لڑائی مذہب اور غیر کی ہے, ممتاز صحافی ،ادیب اور دانشور سجاد میر سے مکالمہ

480

(دوسرا اور آخری حصہ)

سوال: دائیں اور بائیں بازو کی کش مکش سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بالکل ختم ہوگئی، حالاں کہ نظریاتی کش مکش تو پوری زندگی پر محیط ہے۔ کیا اس کی وجہ سوویت یونین کا خاتمہ ہے؟
سجاد میر: سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سب سے پہلے لیفٹ کی کمر ٹوٹی۔ اب وہ سارے کا سارا این جی او کو پیارا ہوگیا۔ این جی او کا تصور خود ایک مشتبہ تصور ہے۔ یہ پوسٹ ماڈرن سول سوسائٹی کا concept (تصور) خود فالٹی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے تو انسان نے مذہب سے بغاوت کی کہ مغرب نے اعلان کیا، خاص طور پر نطشے کا مشہور جملہ ہے کہ God is dead۔ اب مذہب کچھ نہیں ہے، اب انسان کے فیصلے انسان کو کرنے ہیں۔ انسان کا صحیح مطالعہ انسان ہی ہے اور انسانیت کی خدمت سب سے بڑی چیز ہے۔ اسی سے نام نہاد ہیومن ازم نے جنم لیا۔ انسان دوستی اور انسان پرستی دو الگ الگ اصطلاحات ہیں جو استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن ہیومن ازم کے طور پر جو کچھ ہوا، فلسفہ متبادل بن گیا مذہب کا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد شاید مغرب والوں کو احساس ہوا کہ یہ فلسفہ بھی غلط ہوسکتا ہے، کوئی مارکس آکر انقلابی روح پیدا کرسکتا ہے، تو یہ فلسفے کے بھی خلاف ہوگئے۔ پوسٹ ماڈرن فنامنا جو تھا وہ کہتا ہے کہ گرینڈ ڈیریویٹو (grand derivative)کی بات نہ کرو۔ گرینڈ ڈیریویٹو کا مطلب گویا یہ ہے کہ جاگیرداری نظام غلط ہے، بڑی بڑی باتیں نہیں کرو بلکہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرتے رہو جو معاشرے کو بدل دیں گی۔ چائلڈ لیبر پر بات کرو، کاروکاری پر بات کرو۔ یہ کام کرتے رہو، معاشرہ آہستہ آہستہ بدل جائے گا۔ معاشرہ نہیں بدلتا، اس لیے نہیں بدلتا کہ جب آپ ایسا مقدمہ لے کر دیہات میں جاتے ہیں اور بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو وہاں کا ڈی سی کام نہیں کرنے دیتا۔ کیوں نہیں کرنے دیتا، اس لیے کہ بااثر ہے۔ اور کون بااثر ہے، تو پتا چلا کہ فیوڈل ہے۔ پھر فیوڈل ازم کے خلاف تو آپ بول نہیں رہے، اس کو آپ سپورٹ کررہے ہیں، چھوٹے چھوٹے کام آپ کے کیسے پورے ہوں گے۔ خود یہ این جی اوز کا تصور یا سول سوسائٹی کے تصور کا پوسٹ ماڈرن تصور فالٹی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں میں الجھا کر اتنا پیسا آیا ہے کہ انہوں نے (مغرب) طے یہ کیا کہ ریاستوں کو ہم طاقت کے زور پر سنبھال لیں گے، فوج کے زور پر۔ لیکن جو افراد یا گروپ ہیں ان کو سنبھالنے کے لیے اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کہا کہ وہ فنڈز مہیا کریں۔ اور وہی ہورہا ہے۔ یہ سارے لوگ ادھر چلے گئے جہاں پیسہ تھا، تو ہمارے بندے بھی للچائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کمیونزم سامنے نہیں رہا تو نظریہ ختم ہوگیا۔ لالچ پیدا ہوگئی کہ دیکھو وہ پیسہ کما رہے ہیں۔ اور کیا کیا مفادات ہیں ان کے، اور کیا کیا عزت ہے معاشرے میں اور عالمی عزت بھی ہے ان کی۔ نجم سیٹھی پکڑا جاتا ہے تو امریکہ چیخ اٹھتا ہے، حسین حقانی کے پکڑے جانے پر تھوڑا سا چیختا ہے، حالاں کہ چھے سات بڑے لوگ گرفتار تھے، ان پر کوئی نہیں بولتا۔پرانی بات ہے!
سوال: ایک زمانہ تھا کہ ہمارے درمیان ہر شعبے میں بڑی شخصیات موجود تھیں، اب صورت حال یہ ہے کہ کسی شعبے میں بڑی شخصیات کو تلاش کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ اس صورت حال کا کیاسبب ہے؟
سجاد میر:آپ شخصیات کی بات کررہے ہیں۔ احمد جاوید میرے لیے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، اس کی تربیت کے سارے مراحل ہم نے دیکھے ہیں۔ لاہور میں بھی مجھے جو بندہ آکر کہتا کہ اوریا مقبول جان کے رابطے میں ہوں، اس کے پاس سے آپ کے پاس آیا ہوں، یا احمد جاوید کی محفل میں بیٹھتا ہوں وہاں سے آیا ہوں، تو میرے لیے سب سے قیمتی لوگ وہی ہوتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو ان جیسے چار چھے لوگوں سے ملتے ہیں اور مجھے اگر دستیاب ہوتے ہیں تو میں ان سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ ایسے لوگ کم نہیں ہیں۔ اب کھلے دل کی بات کرنے کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو کشادہ دل کریں مثلاً اوریا مقبول جان ایک مختلف سوچ کا آدمی ہے، احمد جاوید ایک مختلف سوچ کا آدمی ہے۔ مجھے اگر کوئی غامدی پڑھتا نظر آتا ہے تو میں کئی چیزوں پر بہت سخت اختلاف کرتا ہوں، لیکن میں کہتا ہوں چلو مذہب کی بات تو کرتا ہے، تصور کچھ بھی ہو۔ ڈاکٹر اسرار کے لوگ الگ دنیا رکھتے ہیں، میں کہتا ہوں جو کچھ بھی ہو مذہب کی بات تو کرتے ہیں ناں۔ بہت سے ایسے لوگوں کو جو مذہب کی بات کرتے ہوں اور مذہب کو آگے لے کر چلتے ہوں، یہ کہہ کر کہ یہ ہمارے نظریے یا ہمارے مسلک یا ہماری جماعت یا ہماری فکر کے خلاف ہیں، نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ لڑائی مذہب کی اور غیر مذہب کی ہے، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے اور اسی کو لے کر آگے چلنا چاہیے۔
سوال: علمی اختلاف جو کرتے ہیں وہ انہی کے درمیان ہی تو ہیں؟
سجاد میر: یہ ٹھیک ہے۔ مذہب کے دائرے ہی میں اختلاف کررہے ہیں۔ بے دینی کے اکھاڑے میں تو نہیں جارہے ناں۔ میں نے ایک واقعہ سنایا میوات کے علاقے میں لوگوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کو بلایا اور یہ کہہ کر بلایا کہ یہ لوگ ہندوانہ نام رکھتے ہیں، دو دو نام رکھتے ہیں، ان کو تلقین کریں کہ ان کی رسوم بڑی غلط ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی وہاں گئے، ان کے لیڈروں کو بلایا، اور کہنے لگے کہ سنا ہے تم اس طرح کرتے ہو۔ انہوں نے کہا: حضرت کیا فرمایا آپ نے ہم کافر ہوگئے ہیں! ہم تو تاجیہ نکالے ہیں تاجیہ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں یہ کام کرتے رہنا، اور لوگوں سے کہا کہ ان کو تعزیہ نکالنے پر نہیں ٹوکنا۔ وہیں سے تبلیغی جماعت پیدا ہوئی۔ مطلب کیا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ ایک رسم کے ذریعے اگر مذہب سے کوئی لگا ہوا ہے تو اس کے وہ تسمہ نہیں توڑو۔ اس پر مجھے منورحسن نے کہا کہ آپ یہ بات کررہے ہیں، میں ترکی گیا تھا، مجھے وہاں کی تحریک اسلامی کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے جدیدیت کا مقابلہ بدعات سے کیا ہے۔ وہاں کا جو اسلام بنیادی طور پر ہے وہی خانقاہی مزاج کا اسلام ہے، وہ جس کو یہاں بدعتی یا صوفیانہ اسلام کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدعات سے ہم نے جدیدیت کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ جو رسوم ہوتی ہیں جن کے ہم بہت خلاف ہوجاتے ہیں، مذہب سے جڑ جانے کا ایک رشتہ ہے۔ اس سے آدمی کو چمٹے رہنے دیں۔ ان شاء اللہ اس کی اصلاح ہوجائے گی۔
سوال: جن کے نام آپ نے لیے، ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں۔ ان لوگوں کی گفتگو اور محفلوں کے اثرات معاشرے پر کیا ہیں؟ کیا یہ کسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں؟
سجاد میر: احمد جاوید کو میں کسی اور کیٹگری میں گنتا ہوں۔ سراج منیر تھے۔ میرا دونوں سے رشتہ ادب کے حوالے سے تھا، تہذیبی حوالے سے تھا اور ہے۔ لیکن یہ جو رفیق اختر ہیں ان کی شہرت ایک صوفی کے طور پر ابھری ہے۔ چار افراد ہیں جو اس حوالے سے معروف ہوئے ہیں۔ یہ، ایک یہ رفیق اختر اورر ایک سرفراز شاہ صاحب، اور وہ لوگ جو کچھ پوشیدہ باتیں بھی بتادیتے ہیں لیکن اس پر زیادہ اصرار نہیں کرتے۔ ایک عبداللہ بھٹی صاحب کی شہرت ہے اور ایک عرفان الحق جہلم کے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ عمران نے آپریشن نہ کرانے کا فیصلہ ان کے کہنے پر کیا تھا، انہوں نے جو نسخہ بتایا تھا وہ استعمال کیا، ان کی بھی شہرت ہوئی۔ یہ سارے لوگ اپنے اپنے دائرے میں دین کی خدمت کررہے ہیں۔ یہ کوئی بے دینی نہیں پھیلا رہے، سیکولرازم نہیں پھیلا رہے، لبرل ازم نہیں پھیلا رہے۔ ہمیں ان سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں کام کرنے دینا چاہیے۔ اس کے اثرات پھیلتے ہیں۔ ہمارے ہارون رشید صاحب، اکرم اعوان کو ’’قطب‘‘ سمجھتے تھے۔ اب پروفیسر رفیق اختر صاحب کو سمجھتے ہیں۔ میں اکرم اعوان صاحب کے ہاں بھی گیا۔ اسٹیج پر بیٹھے ہم دیکھ رہے تھے کہ ہزاروں کا مجمع ہے اور وہ تقریر کررہے ہیں۔ طارق جمیل کے بارے میں بہت سارے لوگ کہتے ہیں ایکٹرسوں اور کھلاڑیوں میں مقبول ہے۔ میرے نزدیک تو ان کی بات میں اثر ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہیں۔
سوال: پاکستان میں سیاسی انتشار ہے، سماجی انتشار ہے، مذہبی انتشار ہے۔ انتشار کے جتنے عنوانات گنائے جاسکتے ہیں وہ تمام موجود ہیں، ایسے حالات میں جو آپ کہہ رہے ہیں… کیسے یہ تبدیلی آئے گی؟
سجاد میر: پہلی بات یہ ہے کہ
مالی دا کم پانڑی لانا مشکاں بھر بھر لادے
مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے
آپ کب سے خدا بن گئے ہیں کہ آپ ہی کو معاشرے کو بدلنا ہے۔ یہ تو اللہ کا کام ہے۔ اللہ نہیں بنو اور رسول نہیں بنو۔ یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ میں نے کیا وہ کچھ ہوکر رہے۔ اور یہ نہ سمجھو کہ میرے سوا کوئی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ایک عالم بے بدل کی نصیحت ہے جو انہوں نے اپنے شاگرد سے وقت رخصتی کی تھی۔ آپ کا کام یہ ہے کہ اپنے طریقے کے مطابق کام کرتے رہو، تبدیلی کے راستے آپ چھوڑ دو مالک پر، آپ اپنی طرف سے بہترین حکمت عملی سے کام کرو۔ متبادل تبدیلی کے جو طریقے لوگوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں ان سے چڑو مت، یہ غلط کررہا ہے وہ غلط کررہا ہے۔ غامدی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت سی چیزیں پرویزی اور سیکولر لے آتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں پرویز ہی تھا جس کا نام لیا جاتا تھا، لیکن پرویز نے بہت سے لوگوں کو دین کی طرف راغب کیا۔ ایسا بھی ہوا کہ بعد میں بہت سے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان بھی ہوگئے۔ آپ فضا پیدا ہونے دیں، آپ مزاج پیدا ہونے دیں، جو دینی فضا ہو۔ اب یہ لوگ جو لبرل اور سیکولر ہیں یہ مارکس ازم کے لیے کام نہیں کررہے، لیکن یہ ایسی فضا پیدا کررہے ہیں جو بے دینی کو فروغ دیتی ہے۔ ہماری لڑائی اس فضا کے خلاف ہے۔ صحیح فضا ہوگی تو پودا پرورش پائے گا، ورنہ کوئی پودا پھل پھول نہیں پائے گا۔
سوال: پاکستان میں کسی مثبت تبدیلی کے امکانات کیا دیکھ رہے ہیں؟
سجاد میر: تبدیلی موجود ہے۔ ایک امریکی نے مجھ سے کہا: کوئی مذہبی پارٹی باقی نہیں بچی، آپ کب تک اسلامی رہیں گے؟ میں نے کہا: جو پارٹیاں جیتی ہیں اُن میں سے دو تو رائٹ آف دی سینٹر ہیں، ایک لیفٹ آف دی سینٹر ہے، ایکسٹریمسٹ تو کوئی نہیں ہے، آپ خوش کس بات پر ہورہے ہیں! نوازشریف آئے، عمران خان دونوں رائٹ آف سینٹر۔ حتیٰ کہ زرداری آئے وہ بھی لیفٹ آف دی سینٹر ہیں۔ ہمارے اوپر آپ یہ کیس بناتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں لبرل اور سیکولر جماعتیں جیتی ہیں، تو ہمارے ہاں لبرل اور سیکولرازم کا نام لینے والا لوگوں سے ووٹ نہیں لے سکتا۔دو جماعتیں رائٹ آف دی سینٹر ہیں اور جو لیفٹ آف دی سینٹر ہیں ان پر بھی تہمت ہے لیفٹ آف دی سینٹر کی۔ ایسی صورت میں آپ لوگوں کی موجودگی میں تبدیلی نہ آئی ہوتی یہاں بھاشانی نہیں جیتا تھا۔ بھٹو کو اسلام کا نام لینا پڑا۔ وہ کش مکش کا انتہائی زمانہ تھا۔ الیکشن ہار گئے لیکن طے ہوا کہ اسلام سے آپ بھاگ نہیں سکتے۔ بھٹو کو اسلام کی طرف لوٹنا پڑا۔ اسی کو اپنی جیت کیوں نہیں سمجھتے! اگر اس کو کہیں گے کہ فلاں سیاسی جماعت کی جیت ہے پھر تو اور بات ہے… میں تو کہتا ہوں کہ اس کو اس طرح کہو کہ فطری طور پر وہ فکر جو اس قوم کو مذہب کے مرکز پر مجتمع رکھتی ہے اس کی جیت ہوئی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ نوازشریف کی اصل طاقت کیا ہے؟ مذہبی گروپ ہے۔ عمران خان کی طاقت کیا ہے سوائے مختصر سی لبرل کے ‘جو لبرل رائٹ ہے۔ ساری تنظیم رائٹ ہے۔ پیپلز پارٹی جتنے بھی انقلاب کے نعرے لگائے، وہ اسلام سے دور نہیں بھاگ سکتی۔ اب تو اے این پی بھی بتاتی ہے کہ ہمارے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ یہ معاشرے میں آپ کی جیت نہیں تو اور کیا ہے! اس کو آپ جیت کیوں نہیں سمجھتے! صرف انتخابی جیت کو جیت کیوں سمجھتے ہیں! آپ کی فکر کی جیت ہے کہ کوئی پارٹی آپ کی فکر سے دور بھاگ نہیں سکتی۔ آپ سے مراد جماعت اسلامی نہیں، دینی طبقہ ہے۔
سوال: آج ادب اور صحافت کا رشتہ ختم ہو رہا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
سجاد میر: آغاز میں صحافی وہی ہوا کرتا تھا جو اپنی بات کا ابلاغ کرسکتا تھا۔ وہ چاہے ادیب ہو‘ چاہے مصلح ہو‘ چاہے کوئی پولی ٹیکل ریفارمر ہو۔ وہ چاہے محمد علی جوہر ہوں ‘چاہے حسرت موہانی ہوں ‘چاہے ظفر علی خان ہوں ‘چاہے ابوالکلام آزاد ہوں وہ ادیب بھی تھے، خطیب بھی تھے ان کا مطمح نظر صحافت سے پیسے کمانا یا ریٹنگ لینا نہیں تھا۔ ریٹنگ لینا میں اس لیے کہتا ہوں کہ آپ کی چیز کتنے لوگ پڑ ھ رہے ہیں پرنٹ میڈیا کے زمانے میں یہ بات ہوتی تھی چنانچہ میں نے ایک بار کراچی یونی ورسٹی میں دبستان کراچی اور دبستان لاہور کا فرق بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور میں صحافت کا آغاز نظریاتی بنیاد پر ہوا۔ زمیندار تھا ‘زمیندار کے بعد نوائے وقت تھا۔ ان کے مقابلے میں جو صحافت آئی وہ بھی نظریاتی تھی۔ امروز آیا وہ لیفٹ کی صحافت تھی۔ لاہور کا دبستان ایک نظریاتی دبستان بن گیا۔ اس لیے ادیب ہی صحافی ہوا کرتا تھا۔ کوئی ایسا آدمی جو مشن رکھتا ہو‘ مصلح ہو وہ بات کہنا چاہتا ہو وہی صحافی ہوا کرتا تھا۔ اسماعیل ذبیح تھے ‘ظفر علی خان تھے، نصر اللہ عزیز تھے اور حسرت موہانی تھے، آزاد تھے، محمد علی جوہر تھے۔ جوہر سے زیادہ اچھی انگریزی کون جانتا تھا۔ وائسرائے کی بیگم جب واپس جارہی تھی اس سے پوچھا کہ گیا تم کیا ساتھ لے جارہی ہو؟ تو اس نے کہا میں کامریڈ کے پرچے لے کر جارہی ہوں۔ ظفر علی خان کی خطابت اور اس کی شاعری۔ پنجاب میں کہتے ہیں اقبال کے بعد کوئی آدمی پیداکیا ہے تو قادر الکلامی میں ظفر علی خان تھا اتنا بڑانام تھا۔ کراچی میں جب آغاز ہوا ہے تو جب جنگ آیا ہے تو کراچی میں کوئی روایت تھی ہی نہیں۔ مچھیروں کی بستی تھی اور صنعتیں لگ رہی تھیں۔ صنعتیں لگیں تو مزاج بالکل کمرشل ہوگیا۔ جنگ آیا‘ انجام آیا ‘حریت آیا ‘ایک کمرشل مزاج کے ساتھ آیا۔ آپ ان کاکوئی وہ کیریکٹر بیان نہیں کرسکتے کہ وہ نظریاتی طور پر یہ تھے وہ تھے، اس کو دیکھ کر نظریاتی لوگ اس میں گھس گئے۔ انہوں نے اپنا کام دکھایا۔ طے کر کے اپنی بات کہنی ہے لوگ اخباروں میں شامل ہو جاتے تھے۔ چاہے وہ کمرشل ہونا چاہے وہ نظریاتی ہو۔ نظریاتی اس وقت زیادہ لاہور میں تھے۔ کمرشل اس وقت زیادہ کراچی میں تھے۔ مشرق آگیا، کوہستان آگیا، دوسرے اخبار آگئے، جسارت آگیا، ایک مزاج بنتا گیا۔ لیکن بے شمار تھے جو صحافت کومشن سمجھتے تھے۔ پھر کہا گیا کہ یہ انڈسٹری ہے۔ جب سے یہ انڈسٹری بنا ہے‘ ہمارا معاشرہ اس طرح بدلاہے کہ ہم نے اس کو کاروباربنا لیا ہے۔ تب سے یہ سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے نظریاتی لوگوں کو ہزیمت اس وقت ہوئی جب الیکٹرونک میڈیا آیا۔ الیکٹرونک میڈیا کے اپنے تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہاں سب سے بڑی چیز ریٹنگ ہوتی ہے مثال کے طور پر ریٹنگ کے لیے آپ کو قلابازیاں کھانا پڑیں تو کھا لیتے ہیں‘ ریٹنگ کے لیے آپ کو ننگا ہونا پڑے تو ننگے ہو جاتے ہیں۔ ریٹنگ کے لیے دو تین گالیاں دینا پڑیں تو آپ گالی دے دیتے ہیں۔ عجیب و غریب معاشرہ ہے! جو آدمی سارے کام کرتا ہے اس کی ریٹنگ ٹھیک آتی ہے‘ نتیجہ کیا ہے؟ جیسا میں نے شروع میں کہا آہستہ آہستہ وہ لوگ چھا گئے جو مداری کا تماشا دیکھاتے ہیں۔ یہ سارا ایک پراسس ہے جو سرمایہ دار معاشرے میں ہوتا ہے ‘اور ہوا ہے۔ اس میں ہوسکتا ہے ہماری کوتاہیاں بھی ہوں لیکن یہ بھی ہے کہ پہلے اتنے زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی اب وسائل کی اتنی زیادہ ضرورت پڑ گئی ہے جو ہمارے پاس میسر نہیں ہیں‘ اور جو طاقتیں یہ وسائل مہیا کرسکتی ہیںانہوں نے بھی اُن لوگوں کو مہیا کی ہیں جو یہ کام پروفیشنلی نہیں کرسکتے تھے ۔ان کو ڈر تھا کہ آج پاکستان میں کام ہوگیا تو کہیں وہی پروفیشنل لوگ ان کے ملک میں بھی کسی طرح سے نفوذ نہ کرجائیں۔
سوال:آپ کااخباری صحافت کاتجربہ طویل ہے۔ مجلہ کی صحافت سے آغاز،پھر کئی اخبارات کا سفر۔ آپ اس تجربے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
سجاد میر: وہ ہماری فائٹ تھی جس کا کوئی مقابلہ پاکستان کی تاریخ میں نہیں۔ 1977ء کی تحریک میں بھی ڈٹ کر کام کیا۔ کراچی میں نوائے وقت کی نمائندگی کرتا تھااور زندگی میں تھا‘ پھرلاہور چلا گیا۔ لاہور میں بھی کمان سنبھالے رکھی۔ ایک ہمارا dedicated گروپ تھا۔ سعود ساحر تھے، مختار حسن تھے، محمدموسیٰ بھٹو تے، شامی صاحب تو تھے ہی اس میں الطاف حسن قریشی تھے۔ ان لوگوں کانام نظریاتی طور پر آئی کون کے طور پر آتا تھا۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ
حالات بدل گئے بلکہ ہم لوگ بدل گئے۔ یہ میں نہیں کہتا لوگ کہتے ہیں کہ بدل گئے‘ لیکن کچھ خرابی ضرور ہوئی۔ اس محاذ پر یا تو ہمیں پسپائی ہوئی یاہمارے آئیڈیل بدل گئے یا ہم نے یہ محسوس کیا کہ اس کا فائدہ کوئی نہیں ہے ‘یا پیچھے ایک بائنڈنگ فورس تھی وہ کمزور ہوگئی۔ بائنڈنگ فورس اس طرح نہیں رہی جس قوت کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ سلیم احمد بھی جماعتیہ کہلاتے تھے میں نے لکھا تھا کہ جب میں روس کے خلاف لڑ رہا تھا تو جماعتیہ کہلاتا تھا اور جب امریکا کے خلاف لڑ رہاہوں تو بنیاد پرست کہلاتا ہوں ۔میں وہی ہوں‘ کبھی میرا نام جماعتیہ ہوتا ہے کبھی بنیاد پرست ہوتا ہے۔ اگر میں جماعتیہ ہوں تو جماعت کہاں کھڑی ہے۔ کیا وہ مجھے فورس پرووائیڈ کرسکتی ہے؟ اور اگر میں بنیاد پرست ہوں تو میری بنیادیں مضبوط ہیں کہ نہیں ؟اگر میری بنیادیں مضبوط ہیں تو میری بنیادوں کو مضبوط کرنے والی قوتیں موجود ہیں تو میں مضبوط ہوں۔ اصل مسئلہ تو یہ پیدا ہوا ہے۔
’’کردیا مر کے … دیوانہ ہم کو‘‘ لوگ چلے گئے اور لڑتے ہوئے گئے۔ عبدالکریم عابد تھے، بڑے نظریاتی آدمی تھے،صلاح الدین صاحب تو اپنی جنگ لڑتے ہوئے گئے، اللہ سلامت رکھے الطاف حسن قریشی صاحب ان حالات میں جو کرسکتے ہیں وہ پچاس سال سے کررہے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہیں۔ نیا گروپ پیدا ہونے سے متعلق میں زیادہ پرامید نہیں۔ بات یہ ہے کہ جس کو ہم اپنا دور زوال کہتے ہیں بنیادی طور پر وہ ہمارا دورِ کمال تھا۔آپ سرسید کے زمانے سے شروع ہو جائیں۔ کیا کیا شخصیات پیدا ہوئیں لکھنے والوں میں بھی۔ اقبال سے پہلے کے لوگوں کو لے لیں۔ ابوالکلام، شبلی، ہر شعبے میں کمال کے لوگ تھے علماء بھی کمال کے تھے۔ علماء جتنے پیدا ہوئے دس بارہ تو دیو بند کے ہیں۔ دیو بند سے ہٹ کر بے شمار لوگ ہیں ہم کئیوں کے نام نہیں جانتے فضل حق خیر آبادی تھے غالب کے دوست تھے ‘کالا پانی کی سزا ہوئی خیر آباد اسکول آف تھاٹ موجود ہے جو بعد میں اپنی فقہی شکل میں بنا تو بریلی کا ہوگیا۔ فرنگی محل اتنا بڑا ادارہ تھا اتنا بڑا اسکول آف تھاٹ تھا۔ کیا کیا لوگ ہوا کرتے تھے۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی تھے جن کو استاد العلما کہتے تھے دیو بند بھی ان سے پڑھا ہوا بریلوی کہلانے والے بھی ان سے پڑھے ہوئے تھے۔ یہ روایتی علماکا حال تھا۔ باقیوں کو تو چھوڑیں ‘علمی طور پر دیکھیے پوری کی پوری نسل سرسید سے شروع کریں شبلی تک آئیں۔ شاعر میں ‘ادب میں ہر جگہ آپ دیکھیں ابوالکلام آزاد سے لے کر سید ابو الاعلیٰ مودودی تک اسی زمانے کی پیداوار ہیں سید مودودی کا بہت سارا کام قیام پاکستان کے بعد کا بھی ہے ‘بنیاد تو اسی زمانے میں پڑی تھی۔ اسی زمانے میں جس کو ہم دورِ غلامی کہتے ہیں۔ فکری طور پر ہمارا سنہری دور تھا اور آج جب ہم آزاد ہیں‘ آج ہم کمپیوٹر چلاسکتے ہیں ‘بہت عمدہ اور مینجمنٹ سائنس پڑھ سکتے ہیںلیکن یہ جو بنیاد کے اندر بنتا تھا جو جڑوں کو مضبوط کرتا تھا،ایسا بندہ نہیں پیدا ہو رہا۔ میرے خیال میں اس وقت معاشرے میں کنفیوژن ہے اس لیے ہمیں لوگ نظر نہیں آتے۔ ہم دیکھتے ہیں ظفر اسحاق تھے‘ ڈاکٹر ممتاز احمد تھے۔ انہوں نے کیا کیا کام کیے۔ ڈاکٹر منظور احمد ہیں۔ یہ بہت زیادہ کام کرنے والے لوگ ہیں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ انہی سے آپ کو نظر آئے گا کہ بہت نمایاں کام ہوا ہے۔ بہت سارے لوگ ان میں ایسے ہیں جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتے ہیں۔
سوال:آپ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میںکیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ کس کے اثرات زیادہ ہیں؟
سجاد میر: اثرات تو اِس وقت الیکٹرونک میڈیا کے زیادہ ہیں عامۃ الناس پر۔ لیکن جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ پرنٹ میڈیا پر اب بھی اعتبار کرتا ہے۔ ہم اخباروں اور جریدوں کی تحریروں کو صحافتی تحریر کہا کرتے تھے۔ صحافتی کا لفظ ہم دانستہ ذرا منفی معنوں میںاستعمال کرتے تھے۔ سنجیدہ بک ریڈنگ اور سنجیدہ کتابیں الگ ہوتی تھیں۔ اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ پرنٹ میڈیا کی عزت زیادہ ہے چاہے صحافت ہی کیوں نہ ہو۔ چھپے ہوئے لفظ کی حرمت باقی ہے۔ ابھی لوگ چھپی ہوئی چیز پڑھتے ہیں۔ اب بہت سا میٹریل ایسا سنجیدہ بھی آرہا ہے عام اخباروں میں، جو بہت مختلف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ آپ کو صحیح بات عام لوگوں تک پہنچانے کا موقع الیکٹرونک میڈیا سے ہی ملتا ہے۔ یہ سروے نہیں ہوا کہ کتنا دیرپا ہوتا ہے۔ یہ سروے کرنے کی ضرورت ہے کہ کتنا دیرپا ہے۔ دیرپا ہو نہیں سکتا کیوں کہ جو تھیوریز ہیں کمیونیکیشن کی، اسی میں ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو فوری اثر کرتی ہیں اور دور تک مار کرتی ہیں۔ ان کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے۔ جو چیزیں آہستہ اثر کرتی ہیں، دیرتک رہتی ہیں۔ اخبار سے دیر تک کتاب رہتی ہے۔ اس کے اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکٹرونک میڈیا ایک عارضی اثر تو رکھتا ہے، لیکن مستقل اثر رکھے گا کہ نہیں رکھے گا اس کی اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ نے سندھی اخبار الوحید نکالا، وہ منصوبہ کیوں ناکام ہوا؟
سجاد میر: اس کے ناکام ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دس بارہ افراد نے بیٹھ کر یہ طے کیا کہ سندھی پریس میں کام ہونا چاہیے۔ ہم نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وسائل کیسے آئیں؟ میں نے حساب کرکے بتایا کہ 15لاکھ میں نکل سکتا ہے۔ 15لاکھ بھی کم رقم نہیں تھی ہم جیسے لوگوں کے لیے۔ طریقہ اس کا یہ بتایا کہ اگر ہمیں 15پارٹیاں مل جائیں جو ایک ایک لاکھ ایڈوانس اشتہار کے دے دیں تو پرچہ نکال لیں گے۔ میں کہہ کر چلا گیا، وہ میرے گلے پڑ گیا۔ نتیجے کے طور پر ہم نے پرچہ نکال لیا۔ اس میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ مجھے آسٹریلیا جانا پڑا، بیگم میری وہاں پی ایچ ڈی کررہی تھیں۔ ساتھی کوئی تھا نہیں۔ اُس زمانے میں ایک صاحب نظر آتے تھے، اُن کو آگے بڑھایا بس یہی غلطی ہوگئی۔ ورنہ وہ منصوبہ بڑا پرفیکٹ تھا۔ اسی سسٹم کے ساتھ اردو کا پرچہ بھی نکلنا تھا۔ جب دو مہینے بعد آیا تو ڈمی بنا کر اشتہاروں کی کمائی سب کھا رہے تھے۔ میں مارکیٹ میں 15لاکھ چھوڑ کر گیا تھا۔ مطلب یہ کہ میرا آسٹریلیا جانا اور میرے پیچھے کسی سنبھالنے والے کا نہ ہونا… اسی لیے وہ منصوبہ ناکام رہا۔ ’’تعبیر‘‘ میں نے نکالا تھا، وہ پروجیکٹ چل جاتا۔ لیکن ضیاء الحق کا سنسر لگ گیا۔ خالی پرچہ آتا تھا سنسر شدہ۔ نتیجہ یہ کہ پہلے میں نے بند کیا، پھر شامی نے بند کیا، پھر الطاف حسن قریشی نے بند کیا۔ ہفت روزہ کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ کراچی میں ادارہ دو چار سال سیٹ کرچکا ہوتا تو شاید میں اس کو فیس کرلیتا۔ کوئی ڈائجسٹ نکال لیتا۔ جلد ہی سرمنڈاتے ہی اولے پڑ گئے تھے۔ ٹھیک ٹھاک شکل بنالی تھی سندھی پرچے نے۔اگر میرے پاس پیسے ہوتے اور میں کسی صحیح آدمی کو بٹھا جاتا تو وہ منصوبہ چلتا رہتا۔
پرویزمشرف سے امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ کچھ بھی کریں میڈیا کو آزاد کردیں، خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا کو۔ یہ بات پرویزمشرف نے اپنے قریب ترین حلقوں میں کہی۔ اس پر نئے چینل کھلے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ امریکہ یہ کیوں چاہتا ہے! بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے ذریعے وہ ہمارا کلچر، ہمارا مزاج، ہماری پوری فکر، پوری سمت بدلنا چاہتا ہے۔

حصہ