قیصروکسریٰقسط(40)

267

شامی افسر بظاہر مطمئن ہوچکا تھا لیکن عاصم کا دل گواہی دے رہا تھا کہ اُس کے شبہات دُور نہیں ہوئے۔
سرائے کے مالک نے پوچھا۔ ’’جناب! کھانے کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟‘‘۔
شامی افسر نے جواب میں کہا۔ ’’کھانا تیار ہوچکا ہے تو لے آئو‘‘۔
وہ بولا۔ ’’جناب! آپ کے لیے کھانا تیار ہوچکا ہے۔ لیکن آپ اندر تشریف لے چلیں یہاں یہ لوگ آپ کو پریشان کریں گے‘‘۔
شامی نے عاصم سے کہا۔ ’’میرے خیال میں آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا ہوگا۔ چلیے، کھانے کے بعد ہم آپ کے سفر کا بندوبست کردیں گے‘‘۔
جب وہ کمرے کے دروازے کے قریب پہنچے تو شامی نے اپنے ایک آدمی کو الگ بلا کر کوئی بات سمجھائی اور وہ اُس چھپر کی طرف بھاگ گیا، جس میں گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ پھر جب عاصم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے وقت مڑ کر دیکھا تو وہ ایک گھورے پر سوار ہو کر سڑک کا رُخ کررہا تھا۔
عاصم کو تھوڑی دیر قبل یہ اطمینان تھا کہ اگر یہ لوگ واپس چلے جائیں تو فسطینہ اور اُس کی ماں مزید خدشات کا سامنا کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکیں گی۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ یروشلم جانے کے لیے تیار تھا اور اُسے اس بات کی کوئی پروا نہ تھی کہ وہاں اُس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ لیکن اب اُسے یہ بات پریشان کررہی تھی کہ ان میں سے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا چکا ہے اور اگر اُسے چوکی کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے تو اُسے واپس آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چوکی کے سپاہی اُس کے ساتھ آجائیں اور وہ فسطینہ اور اُس کی ماں کو تلاش کرنے کے لیے اس علاقے کا گوشہ گوشہ چھان ماریں۔ پھر یہ حقیقت بھی زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتی کہ میں رومی نہیں ہوں… اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اب میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘۔
ایک نوکر نے کھانا لا کر بوسیدہ میز پر رکھ دیا۔ عاصم کی بھوک مر چکی تھی، تاہم وہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کھانا کھارہا تھا۔
شامی افسر نے کہا۔ ’’ہم دمشق کے متعلق بہت پریشان ہیں، وہاں سے متضاد خبریں آرہی ہیں۔ چند دن قبل ہم نے یہ سنا تھا کہ ہماری فوج شہر کے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرے گی۔ لیکن آج یہ افواہ گرم ہے کہ ایرانیوں نے شہر پر حملہ کردیا ہے… آپ کو صحیح حالات کا علم ہوگا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ دمشق میں ایرانی لشکر کو عبرتناک تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
شامی افسر نے عاصم کے چہرے پر نگاہیں گاڑتے ہوئے کہا۔ ’’یہ عورتیں جنہیں ہم تلاش کررہے ہیں ایرانیوں کی جاسوس ہیں۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایک رومی افسر بھی اُن کے ساتھ ہے لیکن خدا معلوم یہ لوگ کہاں غائب ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ کسی بستی میں چھپے ہوئے ہیں۔ تاہم میں نے احتیاطاً ایک آدمی کو آگے بھیج دیا ہے اگر وہ آگے نکل گئے ہیں تو چوکی کے آس پاس کسی بستی سے اُن کا سراغ مل جائے گا‘‘۔
عاصم نے پوچھا۔ ’’آپ کب سے اِن جاسوسوں کا پیچھا کررہے ہیں؟‘‘۔
’’کل سہ پہر سے ہم نے ایک لمحہ آرام نہیں کیا۔ یروشلم کی فوج انہیں الرقیم کے راستے پر تلاش کررہی ہے۔ لیکن شہر کے حاکم کو یہ شبہہ تھا کہ وہ ہمیں چکما دے کر دمشق پہنچنے کی کوشش کریں گی۔ چنانچہ مجھے اِس راستے پر اُن کا پتا لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم راستے کی کسی بستی میں چھپ کر اُن کا انتظار کریں گے لیکن یروشلم سے چند میل دور ہمیں دمشق سے آنے والے سپاہی ملے اور انہوں نے بتایا کہ ہم نے ان جاسوسوں کو ایک رومی افسر کے ساتھ راستے میں دیکھا ہے۔ میں دس آدمی پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اِس وقت تک سڑک کے آس پاس تمام بستیاں چھان ماری ہوں گی۔ جب ہمارا ساتھی اگلی چوکی سے اُن کا پتا معلوم کرکے آجائے گا تو ہم بھی واپس ہوجائیں گے آپ کو یقین ہے کہ چوکی خالی ہوچکی ہے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہوسکتا ہے کہ وہاں دوچار آدمی موجود ہوں، لیکن گھوڑے وہاں نہیں تھے؟‘‘۔
اچانک باہر گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور چند ثانیے بعد ایک سرپٹ سوار نے صحن میں جمع ہونے والے لوگوں کے قریب پہنچ کر پوری قوت سے گھوڑے کی باگیں کھینچیں اور نیچے کود کر بھاگتا ہوا سرائے کی طرف بڑھا۔ یہ وہی تھا جسے شامی افسر نے اگلی چوکی کی طرف روانہ کیا تھا۔ وہ ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور بے اختیار چلانے لگا۔ ’’جناب! غضب ہوگیا، ایرانی لشکر دمشق میں داخل ہوگیا ہے‘‘۔
ایک ثانیے کے لیے شامی افسر کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی پھر اُس نے اُٹھ کر پوچھا۔ ’’تم اتنی جلدی چوکی سے ہو کر واپس کیسے آگئے؟‘‘۔
وہ بولا۔ ’’جناب! فوج کا ایک دستہ مجھے راستے میں ملا ہے۔ وہ میرے پیچھے آرہا ہے۔ ایک زخمی سپاہی گھوڑے سے گر پڑا تھا، اُس نے مجھے بتایا کہ ایرانی دمشق میں داخل ہوچکے ہیں۔ میرا گھورا تازہ دم تھا، اس لیے میں اُن سے آگے نکل آیا ہوں وہ زیادہ دور نہیں ہیں‘‘۔
شامی افسر نے غضب ناک ہو کر کہا۔ ’’تم چوکی تک کیوں نہیں گئے؟‘‘۔
’’جناب یہ خبر آپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ایرانی دمشق میں داخل ہوچکے ہیں۔ اور وہاں قتلِ عام ہورہا ہے؟‘‘۔
آن کی آن میں یہ وحشت انگیز خبر صحن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ چکی تھی اور پریشان حال لوگ جن کی زبانیں تھوڑی دیر کے لیے گنگ ہوگئی تھیں، چیختے چلاتے کمرے کے اندر اور باہر جمع ہورہے تھے۔ پھر اچانک دور سے گھوڑوں کی ٹاپ اور رتھوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی اور باہر سے کوئی بلند آواز میں چلایا۔ ’’فوج آرہی ہے، فوج آرہی ہے‘‘۔ اور وہ سڑک کی طرف بھاگنے لگے۔
شامی افسر اور اُس کے ساتھی کمرے سے نکل گئے اور عاصم اُن کے پیچھے چل دیا۔ شامی افسر نے صرف ایک بار مُڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ وہ بھی اُن کے ساتھ آرہا ہے بھاگ کر سڑک کے کنارے جمع ہونے والے ہجوم سے جا ملا۔ عاصم نے اِدھر اُدھر دیکھا، صحن خالی ہوچکا تھا۔ لوگوں کی نگاہیں شام کے راستے پر لگی ہوئی تھیں۔ عاصم چند قدم، سڑک کی طرف، اُٹھانے کے بعد چھپر کی طرف مڑا اور گھوڑوں کی قطار کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ اب اُسے سڑک کی طرف سے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اُس نے ابلق گھوڑے کا توبڑا اُتار کر اُسے لگام دی، اس کے بعد دو اور گھوڑوں کے توبڑے اتارے اور ان میں جتنا اناج تھا وہ ایک توبڑے میں ڈال کر زین سے باندھ دیا پھر جلدی سے رسّا کھولا اور گھوڑے کو چھپر سے نکال کر زیتون کے درختوں میں سے گزرتا ہوا سرائے کی پچھلی طرف پہنچا اور اُس پر سوار ہوگیا۔
کچھ لوگ ابھی تک آس پاس کے مکانوں اور جھونپڑیوں سے نکل نکل کر سڑک کا رُخ کررہے تھے لیکن کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ دی۔ ایک عورت نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکنے کی کوشش کی لیکن عاصم نے اُس کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے گھوڑے کی رفتار تیز کردی۔
اس عرصے میں شامی افسر کے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آچکا تھا۔ سپاہیوں کا دستہ جو رتھوں اور سواروں پر مشتمل تھا سرائے کے قریب پہنچا تو اُن کی رفتار سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہاں نہیں رکیں گے۔ شامی افسر اچانک اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے سڑک کے بیچ میں کھڑا ہوگیا۔ اگلی رتھ پر ایک قوی ہیکل رومی نے اپنی پوری طاقت سے باگیں کھینچ کر گھوڑوں کو روکا تو شامی افسر نے قریب آکر ادب سے سوال کیا۔
’’جناب! میں آپ سے دمشق کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں؟‘‘۔
’’کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘۔ رومی نے غصے سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
’’جناب! میں نے ابھی ایک منحوس خبر سنی ہے‘‘۔
’’اور یہ منحوس خبر سننے کے بعد بھی تم راستہ روک کر ہمارا وقت ضائع کرنا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’جناب! میں پچھلی چوکی کے سپاہیوں کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔ وہ دمشق چلے گئے ہیں یا راستے سے آپ کے ساتھ لوٹ آئے ہیں‘‘۔
رومی افسر کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اُس نے کچھ کہے بغیر شامی کے ایک کوڑا رسید کردیا اور ساتھ ہی اپنے رتھ کے گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ آن کی آن میں آٹھ رتھ اور اُن کے پیچھے کوئی ڈیڑھ سو سوار آگے نکل گئے۔ اور تماشائی پریشان حال شامی افسر کے گرد جمع ہونے لگے۔ شامی افسر نے چاروں طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا۔ ’’وہ کہاں ہے؟ وہ رومی کہاں گیا؟‘‘۔
اُس کے ایک ساتھی نے جواب دیا۔ ’’جناب! وہ یہیں تھا۔ وہ ہمارے ساتھ آرہا تھا‘‘۔
شامی افسر لوگوں کو دھکے دے کر اپنے راستے سے ہٹاتا ہوا سرائے کی طرف بھاگا اور پھر صحن میں نظر دوڑانے کے بعد چلانے لگا۔ ’’اُسے تلاش کرو، اُسے پکڑو اگروہ نکل گیا تو میں تمہاری کھالیں اُتروا دوں گا‘‘۔
سرائے کے مالک نے بھاگ کر چھپر کی طرف دیکھا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’جناب! غضب ہوگیا وہ میرا ابلق گھوڑا لے گیا ہے‘‘۔
شامی افسر نے بھاگ کر ایک گھوڑے کا رسّا کھولتے ہوئے کہا۔ ’’وہ زیادہ دور نہیں جاسکتا، اُس کے ساتھی کہیں آس پاس ہی چھپے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ان عورتوں کا ساتھی ہے۔ تم جلدی سے گھوڑوں پر سوار ہوجائو‘‘۔
ایک آدمی نے کہا۔ ’’جناب ابلق گھوڑے پر ایک سوار ابھی اُس طرف جارہا تھا‘‘۔
دوسرے نے کہا۔ ’’جناب میں نے بھی اُسے دیکھا ہے لیکن وہ ایک رومی افسر تھا‘‘۔
’’بیوقوف وہ رومی نہیں تھا‘‘۔ شامی نے گھوڑے پر اچھل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
O
یوسیبیا نے اضطراب کی حالت میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’فسطینہ اسے بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب ہم کیا کریں؟‘‘۔
’’امی مجھے ڈر ہے کہ وہ گرفتار ہوچکا ہے‘‘۔
اُس نے ہمیں تاکید کی تھی کہ اگر مجھے دیر ہوجائے تو تمہیں انتظار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
’’امی آپ جانتی ہیں کہ اُس کے بغیر ہم سفر نہیں کرسکتے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دھوکا نہیں کرے گا‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’اُس کی نیک نیتی کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا گھوڑا ہمارے پاس چھوڑ گیا ہے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی میں اُس کی نیت پر شبہہ نہیں کرتی۔ مجھے صرف یہ ڈر ہے کہ اگر گرفتار کرنے والوں نے اُسے جسمانی اذیتیں دے کر ہمارا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی تو ممکن ہے کہ وہ ہمت ہار دے۔ آخر ہم نے اُس پر کون سا احسان کیا ہے کہ وہ ہماری خاطر اپنی کھال اُتروانے کے لیے تیار ہوجائے گا‘‘۔
’’امی میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دھوکا نہیں کرے گا۔ اگر وہ زندہ ہے تو ضرور واپس آئے گا۔ اُس کی صورت دیکھ کر مجھے بار بار یہ احساس ہوتا تھا کہ اگر وہ میرا بھائی ہوتا تو بھی میں اُس پر اِس سے زیادہ اعتماد نہ کرسکتی۔ میں دوبارہ ٹیلے پر چڑھ کر دیکھتی ہوں‘‘۔ فسطینہ یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی! بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اگر تمہیں دوسری طرف سے کسی نے دیکھ لیا تو یہ بہت خطرناک بات ہوگی۔ ٹھہرو میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں‘‘۔
یوسیبیا ترکش اور کمان اُٹھا کر فسطینہ کے ساتھ ٹیلے پر چڑھنے لگی۔ تھوری دیر بعد ماں اور بیٹی چوٹی پر ایک پتھر کی اوٹ سے دوسری طرف دیکھ رہی تھیں۔ ٹیلے سے کوئی آدھ میل دور دو چرواہے بھیڑوں کا ایک گلہ ہانک رہے تھے ان سے آگے ایک بل کھاتی ہوئی سڑک جس پر مسافروں کے چھوٹے چھوٹے قافلے نظر آتے تھے۔ بستی کے درختوں میں روپوش ہوجاتی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ