جب سلطان ٹیپو کی لاش لحد میں اتاردی گئی

360

’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔
یہ الفاظ اس شیر دل فرزند اسلام کے ہیں جو برصغیر ہند میں انگریزوں کے ٹڈی دل کے آگے سد سکندری بن کے حائل ہوگیا۔ آج سے ٹھیک 170سال پہلے 4مئی 1759 کو سلطان حیدر علی کے بہادر اور نامور بیٖٹے فتح علی ٹیپو نے میدان جنگ میں غیر ملکی طاقت سے نبرد آزمائی میں جام شہادت نوش کیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے نام اور غلام کی سلطنت و عزت کے لیے اپنی جان تک قربان کردی مگر غلامی کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا۔ بظاہر وہ اپنے عظیم مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن حقیقت میں ان کی زندگی حریت پسندوں کے لیے مشعل راہ بن گئی۔ آزادی و حریت کا یہ پہلا چراغ خود تو بجھ گیا لیکن اس سے ہزاروں ایسی مشعلیں روشن ہوئیں جنہوں نے اس پورے برصغیر میں آزادی کی روشنیاں پھیلا دیں۔
دفعتاً آسمان پر اندھیرا پھیل گیا سیاہ بادلوں کے غصے کی گرج اور بجلی کے غیض کی چمک نے بڑے بڑوں کا زہر آب کردیا۔ زور دار آندھی چلنے لگی اور ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور بڑے بڑے پتھر اکھڑ اکھڑ کر ہوا میں اڑنے لگے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی گنہہ گار اور مردود قوم پر خدا کا عتاب نازل ہورہا ہے۔ عین اس وقت انگریزوں کے کیمپ میں بجلی گری، دو انگریز ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ آندھی اور مینہ کے اس طوفان میں دریائے کادیری بپھر گیا اور دور دور تک سیلاب نے تباہی مچانی شروع کردی۔ دکن میں اس سے پیشتر ایسی خوفناک آندھی کا طوفان کبھی نہ آیا تھا۔ اسی روز اسی ساعت، اسی طوفان باد و باراں میں شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کی لاش لحد میں اُتاری جارہی تھی۔ اس شہید اور عظیم سپاہی کومنوں مٹی کے نیچے دبایا جارہا تھا جس کا نام سن کر انگریز لرزہ براندام ہوجاتے تھے اور جس نے سفاک دشمنوں اور چالاک دوستوں کے نرغے میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے کرتے جانِ جان آفریں کے سپرد کردی۔
رفت سلطاں زیں سرائے ہفت روزہ 40 ہدف ڈائجسٹ فروری 70ء
کوبتِ ادور دکن بانی ہنوز،
اُس روز ٹیپو شہید کی صرف میت کو دفن نہیں کیا گیا تھا برصغیر میں دین اسلام کے پیروئوں کے رہے سہے اقتدار اور عظمت و جلالت کو بھی دفن کردیا گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی آزادی اور انفرادیت کے آخری محافظ تھے اور اسی مقدس امانت کی حفاظت میں انہوں نے انگریزوں، مرہٹوں، نظام اور ننگِ آدم ننگ دین تنگ وطن۔ غدارانِ ملک و قوم سے تن تنہا جنگ لڑی اور بے جگری سے لڑی کہ سرنگاپم کا ذرہ ذرہ تا قیامت اپنے آپ کو آفتاب سمجھے تو بجا ہوگا۔
درمیانِ کار زارِ کفرد دیں
ترکش مارا خدنگ آخریں
ٹیپو کی تاریخ شہادت ہے۔
ٹیپو بوجہ دین محمدؐ شہید شُد
4مئی 1799ء 1213ھ بعمر 48 سال… اس سانحہ عظیم کو 156سال گزر چکے ہیں۔
اس دوران میں تجارت اور سوداگری کے پردے میں سیاسی شطرنج بازیوں کے ماہر انگریز برصغیر ہند و پاک میں مسلمانوں پر حکومت بھی کر گئے ہیں۔ ہماری روحوں اور ذہنوں سے غلامی کے سائے ابھی تک پوری طرح ہٹ نہیں سکے۔ اور اسی لیے ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ آج سے 165 سال قبل اسلام کے ایک آزاد اور نڈر سپاہی ٹیپوؓ سے انگریز کس طرح خائف تھا۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں کے دل باغ باغ ہوگئے تھے اور وہ اپنی بے پناہ خوشیوں کو چھپائے نہ چھپا سکے۔ جنرل بیرس لاش کے قریب آیا تو فرطِ مسرت سے پکار اُٹھا ’’آج ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ یہ پُرمسرت نعرہ لگانے کے لیے انگریزوں کو بڑی جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ انگریز کی تلوار شیر میسور کو بھی ختم کرسکتی ہے۔ سلطنت خداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوچکا تھا لیکن سلطان کی لاش نہیں مل رہی تھی۔ حرم سرا کی تالشی لی گئی لیکن اندر شاہی بیگمات، شہزادے اور شہزادیاں فرش پر بیٹھے اپنی بدنصیبی پر آنسو بہا رہے تھے۔ حرم سرا کو کونہ کونہ چھان مارا گیا لیکن سلطان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ بیگمات اور شہزادے صرف اتنا کہتے تھے ’’سلطان لڑنے کے لیے نکلے تھے واپس نہیں آئے‘‘۔
جنرل بیرڈ اعلیٰ کمانڈر بھی بے حد پریشان تھا کہ سلطان کہیں بچ کر نہ نکل گئے ہوں اور انگریزوں کے لیے کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی کردیں۔ بیسیوں مشعلچی جنرل ہیرڈ نظام کے وزیر میر عام اور زیر حراست شہزادوں کے ہمراہ قلعہ میں داخل ہوئے وہاں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے کہیں کہیں زخمی سسکیاں لیتے نظر آتے تھے۔ شہزادے لاشیں الٹ پلٹ کر اپنے عظیم باپ کو تلاش کررہے تھے۔ اور کہیں نہ پاتے تھے۔ آخر کار سلطان کی لاش کو ایک ڈھیر سے نکال لیا گیا۔ اگرچہ سلطان کے ہیروں کے ہار بکھر چکے تھے۔ لباس خون میں لت پت تھا جسم گولیوں سے چھلنی ہوچکا تھا لیکن ان کے چہرے پر موت کا خوف نحوست کا سایہ نہ ڈال سکا تھا۔ رغب و مردانگی اور عزم اب بھی چہرے سے ٹپک رہے تھے۔ موقع پر موجود کئی شاہدوں کا کہنا ہے کہ جنرل ہیرڈ بار بار سلطان کی نبض ٹٹولتا اور دل کی دھڑکن سنتا مبادا سلطان ابھی زندہ نہ ہوں۔ اگرچہ متعصب انگریز مورخین نے سلطان کی شخصیت کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی ہے لیکن سلطان کی عظمت، شجاعت، ہمت مردانہ اور ذہانت و فسطانت کا اعتراف کیے بغیر بھی نہیں رہ سکے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے 24 سال بعد ایک امریکی شاعر بانارڈ واٹی کلف میسور آیا اور مشہد سلطانی پر گریہ عقیدت کے چند پھول مرثیہ کی صورت میں نچھاور کیے۔
’’خوف کی اس عمیق رات میں تیرا شعلہ بجھادیا گیا۔ اقتدار شاہانہ کا عصا تیری قوم کے ہاتھ سے چھن گیا۔ بیشمار غازیانجگر دار شہید ہوئے باقی صرف تیرا ماتم کرنے والے رہ گئے جب ہمارے سردل پر ہنگامہ کار زار کے خونیں بادل منڈلا رہے ہوں تو اندوہ و انفعال کی رسوا کن زندگی سے موت بہتر ہے۔ اے آسمان جہاد کے ستارے تو غروب ہوگیا۔ ان ذلیل انسانوں کی طرح نہیں جنہیں ناموری نے طوفان پیکار لہروں میں غرق فراموش کردیا جو خاک مذلت پر سربسجود ہوگئے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ زندہ رہ کر فرمانروائی کرنے سے مجاہدوں کی صف میں رہ کر جان دے دینا ہزار درجہ بہتر ہے تو خاک و خون کے بستر پر اس فروزاں آفتاب کی طرح سو گیا جس کی غضب ناک شعاعیں غروب کے وقت نمودار ہوں تو تخت و تاج کو ٹھکرا کر شیر کی طرح میدان میں کودا جہاں موت کے جاں سوز شعلوں کی لپک اور خوں آشام تلواروں کی زہرہ گداز جھنکار سے فضا لبریز ہورہی تھی تیرا بہادر اور قوی باپ خوش تھا کہ اس کی روح جہاد تجھ میں تڑپی، اس کے جنتی لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اُس نے دیکھا تو دشمن پر آخری وار کررہا ہے، اور تیری تلوار دشمنوں کے لہو سے سرخ ہورہی ہے، پھر اس نے دیکھا تو بہادروں کی طرح سورہا ہے اور تیرے سینے پر گلرنگ زخم ہیں، اہل جنت نے! شہید کے لیے سدا بہار پھولوں کا ایک ہار گوندھا فردوس کی جادونگاہ حوروں نے خلدِ بریں کی شفاف فضائوں میں رومال ہلا ہلا کر مجاہدین کے سب سے بڑے سردار، سلطان شہید کا خیر مقدم کیا۔ موت بہتر ہے ایسی رسوا کن زندگی سے جو اندوہ و انفعال کی سرمایہ دار ہوں۔
تاریخ نے اپنے وسیع دامن میں یقینا ہزاروں ایسے بہادروں کی داستانیں چھپا رکھی ہیں جنہوں نے موت سے پنجہ آزمائی کی لیکن سلطان شہید نے جس بے کسی کے عالم میں غداروں اور نمک حراموں کی سیاہ کاریوں کے ہاتھوں کمال جرأت و بہادری سے جام شہادت نوش کیا، وہ یقینا تاریخ کے لیے ایک انوکھا اور قابل فخر واقعہ ہے۔ دشمن نے قلعہ کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور اس کے کئی حملوں کو ناکام بنادیا گیا تھا۔ 4 مئی کو سلطان نے قلعہ کی فصیل کا معائنہ کیا جہاں جہاں سے وہ ٹوٹ پھوٹ گئی تھی اس کی دوبارہ مرمت کرائی۔ ایک شگاف کے سامنے اپنے وفادار سردار سید غفار کو مقرر کیا تا کہ انگریزوں کو اندر آنے سے روکے۔ افسروں کو اپنی اپنی جگہ پر جمے رہنے کی ہدایت کرنے کے بعد ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا طلب کیا۔ سلطان نے ایک لقمہ تناول کیا اور دوسرا لقمہ ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ لقمہ منہ تک نہیں پہنچا تھا کہ شہر کی طرف سے آہ و فغاں کا شور اُٹھا اس شور کے سنتے ہی سلطان اٹھایا ہوا لقمہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حاضرین سے پوچھا:
’’یہ کیسا شور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ’’سیّد غفار دشمنوں کی توپ کا گولہ لگنے سے حضور پر قربان ہوگیا اور دشمن قلعہ پر چڑھا آرہا ہے۔ سلطان نے ہاتھ دھوئے اور فرمایا بس ہم بھی چلے‘‘ گھوڑی پر سوار ہوئے اور چند جاں نثار پیادوں کے ساتھ ندی کی جانب والے دریچہ سے جسے کنٹری زبان میں ’’ہلی وڈی‘‘ کہتے ہیں قلعہ سے باہر نکلے اور مغربی مورچے کے علم کی طرف دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے گھوڑی کو ایڑ لگادی۔ غدار میر صادق بھی سلطان کے ساتھ ساتھ تھا۔ جب وہ قلعہ کے ایک دروازے سے نکلا تو اس نے دروازہ اندر سے بند کردیا تا کہ سلطان واپس نہ آسکے۔ سلطان کو اس کی حرکت کا کچھ علم نہ ہوا اور فصیل کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ قلعہ کا دروازہ بند کروانے کے بعد میر صادق نے فصیل کے اوپر ہی سے سفید رومال ہلا ہلا کر انگریزوں کو حملہ کرنے کا اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی انگریزوں نے چاروں طرف سے قلعہ پر ہلہ بول دیا۔ میر صادق نے میر قاسم کی طرح قلعہ سے بھاگ کر انگریزوں کی پناہ میں جانے کا منصوبہ بنایا لیکن بہانہ کمک لانے کا کیا۔ گھوڑے پر سوار ہو کر باہر کے دروازے کی طرف چلا۔ اس ارادے کی خبر سلطان کے ایک وفادار سپاہی کو بھی ہوگئی۔ وہ میر صادق کی طرف پکا اور بولا نمک حرام اپنے آقا سے غداری کرنے کے بعد اب بھاگ رہا ہے۔ اور ساتھ ہی اس نے تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ میر صادق کا سرتن سے جدا ہوگیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ اس کی لاش چار دن تک وہیں پڑی سڑتی رہی آخر کار اسے اسی جگہ گاڑ دیا گیا۔
سلطان کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب ایک ہی راستہ ہے۔ چناں چہ اسلامی غیرت و حمیت کے اس پتلے نے وہ دادِ شجاعت دی کہ انگریز کا متعصب قلم بھی عش عش کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ سلطان کی ہمت مردانہ نے انگریزوں کا راستہ روک دیا۔ لیکن وہ ایک اور راستہ سے قلعہ میں داخل ہوگئے اور سلطان ٹیپو پر گولیاں برسانے لگے۔ سلطان کچھ دیر کے لیے رکے لیکن پھر تن کر کھڑے ہوگئے اور تلوار چلانے لگے ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ ان کا گھوڑا زخمی ہو کر گر گیا تھا لیکن وہ بدستور تلوار چلائے جارہے تھے۔ آخر کار وہ نڈھال ہو کر گر پڑے۔ انہیں پالکی میں ڈال دیا گیا۔ وفادار انہیں بار بار کہتے تھے کہ اپنے آپ کو انگریزوں پر ظاہر کردیجیے لیکن سلطان بڑے غصے سے جواب دیتے شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ شیرہوں گیدڑ نہیں۔ سلطان کے جاں نثار آپ کو بچانے کے لیے کٹ کٹ کر گر رہے تھے کہ ایک گورا سپاہی سلطان کے پاس پہنچ گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ سلطان ہیں۔ اس نے سلطان کی سنہری پیٹی پر ہاتھ ڈالا اگرچہ سلطان زخموں سے چور چور تھے لیکن انہوں نے پلٹ کر تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ اس گورے کا گھٹنا کٹ گیا دوسرا وار کرنے سے پہلے گورے نے گولی چلادی جو سلطان کی کنپٹی کو چیرتی ہوئی نکل گئی یہ آخری زخم تھا جو سلطان نے اپنے جسم پر کھایا۔
بنا کر رند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدارحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را

حصہ