ماہ رحمت میں نبی رحمت ﷺ کے معمولات

405

ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے۔ رمضان کا چاند ہزاروں خوشیوں، بے شمار رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ طلوع ہوا چاہتا ہے۔ آئیے اب سے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلیں اور سیرتِ رسولؐ کے جھروکوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ اللہ کے رسولؐ اور آپؐ کے اصحابؓ یہ ماہِ مبارک کیسے گزارتے تھے۔ تصور کیجیے: مدینہ کی گلیاں ہیں، مسجدِ نبویؐ کے منبر و محراب اور صحن و دالان ہیں۔ گرد و پیش میں اصحابِ رسول کے گھر ہیں، مسجد کے ایک گوشے میں اصحابِ صفہ کا چبوترہ ہے۔
اس تصوراتی دنیا میں اِس بار ہم رمضان کی تیاری کررہے ہیں اور آمدِ رمضان پر اس کی بابرکت ساعتیں بھی اسی ماحول میں گزاریں گے۔ شعبان کا آخری حصہ گزر رہا ہے۔ آنحضورؐ اپنے اصحابؓ سے خطاب فرما رہے ہیں:
’’اے لوگو! تم پر بڑی عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں نفل نماز پڑھنے کو ذریعہ تقرب قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جو شخص ایک نفل عبادت کرے گا تو اس کو فرض کے برابر ثواب ملے گا، اور جو ایک فرض ادا کرے گا اسے ستّر فرض کے برابر ثواب ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا ذریعہ ہوگا۔ افطار کرانے والے کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے‘‘۔
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسولؐ ہم میں سے ہر شخص کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اُس شخص کو بھی یہ ثواب دے گا جو دودھ کی لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرائے گا، اور جو شخص کسی روزہ دار کو سیر کرکے کھانا کھلا دے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ اسے پھر پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔‘‘ (پھر آپؐ نے فرمایا) ’’اس مہینے کا پہلا حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ اب جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام کے کام میں آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے آزادی اور رہائی دے گا‘‘۔ (بیہقی)
آپؐ نہ صرف صحابہ کرامؓ کو رمضان کی تیاری اور استقبال کی ہدایات فرماتے ہیں بلکہ خود بھی رمضان کے استقبال کے لیے ہمہ تن مستعد ہوجاتے ہیں۔ کثرت سے روزے رکھتے، نوافل و اذکار کا اہتمام کرتے ہیں، توبہ و استغفار میں مصروف رہتے ہیں تاکہ جب قلب و روح پر اللہ کے مہمان کا نزول ہو تو وہ صالحات و برکات سے منور ہو۔ ہلالِ رمضان طلوع ہوتا ہے، نیکیوں کا موسم بہار شروع ہوتا ہے، مدینے کی فضا طہارت و پاکیزگی سے معمور نظر آتی ہے۔ سب کے چہروں پر خوشیاں دمک رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع ایک بار پھر مل رہا ہے۔
لوگ اپنی اصلاح و تربیت اور قربِ الٰہی کے حصول کے تمام ذرائع اختیار کررہے ہیں۔ کوئی قرآن کی تلاوت کررہا ہے، کوئی اس کی آیات میں تدبر و تفکر میں محو ہے۔ تلاوت کرتے ہوئے کسی پر گریہ طاری ہوگیا ہے کہ آخرت میں اللہ کی پکڑ اور عذاب کی آیات نے اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسی کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا ہے کہ وہ اُن آیات کی تلاوت کررہا ہے جن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ہے، وہ اپنے آپ کو جنت کے باغات میں گھومتا ہوا محسوس کررہا ہے۔ لوگ رمضان شروع ہوتے ہی قیام لیل کا زیادہ اہتمام کررہے ہیں، کیوں کہ انہیں اللہ کے رسولؐ نے بتا دیا ہے’’جس شخص نے ایمان و احتساب کے ساتھ قیامِ لیل کیا اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اللہ کے رسولؐ بنفسِ نفیس طویل قیامِ لیل فرماتے ہیں۔ کبھی کبھی آپؐ کے پائوں مبارک پر ورم بھی آجاتا ہے۔ بعض صحابہؓ قیامِ لیل کو تہجد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بعد میں ائمہ اس نماز کے لیے ’’تراویح‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے لگتے ہیں۔ آنخصورؐ کبھی قیام لیل کے بعد استراحت فرماتے اور بیدار ہوکر سحری تناول فرماتے ہیں۔ کبھی سحر تک قیام لیل فرماتے ہیں اور قیام لیل کے فوراً بعد سحری تناول کرتے ہیں۔ آپؐ کے تمام اصحابؓ بھی سحری کا اہتمام کرتے ہیں، کیوں کہ آپؐ نے انہیں ہدایت دی ہے ’’سحری کیا کرو کہ اس میں برکت ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اگر کسی صحابیؓ کی آنکھ حضرت بلالؓ کی اذانِ فجر سے کھلتی ہے تو وہ جلدی جلدی چند کھجور کھا کر پانی پی لیتا ہے یا دودھ یا لسی کے چند گھونٹ پی لیتا ہے، اور یوں اپنے کھانے کے عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔ آنحضورؐ اور آپؐ کے اصحاب بھی اس بات کا اہتمام کرتے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے، کیوں کہ آپؐ نے خود اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ آخرکار حضرت بلالؓ کی اذانِ فجر کی آواز مدینہ کی فضا میں گونجتی ہے۔ سحر کی پَو، رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی ہلکی ہلکی روشنی سے ماحول کو فرحت آگیں بناتی ہے۔ اذانِ فجر کے بعد آپؐ گھر پر دو رکعت ادا کرتے ہیں، آپؐ نے ان دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا کہ ’’یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (ابو دائود)
آپؐ عموماً سورہ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھتے ہیں۔ کبھی آپؐ پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 136 اور دوسری رکعت میں آل عمران کی 36 ویں آیت، اور کبھی سورۃ آل عمران کی 52 اور 53 ویں آیات تلاوت کرتے ہیں۔ (مسلم مسند احمد)
آپؐ کی یہ دونوں رکعتیں اتنی مختصر ہوتیں کہ بعض صحابہؓ کو یہ گمان ہوتا کہ آپؐ نے سورہ فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں۔ اگر ازواجِ مطہرات بیدار ہوتیں تو اُن سے مختصر محبت آمیز گفتگو فرماتے ہیں، اور اگر بیدار نہ ہوتیں تو انہیں بیدار فرماتے ہیں۔ نماز فجر کی دو سنتوں کی ادائیگی کے بعد آپؐ مسجد کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی اپنے گھروں ہی پر سنت پڑھ کر مسجد کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ صحابہ کرام مسجد میں اکٹھا ہوجاتے تو حضرت بلالؓ آپؐ کو بلانے کے لیے کاشانۂ نبوت پر پہنچتے اور آواز لگاتے: ’’الصلوٰۃ یا رسول اللہ۔‘‘ (سنن نسائی)
آپؐ لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے۔ اذکار و تسبیحات کے بعد کچھ صحابہ کرامؓ کو نصیحت فرماتے۔ کبھی وہ آپؐ سے مسئلہ پوچھتے۔ کبھی آپؐ دین سکھانے کے لیے سوالیہ انداز میں گفتگو فرماتے، پھر آپؐ گھر تشریف لے آتے۔ بسا اوقات نمازِ فجر سے فراغت کے بعد فوراً گھر تشریف لے آتے۔ ازواجِ مطہرات سے ان کے احوال و کوائف دریافت فرماتے۔ کبھی اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے، کبھی دوسرے اعزہ و احباب سے ملاقات فرماتے، پھر اشراق کے نوافل پڑھنے کے بعد آپؐ مسجد میں تشریف فرما ہوتے۔
یہ مجلسِ نبوی ہمہ رنگ و ہمہ قسم ہوتی، لوگ آپؐ سے ملاقاتیں کرتے، دوسرے علاقوں کے وفود بھی آکر ملتے۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو ضروری ہدایات بھی فرماتے، کوئی قضیہ یا تنازع سامنے آتا تو اسے بھی حل فرماتے۔
صحابہ کرامؓ اپنی دعوتی سرگرمیاں بھی سناتے، احوالِ عالم پر بھی گفتگو ہوتی، گزشتہ کاموں کا جائزہ لیا جاتا، مستقبل کی منصوبہ بندی ہوتی۔ صحابہؓ سے احتساب بھی ہوتا اور تنبیہ بھی۔ قصوروار کو معاف بھی کیا جاتا اور عفو و درگزر کی تعلیم بھی دی جاتی، وحی نازل ہوتی تو اسے لکھوایا بھی جاتا۔ اپنے رفقا کی فکری تربیت بھی ہوتی اور جسمانی ورزش کی بھی تاکید کی جاتی۔
آپؐ صحابہ کرامؓ کی مختلف صلاحیتوں سے تعارف حاصل کرتے اور انہیں جِلا بخشنے کی کوشش کرتے۔ مختلف صحابہ کرامؓ کو ان کی صلاحیتوں اور مزاج کے مطابق کام سونپتے۔ ظہر سے قبل گھر پر تشریف لاتے، تھوڑی دیر استراحت فرماتے تاکہ قیامِ لیل کے لیے اپنے بدنِ اطہر کو چاق چوبند کر سکیں۔اذانِ ظہر پر آپؐ بیدار ہوجاتے۔ سب سے پہلے مسواک کرتے، پھر وضو کرکے چار رکعت نفل نماز گھر پر ہی ادا کرتے اور مسجد تشریف لے آتے۔ ہر نماز سے پہلے مسواک کرنا اور نوافل گھر پر ادا کرنا آپؐ کا معمول تھا۔
نمازِ ظہر کے بعد اگر لوگ ملاقات کرنا چاہتے یا آپؐ سے ہدایات لینا چاہتے، یا باہر کے وفود آئے ہوتے تو اُن سے ملاقات کرتے اور انہیں مطلوبہ وقت دیتے، پھر گھر تشریف لے جاتے، اہلِ خانہ سے ملاقات اور تبادلہ خیال کرتے۔ کبھی مدینہ کے محلوں میں نکل جاتے۔ دعوتی و تربیتی امور انجام دیتے، لوگوں کے احوال و مسائل سے واقفیت حاصل کرتے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے۔ لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی تدابیر بتاتے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت دیتے۔
اذانِ عصر ہونے پر وضو کرکے مسجد تشریف لے آتے۔ آپ ؐکی کوشش ہوتی کہ ہر وقت با وضو رہیں۔ جب وضو ٹوٹ جاتا تو اس کی تجدید فرماتے۔ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے عموماً تازہ وضو فرماتے۔
نمازِ عصر سے فراغت کے بعد پھر صحابہ کرام کو وقت دیتے۔ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں اور اصحاب ِصفہ کے افطار اور کھانے کا نظم فرماتے۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو ہدایت فرماتے کہ ’’جس شخص کے یہاں چار افراد کے کھانے کی گنجائش ہو ضرورت مند پانچ چھ افراد کو اس میں شامل کریں۔‘‘ (مسند احمد)
ایسا بھی ہوتا کہ مسجد نبویؐ ہی میں اصحابِ صفہ اور دوسرے اصحاب کے ساتھ افطار فرماتے۔ آپؐ افطار سے پہلے حضرت ابوہریرہؓ کو حکم دیتے کہ وہ شربت یا لسی وغیرہ تیار کریں۔ حضرت بلال حبشیؓ سورج کو دیکھتے رہتے کہ وہ کب غروب ہوتا ہے، اور غروب ہوتے ہی وہ آپؐ کو اطلاع دیتے اور اذانِ مغرب دیتے تاکہ سب کو افطار کی اطلاع ہو جائے۔ آنحضورؐ تازہ یا خشک کھجور سے افطار فرماتے، اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو لسی یا پانی سے افطار فرماتے۔ کبھی آپؐ ازواجِ مطہرات کے ساتھ افطار فرماتے۔ افطار کے بعد یہ دعا پڑھتے:(ترجمہ)’’پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔‘‘ (ابو دائود)
افطار کے ساتھ ہی کھانا تناول فرما لیتے۔ عموماً نمازِ مغرب کے بعد کھانا تناول کرنے کا آپؐ کا معمول تھا، مگر رمضان میں نمازِ مغرب سے پہلے کھانا تناول فرمالیتے۔ سورج غروب ہوتے ہی افطار فرماتے، بالکل بھی تاخیر نہ کرتے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا’’یہ اُمت خیر پر قائم رہے گی جب تک سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرتی رہے گی‘‘۔ (بخاری و مسلم)
کوئی صحابیؓ دعوت کرتا تو اس کے گھر تشریف لے جاتے۔ دعوت قبول کرنے کو آپؐ نے مومن کا حق بتایا ہے۔ دعوتِ طعام تناول فرمانے کے بعد صاحبِ دعوت کے لیے دعا فرماتے:’’تمہارے یہاں پر روزہ دار افطار کریں اور تمہارے یہاں نیک لوگ کھانا کھائیں اور فرشتے تم پر سلامتی بھیجیں۔‘‘ (ابودائود، ابن ماجہ)
مغرب کی نماز کے بعد ملاقاتیں، تبادلۂ خیال، اہلِ خانہ اور اعزہ و احباب کی زیارت کا پروگرام رہتا۔ عشاکی نماز قدرے تاخیر سے ادا فرماتے اور عشاء کے بعد جلد از جلد سونے کی کوشش کرتے تاکہ قیام لیل کے لیے بیداری میں آسانی ہو۔ پورے ماہِ رمضان قرآن سے خصوصی شغف رہتا۔ حضرت جبرئیلؑ بھی نزول فرماتے اور دونوں قرآن کا مدارسہ و مذاکرہ فرماتے۔
شب و روز کے اذکار و ادعیہ، نوافل و تسبیحات کا خصوصی اہتمام فرماتے اور اپنے اصحاب کو بھی ابھارتے، خصوصاً صبر و استقامت، مواسات و غم خواری کی تاکید کرتے۔ آپؐ ضرورت مندوں کی ضرورتیں خود پوری کرتے یا صحابہ کرامؓ سے پوری کراتے۔ مریضوں کی بھی عیادت فرماتے۔ آپؐ کی سخاوت اس مہینے میں اپنے عروج پر ہوتی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپؐ پہلے سے زیادہ سخی ہوجاتے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں’’جب رمضان کا مہینہ آتا تو پیارے نبیؐ ہر قیدی کو آزاد کردیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔‘‘ (بیہقی)
مدینہ کا پورا ماحول تقدس و پاکیزگی کا عکاس ہوتا۔ کہیں لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، غیبت و چغل خوری، کذب و بہتان تراشی کی کوئی بات سننے کو نہ ملتی، کیوں کہ آپؐ کے عمل، آپؐ کے رویّے اور آپؐ کی ہدایات نے پورے ماحول کو تقدس مآب بنا دیا تھا۔ شبِ قدر کی تلاش میں رمضان کی تمام راتوں خصوصاً عشرہ اخیرہ اور خاص کر اس کی طاق راتوں میں رات کا زیادہ تر حصہ قیام لیل اور دعا و استغفار میں گزارتے۔ آخری عشرے میں مسجدِ نبویؐ میں اپنے حجرے سے متصل اعتکاف فرماتے۔ ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال 20 روز کا اعتکاف فرمایا۔
اپنے اصحاب کی اصلاح و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ دعوتی سرگرمیاں بھی انجام دیتے، یہاں تک کہ دعوت کا آخری مرحلہ یعنی جہاد کا عظیم فریضہ بھی آپؐ نے رمضان میں انجام دیا، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ غزوۂ بدر 17رمضان کو پیش آیا اور اس میں اللہ نے آپؐ کو فتح نصیب فرمائی۔
آئیے عزم کریں کہ ہم بھی اپنا رمضان اس طرح گزاریں گے، کیوں کہ نبیؐ کا اسوہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر شب و روز کے لیے بہترین اسوہ ہے۔

حصہ