شعروشاعری

322

محمد رفیع سودا
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا
رخصت ہے باغباں کہ تنک دیکھ لیں چمن
جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا
آنے سے فوج خط کے نہ ہو دل کو مخلصی
بندھوا ہے زلف کا یہ چھٹایا نہ جائے گا
پہنچیں گے اس چمن میں نہ ہم داد کو کبھو
جوں گل یہ چاک جیب سلایا نہ جائے گا
تیغ جفائے یار سے دل سر نہ پھیریو
پھر منہ وفا کو ہم سے دکھایا نہ جائے گا
آوے گا وہ چمن میں نہ اے ابر جب تلک
پانی گلوں کے منہ میں چوایا نہ جائے گا
عمامے کو اتار کے پڑھیو نمازِ شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
زاہدِ گلے سے مستوں کے باز آنے کا نہیں
تا مے کدے میں لا کے چھکایا نہ جائے گا
ظالم نہ میں کہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سوداؔ کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
دامان و داغ تیغ کو دھویا تو کیا ہوا
عالم کے دل سے داغ دھلایا نہ جائے گا

سراج اورنگ آبادی
خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمت غیب سے کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شرابِ صد قدحِ آرزو خمِ دل میں تھی سو بھری رہی
وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی
کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی
سلیم احمد
ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی
یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی
دل تھا اداس عالمِ غربت کی شام تھی
کیا وقت تھا کہ تم سے ملاقات ہو گئی
یہ دشتِ ہول خیز یہ منزل کی دھن یہ شوق
یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی
رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے
جب مل گئے تو پرسشِ حالات ہو گئی
خو بو رہی سہی تھی جو مجھ میں خلوص کی
اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی
دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر
اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی

ساحر لدھیانوی
بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

ساغر نظامی
دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں
بربت ماہ پہ مضراب فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں
لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ریاض مجید
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
اس سے کب دیکھی گئی تھی میرے رخ کی مردنی
پھیر لیتا تھا وہ منہ مجھ کو دوا دیتے ہوئے
خوابِ بے تعبیر سی سوچیں مرے کس کام کی
سوچتا اتنا تو وہ دست عطا دیتے ہوئے
بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سل جاتے ہیں دنیا کو گلہ دیتے ہوئے
اپنی رہ مسدود کر دے گا یہی بڑھتا ہجوم
یہ نہ سوچا ہر کسی کو راستہ دیتے ہوئے
آپ اپنے قتل میں شامل تھا میں مقتول شوق
یہ کھلا مجھ پر طلب کا خوں بہا دیتے ہوئے
وہ ہمیں جب تک نظر آتا رہا تکتے رہے
گیلی آنکھوں اکھڑے لفظوں سے دعا دیتے ہوئے
جانے کس دہشت کا سایہ اس کو مہرِ لب ہوا
ڈر رہا ہے وہ مجھے کھل کر صدا دیتے ہوئے
بے اماں تھا آپ لیکن معجزہ ہے یہ ریاضؔ
ہالۂ شفقت تھا اس کو آسرا دیتے ہوئے

سیف الدین سیف
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان گئے ہم
اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں
اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حسن پشیماں ترے قربان گئے ہم
ہم اور ترے حسن تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے مان گئے ہم
بدلا ہے مگر بھیس غمِ عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم
ہے سیفؔ بس اتنا ہی تو افسانۂ ہستی
آئے تھے پریشان پریشان گئے ہم
ساغر صدیقی
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

قابل اجمیر کے اہم اشعار
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

حصہ