عالمی یوم خواتین: عورت کو ایک پروڈکٹ بنادیا گیا

390

پاکستان کے منظر نامے میں ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ خواتین کئی سال سے ایسی کوششوں میں مصروف ہے جن کے ذریعے دیہی و ہنرمند خواتین کو معاشی خود کفالت کی جانب لا سکے اور شہری خواتین کو، جو کئی پیشہ وارانہ امور میں مصروف ہیں، ان کو درپیش مسائل سے نجات دلا سکے۔ ایسا کرنے کا مقصد ان کے نزدیک یہ ہے کہ خاتون کا بنیادی مرکز اس کا گھر، بچے اور ان کی ذمہ داریاں ہیں، اگر کسی وجہ سے کسی خاتون کو معاشی تگ و دو کرنا پڑے تو اس کا گھر و بنیادی ذمہ داریاں کم سے کم متاثر ہوں۔ مغرب کے جدید سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو ایک پروڈکٹ بنا کر جس طرح سے اس کا استحصال کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ برصغیر ہندوستان کے روایتی معاشرے کو استعمار نے جس طرح جدیدیت سے روندا ہے اس کا شکار معاشرے کے تمام طبقات ہوئے ہیں۔ ہم بہ خوبی جانتے ہیں کہ انگریز استعمار نے ہمیشہ چاہا کہ اس کے خلاف مزاحمت ختم ہو جائے۔ اس کے لیے اس نے باطل تہذیب و نظام کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنوایا تاکہ مزاحمت خود بہ خود ختم ہو جائے۔
انیسویں صدی کے وسط سے یہی کوشش ’’جدید اسلام‘‘ کی اصطلاح کے ساتھ عام ہوئی اور اب ہمارے معاشرے میں بری طرح سرایت کر چکی ہے۔ سر سید سے غامدی تک یہی آرگیومنٹ ہے کہ دین اَصلاً جو چاہتا تھا بہ معنی آزادی، آزادی اظہار و جمہوریت (بہ معنی شورائیت) وہ تو اصل میں استعمار نے ہی عطا کیا ہے، بادشاہت نے تو سب کو غلام بنا کر رکھا تھا اور جبر تھا۔ اب استعمار نے غلامی ختم کر کے سب کو آزادی دی ہے جو کہ دین کو مطلوب ہے۔ دین کو ’’عقلی پراجیکٹ“ بنانے کا نقصان یہ ہوا کہ مغرب بھی ’’دینی“ بن چکا ہے۔ ایسی سوچ کے پس منظر کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ اب سو سال میں اس کے نتائج کبھی خواتین حقوق، کبھی انسانی حقوق تو کبھی کسی اور عنوان سے مستقل سامنے آ رہے ہیں۔ پھر ان کو حل کرنے کے لیے بھی وہی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے جس کی استعمار اپنے پیرا ڈائم میں اجازت دیتا ہے۔
’’ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ نے امسال بھی ’’عالمی یوم خواتین‘‘ کے موقع پر مقامی ہوٹل میں خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس میں جاری کردہ اعلامیہ میں پاکستان کی مخصوص نظریاتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے مطابق ٹھوس، سنجیدہ اور متوازن حکمت عملیوں اور اصلاح احوال کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شریک تھیں۔ کانفرنس کے مہمان مقررین میں ماہر تعلیم رومیصا زاہدی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس کی نائب صدر حنا عثمانی، فرسٹ وومن بینک کی سابق صدر اکرم خاتون، سپریم کورٹ کی وکیل ڈاکٹر رعنا خان، سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی کی لیکچرار قرۃ العین نذیر، سابق ڈائریکٹر قومی ادارہ برائے سمندری سائنس ڈاکٹر نزہت خان، نائب صدر ورکنگ وومن حمیرا قریشی نے بھی خطاب کیا۔ جب کہ دیگر مہمانان میں نرگس رحمٰن، انجم آدم جی، زلیخہ سومرو سمیت کئی خواتین شامل تھیں۔
کانفرنس کی نظامت نائب صدر ورکنگ وومن ویلفیئر ٹرسٹ حمیرا قریشی نے انجام دیے اور کانفرنس کی تھیم ’ بریک دی bias‘ کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں اس کے حل کے لیے تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر بڑے مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اللہ کی رسی کو تھامنے کی آیات کی تلاوت سے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ حمیرا قریشی نے تمام مہمان مقررین کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے انہیں اسٹیج پر خطاب کی دعوت دی۔ کانفرنس سے پہلے خطاب میں رومیصا زاہدی نے خواتین کی برابری کے تناظر میں مغرب کے پیش کردہ جعلی پیمانوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے equality اور equity کے فرق کو واضح کیا۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان ماؤں کی گود سے سلطان فاتح و ایوبی اور غزالی تیار کرنے کے لیے ماؤں کی کونسلنگ کرنی ہوگی کہ وہ گریڈز پر بچوں کو نہ جانچیں، بچوں کے درمیان ہر قسم کی تفریق ختم کرنی ہوگی۔ گھر میں بچوں کی تربیت کرتے ہوئے گھر کا انتظام چلانے والی خاتون ہی اصل ورکنگ وومن ہوتی ہے۔
کانفرنس میں ورکنگ وومن کی جانب سے گھریلو خواتین کے ہاتھوں تیار کردہ مختلف مصنوعات کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جن سے شرکا و مہمانوں نے استفادہ کیا اور خواتین کے ہنر کو خوب سراہا۔ تقاریر و پریزنٹیشن کے علاوہ شرکا کے ذوق کے لیے علامہ اقبال اور بہزاد لکھنوی کے بڑے پیغام پر مبنی خوب صورت کلام کو نہایت خوش الحانی سے پیش کیا گیا۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس کی نائب صدر حنا عثمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے بعد لوگوں کو یقین آیا کہ لچک دار اوقات اور گھر پر کام کرنے کا ماڈل کامیاب ہے۔ اس ضمن میں اخلاقیات نہایت اہمیت کی حامل ہیں، اس کے بغیر مستقبل اچھا نہیں، کیمروں کو اپنے اندر لگانے کی ضرورت ہے کہ صحیح اور غلط کا ایسا شعور بیدار ہو کہ انسان خود برائی سے دور ہو جائے۔ انہوں نے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اکاؤنٹس کے شعبے میں بالکل اولین تھیں اور اس شعبے میں کنسلٹنسی شروع کرنے کا پہلا تجربہ بھی تھا۔
سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی کی لیکچرار قرۃ العین نذیر نے اپنی پریزنٹیشن میں خواتین کی مجموعی صورت حال کو اعداد و شمار کی صورت پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواتین میں کاروبار کرنے یا معاشی خود کفالت کی چاہت کی شرح مردوں سے زیادہ ہے۔ کاروبار سے جڑی خواتین کو خاصے مسائل درپیش ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے ’’وومن انٹر پرینیور ٹوگیدر‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا گیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین ایک دوسرے کو ٹیم بلڈنگ کے ذریعے باہمی تعاون فراہم کریں۔ دنیا بھر سے خواتین اس کی ممبر بن سکتی ہیں اور یہ فورم کاروباری نیٹ ورکنگ کی سہولت و معاونت فراہم کرے گا، ان کی رہنمائی، کونسلنگ و تربیت بھی کرے گا۔
سپریم کورٹ کی وکیل ڈاکٹر رعنا خان نے خواتین کی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی تنازعات اور طلاق کی مستقل بڑھتی تعداد بتا رہی ہے کہ ماؤں کی تربیت میں گھر بنانے کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک مقدمہ ایسا بھی آیا کہ ایک ماں اپنی بیٹی کو اس لیے طلاق دلانے پر بہ ضد تھی کہ اس کی (چند ماہ قبل بیاہ کر جانے والی؍) بیٹی ہمیشہ ائر کنڈیشن میں رہی تھی اور اب شادی کے بعد شوہر اس کو کمر ے میں کسی بھی وجہ سے اے سی نہیں لگوا پا رہا، تو ان سے اپنی بیٹی کی یہ تکلیف نہیں دیکھی جا رہی اور وہ خاتون مزید انتظار کرنے کو تیار بھی نہ تھیں۔
دوسری جانب این جی اوز پاکستان کی خواتین کا چہرہ مسخ شدہ بنا پیش کرنے میں لگی ہیں جب کہ پاکستان کا آئین خواتین کو جتنا تحفظ دیتا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ پاکستان میں اس حد تک خواتین کے حقوق و تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی ہے کہ مردوں کو عدم تحفظ کا احساس ہو رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو بار بار حقوق نہ ملنے کی جانب متوجہ کرایا جاتا ہے مگر ان کی ذمے داریوں پر بالکل بات نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے سارا معاملہ یک طرفہ ہو جاتا ہے۔
سابق ڈائریکٹر قومی ادارہ برائے سمندری سائنس ڈاکٹر نزہت خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صنفی فرق پاکستان کا مسئلہ ہے ہی نہیں، پاکستان کا تعلق مذہب سے جڑا ہوا ہے اسے دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں آئین پاکستان بھی خواتین کے لیے بہت معاون ہے ۔عورت کا مسئلہ برابری نہیں عزت دینے کا ہے، آزادی کا مطلب جدید کپڑے پہننا یا نوکری کرنا نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے سب سے بہتر قانون موجود ہے مگر انصاف کے نظام کی غیر فعالیت نہ ہونے کے سبب معاشرے میں خواتین کے حقوق اور حالات کار کے حوالے سے تشویش ناک مسائل نظر آتے ہیں۔
فرسٹ وومن بینک کی سابق صدر اکرم خاتون نے اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے کور بینکنگ کے شعبہ میں قدم رکھا اور تمام مسائل اور خطوط کے ذریعے متعدد بار توجہ دلانے کے باوجود میں نے اللہ کی مدد سے بینکنگ کے شعبہ میں کامیابی کا سفر اس طرح طے کیا کہ میرے باس نے اس قسم کے توجہاتی خطوط لانے کا راستہ ہی بند کر دیا اس لیے ہم نے چیلنج سمجھ کر کام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بچپن اجمیر میں گزرا جہاں ان کے نانا نے تعلیم کے حصول میں مکمل مدد کی اور چیلنج لینے کا جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے اِقرار کیا کہ ان کے پر نانا تعلیم کے سخت خلاف تھے۔ اکرم خاتون نے کہا کہ ہم دنیا میں جہاں بھی جائیں اپنے ملک و تہذیب کو کبھی مسخ نہ ہونے دیں۔
اختتامی خطاب میں ورکنگ وومن ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کی صدر طلعت فخر نے کہا کہ خواتین جس مقام پر بھی ہوں اپنے حقوق پر بات سے پہلے اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کا جائزہ ضرور لیں کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا دے کر جا رہے ہیں جو ہماری سب سے بنیادی ذمے داری ہے۔ عالمی یوم خواتین پر شکوے شکایت کے بجائے ہم نے مسائل کے حل، مل کر کام کرنے اور اپنی روایت کی طرف لوٹنے کے لیے حوصلہ بڑھانے کی بات کی ہے۔

حصہ