کٹ کٹ اور ڈبو

262

کٹ کٹ مرغی تھی مرزا صاحب کی مگر بہت ناراض رہتی ان کے کتے ڈبو سے کہ کیا کرتا ہے ۔سارا دن پڑا سویا رہتا ہے بھونکتا ہے ہر آتے جاتے پر رات کو مٹر گشت کرتا ہے .مزے ہیں دودھ پیتا ہے اور گوشت کھاتا ہے۔ہمیں تو باجرہ رات کی روٹی سبزی کے چھلکے بھی کافی ہیں ۔ اور بدلے میں انڈے بھی میں دیتی ہوں ۔
مگر پھربھی سب اس سے سب محبت کرتے ہیں ۔
اسی دن رات کو ڈبو کے بھونکنے کی آواز آئی مرزا صاحب اور حمید صاحب کی دیوار سانجی تھی۔آپس میں بھائیوں جیسے تعلقات بھی رات کو چورلان میں دیوار پھلانگ کر آگیا ڈبو نے بھونکنا شروع کردیا اور چھلانگ لگا کر ٹانگ دبوچ لی اتنے میں حمید اور مرزاصاحب اور گلی کا گارڈ آگئے چور کو پکڑ لیا اور پولیس آکر لے گئی .مگر ڈبو تو ہیرو بن گئے سب کی آنکھوں کے تارے ۔
کٹ کٹ بیگم دل ہی دل میں کڑتیں …
پھر کچھ دن بعد کٹ کٹ بیگم کے انڈوں سے بچے نکلے سارادن لان میں لیے پھرتی اور ڈبو بھی بچوں سے کھیلتا۔کٹو بیگم ناراض ہو جاتی ۔
ایک دن کٹ کٹ دانہ چگ رہی تھی چوزے ان کی آنکھ سے اوجھل ہوگئے ۔
وہ دیکھنے کے لیے بھاگی تو ڈبو پہلے ہی پہنچ گیا ۔دیکھا چیل ان پر چھپٹی تو ڈبو بھاگے حملہ کرنے کے لیے چیل پر وہ اڑ گئی اور بچے بچ گئے کٹو کی جان میں جان آئی ۔
چیل کافی دنوں سے تاک لگائے بیٹھی تھی اپنا شکار بنانےاور اپنی دعوت کرنے کے لیے مگر ڈبو نے اس کی کوشش کو ناکام کردیا۔تب کٹو کو احساس ہوا۔کے ہر مخلوق کی اہمیت ہے ۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

حصہ