اسلام

وجہ تسمیہ۔ لفظ ’’اسلام‘‘ کے معنی۔ اسلام کی حقیقت۔ کُفر کی حقیقت۔ کُفر کے نقصانات۔ اسلام کے فوائد
وجہ تسمیہ
دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یا تو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اُس قوم کے نام پر جس میں وہ مذہب پیدا ہوا۔ مثلاً عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسیٰ کی طرف ہے۔ بودھ مت کانام اس لیے بودھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔ زردشتی مذہب کا نام اپنے بانی زردشت کے نام پر ہے۔ یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کا نام یہوداہ تھا۔ ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کا بھی ہے۔ مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ اس کا نام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظ ’’اسلام‘‘ کے معنی میں پائی جاتی ہے۔ یہ نام خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے نہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کو شخص یا ملک یا قوم سے کوئی علاقہ نہیں۔ صرف ’’اسلام‘‘ کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کا مقصد ہے۔ ہر زمانے اور ہر قوم کے جن سچے لوگوں میں یہ صفت پائی گئی ہے وہ سب ’’مسلم‘‘ ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔
لفظ اسلام کی معنی
اسلام کے معنی عربی زبان میں اطاعت اور فرما برداری کے ہیں۔ مذہب اسلام کا نام ’’اسلام‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔
اسلام کی حقیقت
تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب ایک قاعدے اور قانون کی تابع ہیں۔ چاند اور تارے سب ایک زبردست قاعدے میں بندھے ہوئے ہیں جس کے خلاف وہ بال برابر جنبش نہیں کرسکتے۔ زمین اپنی خاص رفتار کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ اس کے لیے جو وقت اور رفتار اور راستہ مقرر کیا گیا ہے اس میں ذرا فرق نہیں آتا۔ پانی اور ہوا، روشنی اور حرارت، سب ایک ضابطے کے پابند ہیں۔ جمادات، نباتات اور حیوانات میں سے ہر ایک کے لیے جو قانون مقرر ہے اُسی کے مطابق یہ سب پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں اور گھٹتے ہیں، جیتے ہیں اور مرتے ہیں۔ خود انسان کی حالت پر بھی تم غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ وہ بھی قانونِ قدرت کا تابع ہے۔ جو قاعدہ اس کی زندگی کے لیے مقرر کیا گیا ہے اُسی کے مطابق سانس لیتا ہے، پانی اور غذا اور حرارت اور روشنی حاصل کرتا ہے۔ اس کے دل کی حرکت، اس کے خون کی گردش، اس کے سانس کی آمدورفت اسی ضابطے کی پابند ہے۔ اس کا دماغ، اس کا معدہ، اس کے پھیپھڑے، اس کے اعصاب اور عضلات، اس کے ہاتھ پائوں، زبان، آنکھیں، کان اور ناک، غرض اس کے جسم کا ایک ایک حصہ وہی کام کررہا ہے جو اس کے لیے مقرر ہے اور اسی طریقہ پر کررہا ہے جو اس کو بتادیا گیا ہے۔
یہ زبردست قانون جس کی بندش میں بڑے بڑے سیاروں سے لے کر زمین کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تک جکڑا ہوا ہے، ایک بڑے حاکم کا بنایا ہوا قانون ہے ساری کائنات اور کائنات کی ہر چیز اُس حاکم کی مطیع اور فرماں بردار ہے، کیونکہ وہ اسی کے بنائے ہوئے قانون کی اطاعت و فرماں برداری کررہی ہے۔ اس لحاظ سے ساری کائنات کا مذہب اسلام ہے۔ کیونکہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ خدا کیا اطاعت اور فرماں برداری ہی کو اسلام کہتے ہیں۔ سورج، چاند اور تارے سب مسلم ہیں۔ زمین بھی مسلم ہے۔ ہوا اور پانی اور روشنی بھی مسلم ہے۔ درخت اور پتھر اور جانور بھی مسلم ہیں، اور وہ انسان بھی جو خدا کو نہیں پہچانتا اور خدا کا انکار کرتا ہے، یا جو خدا کے سوا دوسروں کو پوجتا ہے اور خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے، ہاں وہ بھی اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے مسلم ہے کیونکہ اس کا پیدا ہونا، زندہ رہنا اور مرنا سب کچھ خدائی قانون ہی کے ماتحت ہے۔ اس کے تمام اعضا اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹے کا مذہب اسلام ہے۔ حتیٰ کہ اس کی وہ زبان بھی اصل میں مسلم ہے جس سے وہ نادانی کے ساتھ شرک اور کفر کے خیالات ظاہر کرتا ہے۔ اس کا وہ سر بھی پیدائشی مسلم ہے جس کو وہ زبردستی خدا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے۔ اس کا وہ دل بھی فطرۃ مسلم ہے جس میں وہ بے علمی کی وجہ سے خدا کے سوا دوسروں کی عزت اور محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں خدائی قانون کی فرماں بردار ہیں اور ان کی ہر جنبش خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہوتی ہے۔
اب ایک دوسرے پہلو سے دیکھو۔
انسان کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح قانون قدرت کے زبردست قاعدوں سے جکڑا ہوا ہے اور ان کی پابندی پر مجبور ہے۔
دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ عقل رکھتا ہے۔ سوچنے، سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اور اپنے اختیار سے ایک بات کو مانتا ہے، دوسری بات کو نہیں مانتا۔ ایک طریقہ کو پسند کرتا ہے، دوسرے طریقہ کو پسند نہیں کرتا۔ زندگی کے معاملات میں اپنے ارادے سے خود ایک ضابطہ بناتا ہے یا دوسروں کے بنائے ہوئے ضابطہ کو اختیار کرتا ہے۔ اس حیثیت میں وہ دنیا کی دوسری چیزوں کے مانند کسی مقرر قانون کا پابند نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کو اپنے خیال، اپنی رائے اور عمل میں انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے۔
پہلی حیثیت میں وہ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کے ساتھ پیدائشی مسلم ہے اور مسلم ہونے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ ابھی تم کو معلوم ہوچکا ہے۔
دوسری حیثیت میں مسلم ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں ہے اور اسی اختیار کی بنا پر انسان دو طبقوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
ایک انسان وہ ہے جو اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ اس کو اپنا آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے اور اپنی زندگی کے اختیاری کاموں میں بھی اُسی کے پسند کیے ہوئے قانون کی فرماں برداری کرتا ہے۔ یہ پورا مسلم ہے۔ اس کا اسلام مکمل ہوگیا۔ کیونکہ اب اس کی زندگی سراسر اسلام ہے۔ اب وہ جان بوجھ کر بھی اُسی کا فرماں بردار بن گیا جس کی فرماں برداری وہ بغیر جانے بوجھے کررہا تھا۔ اب وہ اپنے ارادے سے بھی اسی خدا کا مطیع ہے جس کا مطیع وہ بلا ارادہ تھا۔ اب اس کا علم سچا ہے کیونکہ وہ اس خدا کو جان گیا جس نے اس کو جاننے اور علم حاصل کرنے کی قوت دی ہے۔ اب اس کی عقل اور رائے درست ہے کیونکہ اس نے سوچ سمجھ کر اُسی خدا کی اطاعت کا فیصلہ کیا جس نے اسے سوچنے سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قابلیت بخشی ہے۔ اب اس کی زبان صادق ہے۔ کیونکہ وہ اسی خدا کا اقرار کررہی ہے جس نے اس کو بولنے کی قوت عطا کی ہے۔ اب اس کی ساری زندگی میں راستی ہی راستی ہے کیونکہ وہ اختیار و بے اختیاری دونوں حالتوں میں خدا کے قانون کا پابند ہے۔ اب ساری کائنات سے اس کی آشتی ہوگئی۔ کیونکہ کائنات کی ساری چیزیں جس کی بندگی کررہی ہیں اسی کی بندگی وہ بھی کررہا ہے۔ اب وہ زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب) ہے، ساری دنیا اس کی ہے اور وہ خدا کا ہے۔
کفر کی حقیقت
اس کے مقابلہ میں دوسرا انسان وہ ہے جو مسلم پیدا ہوا اور اپنی زندگی بھر بے جانے بوجھے مسلم ہی رہا، مگر اپنے علم اور عقل کی قوت سے کام لے کر اس نے خدا کو نہ پہچانا اور اپنے اختیار کی حد میں اس نے خدا کی اطاعت کرنے سے انکار کردیا۔ یہ شخص کافر ہے۔ کفر کے اصلی معنی چھپانے اور پردہ ڈالنے کے ہیں۔ ایسے شخص کو کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی فطرت پر نادانی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس کا سارا جسم اور جسم کا ہر حصہ اسلام کی فطرت پر کام کررہا ہے۔ اس کے گردوپیش ساری دنیا اسلام پر چل رہی ہے۔ مگر اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے۔ تمام دنیا کی اور خود اپنی فطرت اس سے چھپ گئی ہے۔ وہ اس کے خلاف سوچتا ہے۔ اس کے خلاف چلنے کی کوشش کرتا ہے۔
کتاب دینیات : سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

حصہ