سیرت صحابیات ؄ حضرت سمیہ بنت خباط؄

570

رحمتِ عالم ؐ نے بعثت کے بعد دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو وہی قریشِ مکہ جن کی زبانیں آپؐ کو ’’امین امین‘‘ کہتے نہیں تھکتی تھیں، نہ صرف آپؐ کے خون کے پیاسے بن گئے بلکہ جو شخص بھی دعوتِ حق پر لبیک کہتا اُس پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کردیتے تھے۔ اس میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ اسی زمانے میں سرورِ عالمؐ ایک دن بنو مخزوم کے محلے سے گزرے تو آپؐ نے دیکھا کہ کفارِ قریش نے ایک ضعیف العمر خاتون کو لوہے کی زرہ پہناکر دھوپ میں زمین پر لٹا رکھا ہے اور پاس کھڑے ہوکر قہقہے لگارہے ہیں، ساتھ ہی اس خاتون سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں ’’محمدؐ کا دین قبول کرنے کا مزا چکھ۔‘‘
مظلوم خاتون کی بے بسی دیکھ کر حضورؐ آبدیدہ ہوگئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’صبر کرو، تمہارا ٹھکانا جنت میں ہے‘‘۔
راہِ حق میں ظلم سہنے والی یہ خاتون جن کو سیدالمرسلینؐ نے صبر کی تلقین فرمائی اور جنت کی بشارت دی، حضرت سمیہ بنتِ خباطؓ تھیں۔
حضرت سمیہ بنتِ خباطؓ کا شمار نہایت بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے، انہوں نے راہِ حق میں اپنے ضعف اور کبر سنی کے باوجود زہرہ گداز مظالم جھیلے، یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی راہ میں قربان کردی اور اسلام کی سب سے پہلی شہید ہونے کا مہتمم بالشان شرف حاصل کیا۔
حضرت سمیہؓ کے آبا و اجداد میں صرف ان کے باپ ’’خباط‘‘ کا نام معلوم ہے، اُن کا وطن اور خاندان کون سا تھا اور وہ کب اور کیسے مکہ پہنچیں؟ کتبِ سِیَر ان سوالوں کا جواب نہیں دیتیں، صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ وہ ایامِ جاہلیت میں مکہ کے ایک رئیس ابو حذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ یہ بعثتِ نبوی سے تقریباً پینتالیس سال پہلے کا ذکر ہے۔ اسی زمانے میں یمن سے ایک قحطانی النسل شخص یاسر بن عامر اپنے ایک مفقود الخبر بھائی کو تلاش کرتے ہوئے مکہ میں وارد ہوئے اور یہیں مستقل اقامت اختیار کرکے ابو حذیفہ بن المغیرہ کے حلیف بن گئے۔ اس نے حضرت سمیہ کی شادی یاسر بن عامر سے کردی۔ ان کے صلب سے حضرت سمیہ ؓ کے دو بیٹے پیدا ہوئے: عبداللہؓ اور عمارؓ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رحمتِ عالمؐ بچپن اور جوانی کی منزلیں طے کررہے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضورؐ کی حیاتِ اقدس کا یہ سارا دور یاسرؓ، سمیہؓ، عبداللہؓ اور عمارؓ کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضورؐ کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا، کیوں کہ بعثت کے بعد حضورؐ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو اس سارے خاندان نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ اُس وقت ابوحذیفہ مخزومی کا انتقال ہوچکا تھا اور حضرت سمیہؓ اس کے ورثا کی غلامی میں تھیں۔ یہ اہلِ حق کے لیے بڑا پُرآشوب زمانہ تھا۔ مکہ کا جو شخص اسلام قبول کرتا، مشرکینِ قریش کے غیظ و غضب اور لرزہ خیز جور و تشدد کا نشانہ بن جاتا۔ مشرکین اس معاملے میں اپنے قریب ترین عزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے۔ حضرت یاسرؓ اور ان کے لڑکے غریب الوطن تھے اور حضرت سمیہؓ کو بھی ابھی بنو مخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا۔ ان بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین کو کوئی چیز مانع نہیں تھی۔ انہوں نے اس بے کس خاندان پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ دونوں بہت ضعیف اور کبیرالسن تھے، مگر ان کی قوتِ ایمانی اور استقامت کا یہ عالم تھا کہ مشرکین ان کو طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتے تھے اور شرک پر مجبور کرتے تھے لیکن اُن کے قدم جادۂ حق سے ایک لمحے کے لیے بھی نہ ڈگمگاتے تھے۔ یہی حال ان کے بیٹوں کا تھا۔ ان مظلوموں کو لوہے کی زرہیں پہناکر مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لٹانا، ان کی پشت کو انگاروں سے داغنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ ایک مرتبہ سرورِ عالمؐ اس مقام سے گزرے جہاں ان مظلوموں کو عذاب دیا جارہا تھا۔ آپؐ کو اس پر سخت دکھ ہوا اور آپؐ نے فرمایا: ’’صبر کرو اے آلِ یاسر، تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ حضرت یاسرؓ، حضرت سمیہؓ اور ان کے بچوں کو مبتلائے مصیبت دیکھا تو فرمایا: ’’صبر کرو، الٰہی آلِ یاسرؓ کی مغفرت فرمادے اور تُو نے ان کی مغفرت کر ہی دی‘‘۔ بوڑھے یاسرؓ یہ ظلم سہتے سہتے ایک دن جاں بحق ہوگئے لیکن مشرکین کو پھر بھی اس خاندان پر رحم نہ آیا اور انہوں نے حضرت سمیہؓ اور اُن کے بچوں پر ظلم کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔
ایک دن حضرت سمیہؓ دن بھر سختیاں سہنے کے بعد شام کو گھر آئیں تو ابوجہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کردیں، اور پھر اُس کا غصہ اس قدر تیز ہوا کہ اپنا برچھا حضرت سمیہؓ کو کھینچ مارا۔ وہ اسی وقت زمین پر گرگئیں اور اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے تیر مار کر حضرت سمیہؓ کے فرزند عبداللہؓ کو بھی شہید کردیا۔ اب صرف عمارؓ باقی رہ گئے تھے۔ اُن کو اپنی والدہ کے مرگِ بے کسی پر سخت صدمہ ہوا۔ روتے ہوئے سرورِ عالمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ سناکر عرض کیا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی۔‘‘
آپؐ نے ان کو صبر کی تلقین کی اورفرمایا ’’اے اللہ! آلِ یاسر کو دوزخ سے بچا۔‘‘
حضرت عمارؓ تو بیٹے تھے اس لیے ان کو والدہ کی مظلومانہ شہادت کبھی نہیں بھول سکتی تھی، لیکن سرورِ کونینؐ کو بھی ابوجہل کی شقاوت اور حضرت سمیہؓ کا مرگِ بے کسی یاد رہا۔ چناں چہ غزوہ بدر (رمضان المبارک 2 ہجری) میں ابوجہل جہنم واصل ہوا تو آپؐ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو بلا کر فرمایا:
’’اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا۔‘‘
حضرت سمیہؓ کی شہادت ہجرتِ نبوی سے کئی سال قبل واقع ہوئی اس لیے تمام اہلِ سِیَر نے انہیں اسلام کی ’’شہیدِ اوّل‘‘ قرار دیا ہے۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ہفت روزہ ’’دعوت‘‘)

حصہ