قانون کی حکمرانی:ماب لنچنگ۔۔۔۔۔۔۔پاپولرجسٹس

225

گذشتہ ہفتہ ’ماب لنچنگ ‘ یعنی ’ہجوم کا کسی پر تشددکرنا‘کے موضوع پر بات ہوئی تھی،طوالت کی وجہ سے مضمون کو جاری رکھا ہے کہ ادھوراچھوڑنا قاری کے ذہن میں اشکال پیدا کرتا۔ہماری ریاست نے بھی اِسے ایک بڑا مسئلہ بنا یا ہوا ہے۔جدید ریاست میں اس کی کیاتاریخ ہے؟پاکستان میں ہونے والے واقعات کی نوعیت کیا رہی ہے ۔وہ لوگ جو توہین رسالت کے معاملے میں اجماع امت پر ایمان رکھتے ہیں انکو اس پر کیسارد عمل دینا چاہیے ؟اس لیے آج ہم ’ماب لنچنگ‘ کو جدیدیت کے تاریخی تناظر میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
…٭…
جدیدیت عالمی سطح پرجیسے جیسے سرایت کرتی گئی ، اس نے عالم ا سلام ہی نہیںبلکہ دنیا بھر کے روایتی معاشروں کو بھی روند ڈالااور مختلف ثقافتیں اپنے تناظر میں uprootہوگئیں۔جدیدیت کی 300 سالہ تاریخ یہی بتاتی ہےکہ اِس نے ” انسانی اختیار و ارادے کو ایک غیر انسانی ادارہ جاتی صف بندی کے مکمل طور پرتابع یا ضم کرا ‘۔یہ عمل اس نے Rule of Law کے ذریعہ نافذ کیا ۔اس کی سادہ مثال برصغیر میں انگریز راج کی ہے ، جس نے قانون کے نفوذ سے سمجھایاکہ سب کو ہمارے جیسا بننا ہوگا، ہمارے نظام ، ہماری ادارتی صف بندی میں آنا ہوگا، اس لیے جو اس بات سے انکار کرتا کہ ہم آپ جیسے نہیں تو پھر وہ پوری قوت لگا کر ان افراد و گروہ کو اپنا تابع بناتاہے یا مسخ کر دیتا ‘یہی وجہ ہےکہ جدیدیت جہاں گئی وہاں کی معاشرت کو دہلا دیا۔ہزاروں روایتی معاشرے ختم ہو گئے، زبانیں ختم ہو گئیں، ثقافتیں دم توڑ گئیں۔ اس عمل کے رد عمل نے لوگوں میں Sense of Lostپیداکیا، مطلب وہ محسوس کرتے کہ ہمارا ساراکلچر ایک طاقتور نے جبر کے ساتھ ختم کردیا ہے مگر ہم آج بھی اپنے کلچر سے جڑے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی تاریخ دان و فلسفی رینےجراڈ ،نے اپنی کتاب ’اسکیپ گوٹ‘ ، میںcollective violenceکو موضوع بنایا ہے ، وہ اسی کے ذیل میں ’ماب لنچنگ‘ کو ڈسکس کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ماب لنچنگ کی گئی تو ا ن تمام افراد میںیہی ’سینس آف لاسٹ ‘ موجود تھا، اس لیے فرد ایک موقع پر آکر quick justiceکا مطالبہ کردیتا ہے۔’رینے جراڈ اسکی دلچسپ مثال امریکا کی دیتا ہے ۔
امریکا میں قابض گوروں کے شعور میں یہ بات شامل تھی کہ کالے ہمارے برابر نہیں ، جب تک امریکا مکمل نسل پرست ریاست کے طور پر تھا ،وہاں کالوں گوروں کو الگ الگ اسپیس میں رکھا گیا تھا ، ان کے الگ الگ قوانین تھے ، ان کے ساتھ شادیاں نہیں ہوتی تھیں، ان کے بیٹھنے ، پڑھنے سب معاملات الگ تھے تو وہاں کوئی تشدد کا واقعہ نہیں ہوا۔رینے بتاتا ہے کہ وہاں سارے بدترین واقعات جنوبی امریکا میں غلامی کے خاتمے کے بعد شروع ہوئے ۔اس لیے ’ماب لنچنگ ‘خالص ایک امریکی اصطلاح ہے۔ ابراہم لنکن نے سول وار کے خاتمے کے بعد کالوں کو ووٹ کا اختیار اور شہری حقوق دیئے تو وہاں کالے اور گوروں کے درمیان پائے جانے والے تعصب نے نئے قانون کو قبول نہیں کیا اور عوامی جذبات کا اظہار بدترین ’ماب لنچنگ ‘ کی صورت سامنے آیا۔میںدرج بالا مثال کے تناظر میں امریکی صدر کے سادہ الفاظ رقم کر رہا ہوں،
Abraham Lincoln wrote about lynching ,”The increasing disregard for law which pervades the country, the growing disposition to substitute the wild and furious passions in lieu of the sober judgment of courts, and the worse than savage mobs for the executive ministers of justice”
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1840-1950 کے دوران ’سفید برتری‘ کے نام پر کوئی 10,000 کالے’MOB ‘نے ماردیئے۔اب بظاہر تو ریاست نے کالوں کو حقوق دے کر قانون کے ذریعہ برابر کیا مگر لوگوں کے شعور نے کالوں کو برابر کا شہری ہوناقبول نہ کیا۔اچھایہ دیکھیں کہ اس دوران امریکی ریاست کیا کر تی رہی؟امریکا کوئی 70-80سال تک ماب لنچنگ ختم کرنے کے لیے قانون بھی نہ بنا سکا، اس کوpublic angerیا mob ruleقرار دے کر چلاتا رہا۔مطلب یہ کہ گورے کے اندرجدیدیت آنے سے اس کے اندر پیدا ہونے والے سینس آف لا سٹ کوریاست ضم نہیں کر پائی تھی ، اس لیے وہ موقع پا کر کالوں کو کئی سال مار تے رہے ۔
اجتماعی قتل و تشدد کی بات ہو توعظیم برطانیہ میں لوڈیٹیز ludditeکی تحریک کو بھول جانا اچھی بات نہیں ہوگی۔یہ برطانیہ میں ہاتھ سے کام کرنے والے ہنر مند تھے ۔1811میں جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب اپنے تہذیبی مظاہر کے ساتھ آیا اور مشینوں نے انسانوں کو بدلا توانہوں نے روایت پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام نئی ٹیکنالوجی کو جدیدیت کے عنوان سے مکمل رد کیاکہ مشینوں کی وجہ سے ہم بے روزگار ہو رہے ہیں۔اب یہ لوگ گروہ کی صورت رات کو مشینوں پرحملہ کرتے ،فیکٹریاں جلا دیتے، کئی فیکٹری مالکان قتل بھی ہوئے ۔برطانیہ میں فریم بریکنگ ایکٹ پاس ہوا ، کہ مشینوںکو نقصان پہنچانے پر سزائے موت دی جائےگی۔ ابھی میں نے امریکا و یورپ کی مثال دی ہیں ، اسلامی تاریخ سے کچھ بھی نہیں بیان کیا کیونکہ جدیدیت کے پروں پر سوار ٹیکنالوجی نے پوری دنیا میں انسانوں کا استحصال کیا تو ہر جگہ اِس کے خلاف سخت رد عمل بھی آیا، کہیں پرنٹنگ پریس پر پابندی لگی تو کہیں کچھ اور ہوا۔
دوسری اہم بات یہ نوٹ کریں کہ روایتی معاشرت میں سب اپنے اپنے اسپیس میں خوش خوش رہتے تھے ۔ برصغیر میں ہندوؤں کی اِس وقت بھی یہی ذاتیں تھیں مگر کوئی کسی سے نہیں لڑتا تھا،ایک ہی ہندوستان میں ہزاروں تہذیبیں اپنے اپنے اسپیس میں سکون سے رہتی تھیں۔استعمار نے جب سب کو samenessکی ڈومین میں لانا شروع کیا توباہم تہذیبی ٹکراؤسامنے آیا، کیونکہ لوگ اپنی تہذیبوں کے معاملے میں ہمیشہ حساس تھے۔مسلمان کی الگ،برہمن کی الگ ، شودر کی الگ مگر جدید ریاست نےجیسے ہی سب کو ایک کیا، مسائل شروع ہوگئے ۔ سوال پیدا ہو گیا کہ اب کون کس پر اثر رکھے گا، کون کس کے تابع رہے گا؟اوپر سے ریاست خود اپنی اتباع چاہتی۔اب جس کمیونٹی کا غلبہ ریاست پر ہوگا تو پھر ہر قسم کے انصاف کا انحصار سارا کا سارا اُس کمیونٹی کے مطابق ہوگا۔برصغیر میں گائے کے معاملے پر تشدد کا جتنا معاملہ شروع ہو ا، وہ سب انگریزی استعمار کے بعد شروع ہواکہ اس نے برصغیر میں بیف انڈسٹری بھی لگا لی تھی۔ یہ تصور Hobbesian کہلاتا ہے کہ “انسان ریاستی حاکمیت کے بغیر صرف جھگڑالو جانورکی مانندہے “۔ایک اور اہم مثال سے سمجھیں کہ پاکستان جب بنا تو بنگالیوں کا بنیادی بیانیہ یہ بنا تھا کہ مہاجر و پنجابی پاکستان کو کنٹرول کر رہے ہیں ۔ اتنی آبادی تھی پاکستان کی بلوچ، سندھی، پختون وہ کیوں نہیں نظر آئے ؟ صرف اس لیے کہ ریاستی بیوروکریسی پر اُن کو یہی دو عناصر غالب نظر آئے ، اس لیے اُن کے سینس آف لاسٹ نے مسائل پید اکیے ۔
قانونی بالادستی کی اہمیت ایسی ہوتی ہے کہ ریاست کسی کو اس سے باہر برداشت نہیں کرتی۔ذرا آپ اپنے بڑوں سے معلوم کرلیں کہ عدالتی نظام نے جب برصغیر میں جگہ بنائی تو اُس وقت سے ہی یہ ایک گالی اور ظلم کی صورت رہا ۔ 100سال سے مسلمانوںمیں یہ دعا رائج رہی ہے کہ،’ اللہ کسی کو کورٹ کچہری کا منہ نہ دکھائے۔‘ کیوںکہ یہ طے تھا کہ عدالت میں جانا ، مطلب ذلیل و رسوا ہونا ۔عدالتی نظام انصاف نہیں سزا اور بدلے کی علامت کے طور پر سرایت کر گیا تھا۔ اس لیے کہ اس نے مسلمان معاشرت کے روایتی ، فوری انصاف والے پنچائتی یا قاضی کے نظام کو ختم کراتھا۔اسامہ صدیق ، اپنی کتاب پاکستان کی قانونی تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ، ’استعمار کے دائرے سے نکلنے والے ملکوں میں جو جدید عدالتی نظام آیا وہ اصلاً ایک ظلم تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ مسئلہ حل کرنا ہے تو برادری یا پنچایت میں جاؤ، اگر کسی کو ذلیل کرنا ہے تو عدالت میں جاؤ۔ ہندوستان میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ اگر د و خاندانوں میں تنازعہ ہو جائے اور ایک خاندان بے بس ہوجاتا تو وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے کورٹ جاتا کہ دوسرے کو خوب کورٹ کے چکر لگوا کر ذلیل کرائے ۔‘ آج بھی غور کریں تو یہی تاثر برقرار ہے۔اس کے ساتھ ہی ایک خطے میں مختلف معاشرت میں رہنے والے افراد کے اپنے اسپیس بھی ختم ہوگئے جس نے ’پاپولر جسٹس ‘ کی جانب نفسیاتی شعور اجاگر کیا۔
یہ پاپولر جسٹس کا تصور صرف توہین مذہب کے تناظر میں نہیں بتا رہا، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وکیل جو اتھارٹی رکھتے ہیں کہ عدالتی نظام میں ڈاکٹروں کو سزا دلا سکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ بھی جتھا بنا کر ڈاکٹروں پر حملہ کر دیتے ہیں( دسمبر2019) ، یوحناآباد میں عیسائی کمیونٹی دو بے قصور مسلمانوں کو ہجوم کی صورت حملہ کر کے شہید کر دیتی ہے(مارچ2015)۔یہی نہیں بلکہ کراچی میں تو ڈاکو جلانے و اجتماعی تشدد کے کئی واقعات توآپ کو یاد ہوںگے ، ان کا تعلق توہین رسالت سے تو نہیں تھا۔پھر یہ بھی جان لیں کہ ماب لنچنگ کا مطلب ضروی نہیں کہ قتل ہی ہو، تشدد کرنا ہی کافی ہوتا ہے ۔ اس دوران وہ مر جائے تو الگ بات ہے ۔ذرا یاد کریں کہ بھارتی پائلٹ کو اگر مقامی پکڑ کر مار ڈالتے تو ان پر بھی جنونی ، پاگل ہونے کا لیبل لگایا جاتا؟میں نے پچھلے مضمون میں مسجد نبوی اور بدو کے پیشاب والی مثال میں یہ بات یاد دلائی تھی کہ خود نبی کریم نے بدو کوپکڑنے کے لیے جانے والے صحابہ کو ایک لفظ نہیں کہا ۔کیوں؟پھر کوئی اس بات کا جواب دے گا کہ اسلامی شریعت میں اصول کیا ہے ایسے جذباتی معاملے کا؟ میں سیرت نبی سے ہی ایک حدیث کا حوالہ دیتا ہوں جس میں گھر میں جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے پر قصاص نہ لینے کاحکم ملتا ہے ۔ تو کیا اس سے یہ اصول سامنے آئے گا کہ معاذ اللہ ، نبی نے صحابہ کو آنکھیں پھوڑنے کا لائسنس جاری کر دیا تھا؟دوم یہ کہ اسلامی شریعت میں ایک اور اصول سمجھ لیں جنہیں مسلط شدہ انگریز کا قانون کھاگیا۔معلوم کریں کہ کسی شخص نے اگر غیرت کے معاملے میں کسی کا خو ن کر دیا تو شریعت اگر اُس کو سزا دے گی تو وہ کس جرم کی دے گی؟ اسلامی شریعت میں جرم یہ نہیں ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا ، حکومت کے حوالے کیوں نہیں کیا؟بلکہ اس بات پر سزا ہوگی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا نہیں۔ واقعی معاملہ غیرت کا تھا تو اسکو گواہ لانے ہونگے اپنے دعوے کے وگرنہ وہ سزا وار ہوگا۔اس کا مطلب قطعاًیہ نہیں کہ سب خود ہی سزا دیں ، اگر کسی معاملے میں کوئی یا زیادہ انسان جذبات میں آکر ایسا کر گزریں تو اسکے بارے میں کیا فیصلہ کیا جانا چاہیے ؟
میں نے درج بالا وکلاء سے لیکر مسجد نبوی تک کی مثالیں دیں مگر نوٹ کرلیں کہ کہیں بھی جنونی، پاگل، قانون ہاتھ میں لینے کی بات نہیں کی گئی؟ ایسا متضاد رویہ کیوں ہے؟مگر افسوس وہاں ہوتا ہے کہ جب آنکھوں کے سامنے کوئی قرآن پاک نذر آتش کرے ، جسے گاوں کے کئی لوگ دیکھیں تو وہ رد عمل دے دیں تو سب کو “جنونی، پاگل ، وحشی جیسے القابات یاد آجاتے ہیں”۔ اگر کوئی نامعلوم شخص کسی جگہ ایسی حرکت کرے گا توممکن نہیں کہ لوگ پہلے اس کا میڈیکل چیک اپ کرانے جائیں کہ وہ مریض ہے یا نہیں۔ اسی تناظر میں کراچی کی ایک امام بارگاہ کا واقعہ بھی یاد لادوںکہ جس میں ایک نامعلوم شخص الف برہنہ ہو کر داخل ہو گیا اور وہاں کی املاک کو نقصان پہنچایا ،مگر وہاں لوگوں نے اس کی حالت دیکھ کر فوراً سمجھ لیا کہ معاملہ کیا ہے اور باوجود کچھ تشدد کے اس کو حوالہ پولیس وہسپتال کر دیا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کا ظاہر بتا رہا تھا کہ وہ درست ذہنی حالت میں نہیں مگر تلمبہ کے گاوں میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ اگر وہ مریض تھا تو کیوں اس کو باہر قرآن جلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا تھا؟ یہ ذمہ داری کس کی تھی؟
آپ دیکھیں کہ یہ واقعات بھی لوگوں کی جانب سے خفیہ پیغام ہوتا ہے حکمرانوں کے نام کہ انہیں اس معاملے میں صرف سزا نہیںعبرت ناک سزاچاہیے ۔اس لیے جمہور کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔جمہور اس معاملے میں ریلیف نہیں دینا چاہتا۔ آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ مغرب نے عبرتناک سزا صرف اپنے باغیوں کے لیے رکھی۔برطانوی راج میں ریاست کے خلاف جانے والے کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا جاتا ، سرعام پھانسی دی جاتی مگر عام قتل، ڈاکے کے مجرم کو سادہ جیل کی سزاملتی۔اس لیے اپنے اُصول پر قائم رہنا ، اصول سمجھنا ہی اہم بات ہے ۔سینس آف لاسٹ سے نجات صرف واپسی اپنے معاشرے و نظام میں ہی مضمر ہے۔

حصہ