جانے کا سبب بن جاتی ہے اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ جب ہم نل سے ربر کا پائپ لگا کر پودوں کو پانی دیتے ہیں تو ایک محدود فاصلے تک ہی پانی کی دھار جاسکتی ہے لیکن جب پائپ کو دبا کر یا اس کے سوراخ پر انگلی رکھ کر بہائو میں رکاوٹ پیدا کر دیتے ہیں تو پریشر بڑھ جاتا ہے اور پانی کی دھار دور تک جانے لگتی ہے۔
جب بھی بلڈ پریشر کو ناپ کر اسے ہندسوں میں بیان کیا جاتا ہے تو دو طرح کے نمبر ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک انقباضی فشار خون یا ’’سس ٹولک پریشر‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دبائو دراصل قلب کے سکڑنے اور قوت کے ساتھ خون کو رگوں میں بھیجنے کا باعث ہوتا ہے۔ سکڑنے کے بعد قلب تقریباً آرام کی حالت میں ہوتا ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے اس طرح قلب کے دوبارہ سکڑنے سے پہلے جو پریشر شریانوں میں موجود ہوتا ہے اسے ’’فشارِ خون انبساطی‘‘ یا ’’ڈائس ٹولک پریشر‘‘ کہا جاتا ہے اور ریڈنگ پر دوسرا نمبر اسی انبساطی فشار خون کو ظاہر کرتا ہے۔ فشارِ خون کی ریڈنگ جب ہمارے سامنے آتی ہے تو اس کے نمبر کچھ اس طرح ہوتے ہیں 120/80 یا 150/95۔
120 سس ٹولک پریشر ہے اور 80 ڈائس ٹولک پریشر ہے۔ ایک جوان آدمی کا طبعی بلڈ پریشر عام طور پر 120/80 ہوتا ہے لیکن یہ بہت سے لوگوں کے پریشر کا اوسط ہے اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص کا فشارِ خون بالکل یہی ہو‘ کچھ فرق ہو سکتا ہے مگر پھر بھی وہ طبعی ہی کہلائے گا مزید یہ کہ محنت مشقت کرتے وقت یا جذباتی ماحول میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے جس سے کوئی تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی اس لیے وہ بھی طبعی ہی کہلائے گا۔
ایک چالیس سال سے کم عمر شخص کا فشار خون تین دن تک متواتر 140/90 رہے جب وہ مکمل آرام بھی کر رہا ہو اور خون کے دبائو کا معائنہ بھی دن میں تین بار کیا جا رہا ہو تو سمجھنا چاہیے کہ وہ فشار خون قوی یعنی ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے۔ چالیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں 160/95 سے زیادہ دبائو خطرے کی حدود میں لے جاتا ہے۔ کئی دن تک یا ایک ہی روز میں کئی بار فشار خون کا معائنہ کرنے کی ضرورت یوں پڑتی ہے کہ بعض افراد وقتی طور پر معالج یا اسٹاف یا کسی اور وجہ سے متاثر ہو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے ان کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کے اسباب کا ابھی تک پوری طرح پتا نہیں چل سکا ہے۔ کبھی اس کا سبب ایک ہوتا ہے اور کبھی اسباب ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ مرض کبھی والدین سے اولاد میں منتقل ہو جاتا ہے۔ گردوں کے امراض اس کا سب سے اہم سبب ہیں۔ کبھی دماغ میں پیدا ہونے والے بعض ہارمونز اثر انداز ہوتے ہیں اور کبھی حالات یا اطراف کا ماحول ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن جاتا ہے۔
موسم‘ نارمل بلڈ پریشر پر اثر انداز نہیں ہوتے مگر حال ہی میں اوسکا یونیورسٹی میڈیکل اسکول جاپان کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گرمیوں کی بہ نسبت سردیوں میں دبائو تھوڑا سا بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ بھی بلڈ پریشر میں اضافہ ہو سکتا ہے مگر اس کا انحصار بھی خون کی رگوں کی لچک کم ہونے پر ہوتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ خون کی رگوں میں لچک کم ہو جاتی ہے دوسرے درازیٔ عمر کے ساتھ وزن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ بھی بلڈ پریشر بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔ عموماً سس ٹولک پریشر میں عمر کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا ہے مگر ڈائس ٹولک پریشر کو نہیں بڑھنا چاہیے۔ اسی طرح اعصابی دبائو‘ خاندانی اور گھریلو الجھنیں‘ معاشی دشواریاں‘ بہت زیادہ شور و غل اور مشقت کی زیادتی بھی فشارِ خون بڑھانے اور امراضِ قلب پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔
تمباکو نوشی کے بارے میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا کہ یہ امراضِ قلب پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تمباکو میں موجود نکوٹین کچھ ایسے مادے پیدا کرتی ہے جو کہ دل کی حرکات اور عصبی دبائو بڑھا دیتے ہیں اور خون کی رگوں میں تنگی پیدا کر دیتے ہیں۔ کارڈیو وسیکولر سینٹر نیویارک اسپتال نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تمباکو نوشی اور گردے میں موجود خون کی رنگ (رینل آرٹری) کے بند یا تنگ ہو جانے کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
فشارِ خون کے مریضوں کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور کس قدر کھاتے ہیں۔ مٹاپا نہ صرف بلڈ پریشر بلکہ بہت سے امراضِ قلب کو بھی دعوت دیتا ہے۔ وزن کم کرنے کے ساتھ ساتھ خون کے دبائو میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔ کافی کے بارے میں ڈیوک یونیورسٹی اور ہارورڈ اسکول نے تحقیقات کرکے بتایا کہ اس سے یقینی طور پر بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو کہ فکر و تشویش میں گھرے رہتے ہیں۔ مثلاً کاروباری لوگ‘ دفتروں میں یا مشینوں پر کام کرنے والے افراد اسی طرح سبزی خور افراد کے مقابلے میں گوشت خور افراد فشارِ خون بڑھانے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
کام کرتے وقت زیادہ زور لگانے سے قلب کی دیواروں پر زیادہ دبائو پڑتا ہے اس کے نتیجے میں دل پھیل جاتا ہے خون کا زیادہ دبائو خون کی رگوں میں چربیلے اجزا کے جمنے میں مدد کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ تنگ ہوتے ہوتے بالکل بند بھی ہو سکتی ہیں۔
امریکا میں ہر سال بلڈ پریشر کی وجہ سے خاصی اموات ہوتی ہیں۔ امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کیے اعداد و شمار کے مطابق 1981 میں کینسر کے مقابلے میں ہائی بلڈ پریشر کی بدولت دگنی اموات ہوئیں۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا میں ہر چوتھا فرد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو وہاں چار کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے آدھے افراد ایسے ہیں جنہیں اپنے مرض کی خبر تک نہیں ہے۔ دراصل بلڈ پریشر کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔ دو مریضوں کی علامت ضروری نہیں ہے کہ یکساں ہوں‘ مریض بعض اوقات اپنے مرض سے بے خبر رہتا ہے اور اس کا عقدہ اسی وقت کھلتا ہے جب اتفاقاً بلڈ پریشر کا معائنہ کر لیا جائے یا مرض شدت اختیار کر جائے یہی وجہ ہے کہ اس مرض کو ’’بے آواز مہلک‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
اس ’’بے آواز مہلک‘‘ مرض کی چند عمومی علامتیں ایسی ہیں جن کو محسوس کرتے ہی چوکنا ہو جانا چاہیے‘ علامات یہ ہیں سر کا درد‘ اختلاجی کیفیت‘ چہرے کی تمتماہٹ‘ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجانا‘ ناک سے خون جاری ہونا‘ مشقت کرتے وقت یا سیڑھیاں چڑھتے وقت سانس پھول جانا‘ ہر وقت تھکاوٹ کا احساس‘ پیشاب کی کثرت (خصوصاً رات کے وقت) کانوں کا بجنا‘ چکر آنا ان میںسے کوئی علامت یا چند علامات جب بھی محسوس ہوں‘ معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
بلڈ پریشر کس حد تک مکمل طور پر ٹھیک ہو سکتا ہے‘ یہ سوال بڑا اہم ہے۔ اکثر ایسے فشارِ خون جو وراثت میں ملے ہوں یا جن کے اسباب بہت پیچیدہ یا نامعلوم ہوں‘ آسانی سے ٹھیک نہیں ہوا کرتے تاہم انہیں دوائوں اور احتیاطی تدابیر سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔گُردوں کی خرابی یا خون میں کولیسٹرول کے بڑھ جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے فشارِ خون عموماً ٹھیک ہو جاتے ہیں اگر بلڈ پریشر کا علم عرصہ تک نہ ہو سکے یا علاج میں بے پروائی برتی جائے تو دورۂ قلب کے لیے راہ ہموار کرتا رہتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے جائزے کے مطابق ایک پینتیس سالہ شخص جس کا بلڈ پریشر ٹھیک ہو‘ 76 سال تک زندہ رہنے کی امید رکھتا ہے لیکن اس کا بلڈ پریشر اگر 140/95 رہے اور کوئی علاج نہ یا جائے تو اس کی عمر ساٹھ سال رہ جائے گی۔ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سیاہ فام اقوام‘ سفید فام کے مقابلے میں تقریباً دگنا مبتلائے مرض ہوا کرتی ہیں اور عورت و مرد اس مرض کے یکساں شکار ہوتے ہیں۔
اگر فشار خون بہت زیادہ بڑھا ہوا ہو تو اسے کم کرنے کے لیے پیشاب آور ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں تاکہ خون سے پانی خارج ہو جائے اور اس کا حجم کم ہو کر دبائو میں بھی کمی آجائے۔ عام طور پر چالیس سے پچاس فیصد مریض ان ادویہ کے چھ سے آٹھ ہفتے استعمال کی بہ دولت اپنے خون کے دبائو میں کمی کر لیتے ہیں۔ مگر ان دوائوں کے بار بار یا عرصہ دراز تک استعمال سے بعض مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں مثلاً جسم میں پوٹاشیم کی کمی ہو جاتی ہے۔ جوڑوں میں درد رہنے لگتا ہے اور خون میں کولیسٹرول بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ساتھ ہی گردوں پر بار پڑنے کی وجہ سے وہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
جب پیشاب آور ادویہ سے کام نہیں چلتا تو پھر ایسی دوائیں استعمال کروائی جاتی ہیں جو براہِ راست قلب کے عضلات‘ خون کی رگوں اور دماغ و اعصاب پر اثر انداز ہو کر خون کے دبائو کو کم کرتی ہیں‘ یہ مخصوص قسم کے ہارمونز کی پیدائش کو بھی کم کرتی ہیں۔ یہ ہارمونز ذہنی دبائو کے وقت براہِ راست خون میں مل کر قلب کی حرکات کو تیز کر دیتے ہیں اس طرح خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے۔ ان ادویہ کے بھی مضر اثرات ہیں مثلاً طبیعت میں گراوٹ‘ تکان کا احساس اور جنسی کمزوری وغیرہ۔ اس کے بعد ایسی دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں جو خون کی رگوں کو پھیلانے والی ہیں۔ رگوں کے پھیلنے سے دورانِ خون میں رکاوٹ کم ہو جاتی ہے جس کا خون کے دبائو پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے مگر اس کے مضر اثرات بھی ان گنت ہیں اس لیے اب کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ غذا اور احتیاطی تدابیر کی مدد سے مرض کا علاج کیا جائے اور انتہائی مجبوری میں کم سے کم ادویہ استعمال کرائی جائیں‘ اس طرح مریض مالی مشکلات سے بھی بچے رہیں گے۔
ابتدائی مرض میں بہتر ہوگا کہ اپنا وزن کچھ کم کر لیا جائے۔ سگریٹ و شراب نوشی بند کر دی جائے‘ کم کم استعمال ہو اور مناسب ورزشیں کی جائیں۔ چکنائی کے استعمال میں کمی کر دینی چاہیے اگر ضروری ہو تو ایسے تیل استعمال کرنے چاہئیں جو جمتے نہیں ہیں اور پیشاب آور ہیں مثلاً سورج مکھی کا تیل یا مکئی کا تیل۔
ریشے دار غذائیں مناسب رہتی ہیں۔ سب سے زیادہ ریشے جس غذا سے فراہم ہوتے ہیں وہ اناج کی بھوسی ہے‘ پھر چھلکے والی دالوں اور سیم کی پھلی وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔ سیب‘ بند گوبھی‘ پھول گوبھی‘ مٹر‘ کیلا‘ مکئی‘ آلو‘ ناشپاتی‘ کشمش‘ خوبانی‘ گاجر‘ چقندر اور آڑو بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بلڈ پریشر کے مریض کو سب سے پہلے نمک سے پرہیز کرایا جاتا ہے اس موضوع پر تقریباً 80 سال سے تحقیق ہو رہی ہے‘ معدنی نمک میں سوڈیم کی مقدار چالیس فیصد ہوتی ہے۔ ہمارے جسم کو روزانہ تقریباً دو سو ملی گرام سوڈیم درکار ہوتا ہے جب کہ ہم اس سے تیس گنا زیادہ استعمال کرتے ہیں چونکہ سوڈیم جسم میں پانی کو روکے رکھتی ہے اس لیے خون کے حجم میں اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ بلڈ پریشر کے بڑھ جانے کا باعث بنتا ہے لیکن نمک کا بالکل بند کر دینا بھی مضر ہوتا ہے ہاں ضرورت کے لحاظ سے اس میں کمی جا سکتی ہے۔ غذا میں نمک کی کمی کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان چیزوں سے بچا جائے جو بہت زیادہ نمکین ہوتی ہیں۔ مثلاً ڈبوں میں بند محفوظ شدہ غذائیں‘ خشک مچھلی یا گوشت‘ چائے کے ساتھ پیش کی جانے والی نمکین چیزیں‘ وہ تمام غذائیں جن میں سوڈا یا بیکنگ پائوڈر استعمال ہوا ہو۔ اچھا یہ ہوگا کہ ایسے مریض سالن میں اگر نمک استعمال کریں تو روٹی پھیکی لیں۔ کھانا کھاتے وقت نمک چھڑکنا زیادتی ہے‘ سینے کی جلن اور معدے کی تیزابیت دور کرنے والی اکثر دوائوں میں بھی سوڈیم کی کثرت ہوتی ہے۔ چائنز نمکیات‘ سویا ساس‘ ٹیمیری اور اجینو موتو بھی سوڈیم سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ایک پیالی دودھ میں تقریباً ایک سو بیس ملی گرام سوڈیم ہوتا ہے۔ بعض معدنی پانی بھی اپنے اندر سوڈیم کی کثیر مقدار رکھتے ہیں اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ بغیر نمک کی غذا استعمال کیجیے تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ کی ایک وقت کی غذا میں پانچ ملی گرام نمک ہونا چاہیے۔ اگر معمولی نمک استعمال کرنے کا مشورہ دیا جائے تو پینتیس ملی گرام نمک لیا جاسکتا ہے اور اگر نمک کی مقدار کم کرنے کا مشورہ دیا جائے تو ایک سو چالیس ملی گرام نمک ایک وقت کے کھانے میں استعمال ہوگا۔
جدید ادویہ کے استعمال کے علاوہ اب کئی دوسرے طریقوں سے فشارِ خون پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ان میں چین کا مشہور طریقہ علاج ایکو پنکچر ہے جو کامیاب ثابت ہو رہا ہے دوسرے ’’زون تھراپی‘‘ ہے جس میں ہاتھوں اور پیروں کی مخصوص طریقے پر مالش کرکے دوران خون اعتدال پر لایا جاتا ہے۔ بعض لوگ ’’یوگا‘‘ کے طریقوں سے عضلات‘ اعصاب اور دماغ پر سے کھنچائو کم کرکے فشارِ خون کا علاج کرتے ہیں۔
یونانی طریقہ علاج میں علاج کے ساتھ ساتھ مرض کا اصل سبب تلاش کرکے اسے رفع کرنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ اگر پیشاب آور ادویہ کی ضرورت پڑتی ہے تو سونف‘ ککڑی و کھیرے کے بیج اور گوکھرو تین تین گرام پانی میں پیسنے کے بعد چھان کر صبح و شام پلائے جاتے ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ پیشاب خوب آتا ہے بلکہ یہ ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے خون کی حدت بھی کم کرتے ہیں اور گردوں کی ساخت کو نقصان بھی نہیں پہنچاتے۔ دماغ و اعصاب کو تسکین دے کر حرکاتِ قلب کو کم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو مشہور زمانہ دوا ’’چھوٹی چندن‘‘ یا ’’اسرول‘‘ اسرول استعمال کرائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عود صلیب جدوار‘ اسطوخودوس بھی فائدہ کرتی ہے انہیں مختلف طریقوں سے استعمال کرایا جاتا ہے۔
جہاں خون کی رگوں کو کھولنے اور دل کی فرحت و طاقت پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے اس سلسلے میں ادویہ یونانی طب میں بے شمار ہیں۔ مثلاً عرقِ گلاب‘ عرقِ بید مشک‘ عرقِ کیوڑہ‘ شربتِ گڑھل‘ شربتِ صندل‘ خمیرۂ صندل‘ خمیرۂ مروارید‘ مربہ آملہ‘ مربہ گاجر‘ مربہ سیب اور اسی طرح کی بہت سی ادویہ‘ لہسن کا استعمال بھی زمانہ قدیم سے ہوتا آرہا ہے اس سے تیار شدہ گولیاں اور معجون بھی دستیاب ہیں مگر تازہ لہسن زیادہ فائدہ کرتا ہے اس کے جووں کو ثابت نہیں نگلنا چاہیے یا تو پیس کر چٹنی بنا لی جائے یا باریک باریک تراش کر پانی کے ساتھ نگل لیا جائے‘ یہ خون میں بڑھے ہوئے کولیسٹرول کو کم کرتا ہے اور رگوں کی لچک بھی برقرار رکھتا ہے۔ سہاجنے کی پھلیوں اور پھولوں کا استعمال بھی مفید ہے۔

حصہ