نشانِ عظمت

269

دو نوکر اور ایک کمسن لڑکا۔ عمر یہی کوئی گیارہ بارہ سال، ایک باغ میں دوڑ رہے تھے۔ ان کے آگے آگے ایک شیر کا بچہ تھا۔ لڑکا نوکروں سے چند قدم پیچھے تھا۔ آگے جا کر نوکروں نے شیر کے بچے کو گھیر لیا۔ جونہی ایک نوکر اس کے گلے کی زنجیر پکڑنے کے لیے جھکا اس نے غرا کر اپنے دونوں اگلے پنجے اٹھا دیے۔ نوکر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا ساتھی ڈر کے مارے پہلے ہی ایک طرف ہو گیا تھا۔ کم سن لڑکا ہنستا ہوا آگے بڑھا اور اس نے اطمینان سے شیر کے بچے کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اس کی زنجیر پکڑلی اور اسے نوکر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’لو اب اسے لے جائو‘‘۔
نوکر جو اب تک ڈرا ہوا تھا بولا۔ ’’حضور یہ کاٹتا ہے‘‘۔
’’تم خواہ مخواہ ڈرتے ہو، یہ دیکھو‘‘۔ لڑکے نے یہ کہتے ہوئے اپنا ہاھ شیر کے بچے کے منہ کے سامنے کر دیا۔ شیر کا بچہ لڑکے کے ہاتھ چاٹنے کے بعد اس کے پائوں پر لیٹ گیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ بچپن ہی سے شجاعت کے ایسے کھیل کھیلنے والا یہ بہادر بچہ کون تھا۔ یہ بچہ فتح علی ٹیپو سلطان تھا جس نے بڑے ہو کر بھی بڑی بہادری کے ساتھ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا۔
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔

حصہ