نورمقدم واقعہ،سڑے ہوئے جوہڑ کا ایک جھونکا

604

نور مقدم اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ عورت کی آزادی پر یقین رکھنے والی لڑکی نے عورت کی آزادی اور خود مختاری کے نعروں کے درمیان آنکھ کھولی اسی ماحول میں پلی بڑھی۔ زندگی میں بہت آزادی تھی۔
نور مقدم نےکبھی خواب و خیال میں بھی سخت لہجہ، بدتمیز مرد اور اجڈ جاہل شوہروں کی حمایت نہ کی تھی۔ اس نے کبھی اپنےروشن خیال مرد ساتھیوں کے بارے میں ایسا نہ سوچا تھاجو ہوگیا۔وہ خواب وخیالوں میں رہنے والی لڑکی تھی۔وہ اپنی جیسی حساس دل اورسوچ رکھنے والی لڑکیوں کو اپنا ہم نوا بناتی، عورتوں کے حق میں بڑے بڑے سیمینار میں شرکت کرتی۔ لیکن وہ دن اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا جب وہ بہیمانہ قتل کا نشانہ بنی۔ ظاہر جعفر نے قتل سے پہلے اپنے والد کو فون پر بس اتنا ہی تو کہا تھا ’’نور میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی میں اسے قتل کر رہا ہوں۔‘‘
اسے سائبان کی تلاش تھی لیکن وہ جس کو اپنا سائبان سمجھی وہ تو رہزن نکلا۔ بقول جاوید ہاشمی ’’نور مقدم کیس‘ افغان سفیر کی بیٹی کا واقعہ اور عثمان مرزا کیس سڑے ہوئے جوہڑ کا صرف ایک جھونکا ہیں‘ اسلام آباد میں ایسے سیکڑوں ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں اور روز ہو بھی رہے ہیں‘ شہر پارٹیوں اور امرا کے بچوں کی واہیات حرکات کا سرکس بن چکا ہے‘ آپ رات کے وقت سڑک پر نہیں نکل سکتے کیوں کہ نشے میں دھت لوگ آپ کو کچل جائیں گے اور ان کے والدین بڑے آرام سے ’’میرے بچے Solicite کر رہے تھے‘‘ کہیں گے اور بچے اگلی فلائٹ پکڑ کر باہر چلے جائیں گے۔ یہ ہے اسلام آباد‘شہر کے نام پر جنگل۔‘‘
فتنے برس رہے ہیں، روحیں پگھل رہی ہیں
کڑی دھوپ ہے خدایا رحمت کا سائباں دے
جب اللہ کے قوانین سے انحراف کیا جائے گا تو پھر اس سے بھی خطرناک نتائج دیکھنے کو ملیں گے جو آج کل ہمارا معاشرہ برداشت کر رہا ہے۔ جن معاشروں کی نقالی کی جا رہی ہے اُن کا حال بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
2018 میں امریکی دفاعی اداروں کی مطبوعہ معلومات بتاتی ہیں کہ صرف امریکی فوج میں کام کرنے والی 46 فیصد خواتین اور 50 فیصد مردوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے سے پہلے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ بیشتر مواقع پر ملزم قانون کی گرفت سے محفوظ رہے۔ اسلام خواتین پر علم کے حصول کو یکساں طور پر فرض قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے فطری دائرہ میں معاشرتی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی کردار ادا کریں لیکن وہ معاشی اور سیاسی نعروں کے ذریعے خواتین کو ورغلا کر سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام مخلوط تعلیم، مخلوط معیشت اور مخلوط ثقافت کو رد کر تا ہے اور خواتین کو وہ تمام حقوق دیتا ہے جو ان کی شخصیت کی نشو و نما اور معاشرے میں تعمیری کردار کے لیےاہم ہیں۔ یورپ اور امریکا کے اداروں کے سروے، انٹرویو اور شماریات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ خواتین کی تعلیم نہیں ہے بلکہ مخلوط تعلیم، مخلوط ادارے اور جنسی مساوات کا تصور ہے۔ جرمنی میں خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسانی کی شرح 58 فیصد ہے، پولینڈ میں ایک تحقیقی جائزے میں حصہ لینے والی 451 خواتین میں سے 88 فیصد پندرہ سال کی عمر کے بعد کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی اور تشدد کا شکار رہیں۔ ہالینڈ میں ہراسانی کے حوالہ سے گیارہ سو خواتین کی جمع کردہ معلومات کے مطابق دن کی روشنی میں گلیوں اور بازاروں میں 94 فیصد خواتین ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ خواتین کے ساتھ یہ رویہ ایسے حالات میں اختیار کیا گیا ہے جب خواتین کی یکساں نمائندگی کے اصول کی بنا پر یورپی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 38 فیصد ہے اور خواتین یورپی ممالک میں کسی شہر کی انتظامیہ یا عدلیہ میں 33 فیصد تک نمائندگی کی حامل ہیں۔ لیکن ان مقامات پر ان کی نمائندگی کے باوجود انہیں معاشرہ‘ تعلیم گاہ‘ کاروباری اور پیشہ وارانہ اداروں میں نہ تحفظ ملا نہ عزت و احترام۔ حتی کہ سیاسی میدان میں قیادت کے مقام تک پہنچنے والی خواتین کو بھی یورپ اور امریکا کی حد تک جنسی ہراسانی اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسی خواتین کی 25 فیصد تعداد جنسی حملوں کا شکار ہی نہیں بلکہ بعض اوقات جسمانی تشدد کا شکار بھی رہی ہے۔ یورپ کے حوالے سے 2018 میں طبع شدہ European Union Agency for Fundamental Rightsکےزیراہتمام تحقیقی اعدداد و شمار اور جائزے بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر اور مقامی ریاستوں کی جانب سے یورپ میں خواتین کے ساتھ صنفی ناانصافی کا مسئلہ ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ جب کہ غیر یورپی اقوام اپنی خوش فہمی کی بنا پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یورپ و امریکا میں خواتین کو عزت اور تحفظ کی نعمتیں حاصل ہو گئی ہیں اور غیر یورپی اقوام ابھی تک صنفی عدم مساوات پر قابو نہیں پا سکی ہیں۔ جدید تہذیب کے نام پر انسانوں بلکہ اپنے دین سے رو گردانی کرنے والے مسلمانوں نے اسے لہب و لعب کا کھلونا بنا دیا‘ اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔
بد گمانی بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
آج مرد اور عورت دونوں تنہا ہو کر صنفی مساوات جیسے زہر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مغرب اور مشرق کے یہ کھوکھلے نعرے کہ صنفی مساوات معاشی ترقی فراہم کرے گی اور جب تک مرد کے شانہ بہ شانہ عورت اپنے گھر کو تباہ کر کے باہر نہیں نکلے‘ ترقی نہیں ہو گی۔ تمام کھوکھلے نعروں کی حقیقت مغرب میں معاشرتی تباہ کاری اور خصوصاً خواتین کے حقوق کی پامالی نے بالکل واضح کردی ہے۔ جامعات، تجارتی مراکز اور حکومتی اداروں میں مخلوط ماحول نے خواتین کے تحفظ کو عملاً ناممکن بنا دیا ہے جس کی ایک واضح مثال امریکی فوجی اداروں میں ہر سطح پر جنسی ہراسانی اور تشدد کا پایا جانا ایک قومی لمحہ فکر ہے۔
یہ ہر عہد کی داستان ہے۔ تاریخ کے اوراق سے پتا چلتا ہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب و آلام کا سامنا کرتی رہی اور کتنی بے دردی سے پستیوں میں پھینک دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو معظم بنایا لیکن قدیم جاہلیت نے عورت کو جس پستی کے گھڑے میں پھینکا اور جدید جاہلیت نے اسے آزادی کا لالچ دے کر جس ذلت سے دو چار کیا وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ایک طرف قدیم جاہلیت نے اسے زندگی سے محروم کیا تو دوسری جانب جدید جاہلیت نے اسے زندگی کے ہر میدان میں دوش بہ دوش چلنے کی ترغیب دی اور اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر شمع محفل بنا دیا۔ لیکن جب اسلام کا سایہ رحمت آیا تو عورت کی حیثیت بدل کر گھر کی ملکہ کی سی ہوگئی۔ محسن انسانیت جناب رسول اللہﷺ نے انسانی سماج پر خصوصاً عورتوں پر احسان ِعظیم فرمایا۔ عورتوں کو ظلم، بے حیائی، رسوائی، بےراہ روی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا‘ انہیں تحفظ بخشا‘ ان کے حقوق اجاگر کیے۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے ان کےفرائض بتلائے اور انہیں شمع خانہ بنا کر عزت و احترام کی سب سے اونچی مسند پر فائز کر کے عورت و مرد کے شرعی احکامات کو تفصیل سے بیان کردیا۔
آج مغربی اقوام بھی عورت کی غلام بنام آزادی سے تنگ آچکی ہیں۔ آج کی عورت بھی آزادی کے نام پر اپنی عزت و وقار کھو بیٹھی‘ آزادی کے نام پر غلامی کا شکار ہوگئی۔ وہ آج پھر وہی اسلامی قانون کی متلاشی ہے جہاں ایک ماں صرف اپنے بچوں کے آنکھ کا تارا نہیں بلکہ شوہر کا سکون و قرار، گھر کی ملکہ اور گھر کے تمام امور میں شوہر کی معاون بن کر اپنے گھر میں سکون کی زندگی گزار دیتی ہے۔ وہ ماں ہے تو پیروں تلے جنت، بہن ہے تو بھائی کی عزت کی نگہبان، بیٹی ہے تو باپ کی امیدوں کا محور اور باپ کے لیے نبی مہربانﷺ کی جنت کی بشارت، بیوی ہے تو شوہر کے سکون کا ذریعہ اور یہ سب دین اسلام کی رو سے اس کے حقیقی سائبان ہیں۔
اک زندہ حقیقت ہے مرے سینے میں مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نہ پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

حصہ