جوعزت بڑی بھا بھی کی

441

’’آخر ایسا کیوں ہے، جو عزت بڑی بھابھی کی ہے وہ گھر میں کسی کی نہیں ہے، نہ امی کے کسی بیٹے کی، نہ کسی اور بہو کی؟‘‘
عریشہ نے جھنجھلا کر یہ سوال اپنے شوہر سے کیا، جب اس کی ساس نے کسی اہم معاملے پر بڑی بھابھی کی رائے کو اہمیت دی۔
عریشہ چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ کوئی بھائی نہ تھا اور حسنِ اتفاق کہ سسرال میں وہ چار بہوؤں میں سب سے چھوٹی تھی اور کوئی نند نہ تھی۔ جب سے وہ شادی ہوکر آئی، اس نے محسوس کیا کہ ساس اگرچہ مزاجاً تھوڑی سخت ہیں لیکن گھر میں جو محبت ان کی اور باقی گھر والوں کی طرف سے بڑی بھابھی کو ملی ہے، وہ اور کسی کو نہیں ملی۔
عریشہ خود نئے زمانے کی تھی۔ مزاج میں خوب صورتی اور اعلیٰ تعلیم کا غرور رچا بسا تھا۔ اور آج کل تعلیم جب خدا سے دور کرے تو انسان کو خوب صورت نہیں عیب دار بنا دیتی ہے۔ نرم مزاجی، بڑوں کا ادب، انکسار… یہ سب خوبیاں عریشہ میں نہیں تھیں، بہنوں میں بڑی ہونے کی وجہ سے باقی بہنیں بھی عریشہ کا پرتو ہوتی جا رہی تھیں۔
شوہر نے عریشہ کی بات غور سے سنی۔ یہ سوال عریشہ نے پہلی بار نہیں کیا تھا، سو اِس بار ایسا جواب دینے کا سوچا کہ عریشہ کی تسلی ہوجائے۔
’’تمہاری بات بالکل صحیح ہے، ایسا ہی ہے جیسا تم کہتی آئی ہو، مگر تم غور کرتیں اور ٹھنڈے دل سے سوچتیں تو وجہ تمہیں خود سمجھ میں آجاتی۔ بڑی بھابھی نے شروع سے جو ادب امی ابو کا کیا ہے، وہ کسی نے نہیں کیا۔ آٹھ سال ہوگئے بھابھی کی شادی کو، اور باقی دونوں بھائیوں کی شادی کو چار اور دو سال، مگر کسی نے آج تک بھابھی کو کوئی تلخ کلامی کرتے نہیں دیکھا۔ سختیاں انہوں نے بھی سہی ہیں مگر امی کہتی ہیں اگر سائرہ میرا ادب نہ کرتی تو میری کوئی اولاد بھی نہ کرتی، سب نے اس کو دیکھ کر میرا ادب سیکھا ہے، میرے بچوں نے بھی اور میری باقی بہوئوں نے بھی۔‘‘
عریشہ جھنجھلائی ہوئی تھی، غصے میں عقل کام کہاں کرتی ہے!
تین چار دن بعد وہ دو دن کے لیے میکے رہنے چلی گئی۔ دروازے پر مما نے مسکرا کر استقبال کیا۔ ’’مما میرا بیگ اٹھا لیں، پلیز مجھے تنگ نہ کیجیے گا، میں روم میں سو رہی ہوں۔‘‘
دو گھنٹے بعد اپنی سب سے چھوٹی بہن کے چیخنے سے عریشہ کی آنکھ کھلی جو مما پر چیخ رہی تھی، کیوں کہ کھانا اُس کی پسند کا نہ تھا۔
عریشہ کھانا کھانے گئی، مما نے اس کو کھانا نکال کر دیا ’’عریشہ گڑیا! لو تمہاری پسند کی کڑھائی بنائی ہے، رمشا کے لیے کچھ اور بناتی ہوں۔‘‘
اس نے مما کے ہاتھ دیکھے، کتنے محنتی ہاتھ تھے۔ اس کی دوسری بہن سے مما نے کچھ کہا تو وہ ایسے بن گئی گویا سنا ہی نہیں۔ عریشہ جانتی تھی کہ سب چھوٹی بہنیں اس کے طریقوں پر چل رہی ہیں، مگر سسرال میں امی سے اس نے کبھی ایسی بات نہیں کی، وہاں کا یہ طریقہ ہی نہیں تھا، اس نے کبھی جیٹھانیوں کو ایسا کرتے نہیں دیکھا۔
وہ پورا دن بہنوں اور مما کا رویہ دیکھتی رہی۔ وہ ہر بدتمیزی کا ذمے دار اور ممّا کی بے بسی کا قصوروار خود کو سمجھ رہی تھی۔ وہ رات کو اپنے بستر پر رونے لگی،رات کا آخری پہر ہوگیا۔
’’میں ابھی مما سے جاکر معافی مانگتی ہوں، سب میری وجہ سے ہے،کیا فائدہ میری تعلیم کا جب میں ماں باپ کا ہی ادب نہ کرسکوں!‘‘ وہ بستر سے اتری، لاؤنج میں مما تہجد کے بعد رو رو کر دُعا مانگ رہی تھیں:
’’یا اللہ! میری بیٹیوں کو خوش رکھ، نصیب اچھے فرما، تقدیر میں لکھے برے کو اچھے سے بدل دے، نیک ہدایت عطا فرما۔‘‘
’’مما! میں ساری زندگی آپ کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر میں خود کو اور اپنی بہنوں کو بدلنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ عریشہ نے پُرعزم انداز میں خودکلامی کی اور اپنے آنسو پونچھنے لگی۔

حصہ