روزن زندان

287

سیاہ آسمان پر چمکتا چاند شاید اتنا دل فریب کہیں اور سے نہ لگتا ہوگا جتنا ایک بائی دو مستطیل روشن دان کی موٹی سلاخوں کی اُوٹ سے، جوکال کوٹھری کی اندھیری رات میں ہوا اور روشنی کا واحد ذریعہ بھی تھا۔ دن بھر کی مشقت سے تھکے ماندے سب ساتھی وہیں فرش پر بے سدھ پڑ جاتے تھے۔
پَرعبدالمنان کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور ہوتی، اور وہ کوٹھری میں پھوار کی صورت آتی روشنی کے منبع کو کھوجنے کی جستجو میں ہوتیں۔ پھر جب اس کی نگاہیں سیاہ آسمان کے چمکتے چاند کو پالیتیں تب دل میں بے نام سا احساس اتر جاتا ’’جسم کو لاکھ قید کی بندشوں میں جکڑ دیا جائے، روح آزاد رہتی ہے۔‘‘ ملنگ بابا کے جملے اب عبدالمنان کو بہت یاد آتے۔
ملنگ بابا کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ آزادی کی جدوجہد میں ان کا دایاں پیر اور بازو شہید ہوگئے، مگر انہوں نے معذوری کو مجبوری نہ بننے دیا۔ اب وہ بانسری پر آزادی کے نغمے الاپتے، بچوں کو آزادی کی کہانی سناتے… کشمیر کی آزادی کی کہانی۔ وہ بتاتے تھے کہ یہ صرف وادی میں رہنے والوں کی داستان نہیں، دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانوں کی غیرت کی کہانی ہے۔
عبدالمنان نے بھی بہت سی داستانیں سن رکھی تھیں اور اب وہ بھی ایک کہانی بن چکا تھا۔
ایک کہانی وہ روز چاند سے بھی سنتا۔ چمکتے چاند میں کبھی ماں کی شبیہ نظر آتی، کبھی اپنے دوست راجو کی… اور تو اور، ابا کی شبیہ بناکر بھی اس کا دوست اسے چاند دکھاتا۔ وہ ابا جو اپنے دو سالہ عبدالمنان کو پیچھے چھوڑ کر آزادی کی جدوجہد میں وادی کے نوجوانوں کے ساتھ ایک انجان سفر پر نکل چکے تھے۔ وہ بھی زندہ داستان تھے۔
سیاہ آسمان کے چمکتے چاند اور عبدالمنان میں ایک چیز اور قدر مشترک تھی جس نے ان کی دوستی کو پھیکا نہ پڑنے دیا، اور وہ تھی ان کی تنہائی۔ چودہ سالہ ماں کے لاڈلے منوا کی تنہائی سے اجنبیت نہ رہی تھی، منوا تو تبھی بڑا ہوگیا تھا جب اُس نے دس سال کی عمر میں پہلا پتھر درختوں کی اُوٹ سے دشمن فوج کے اہلکار پر مارا تھا… اور پھر ایک دن عبدالمنان نے اپنی بستی میں دندناتے ٹینکروں کو آنے سے روکنے کے لیے پتھراؤ کرنے والے ہراول دستے کی کمانڈ کی تھی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک شام کرکٹ کھیل رہا تھا جب ٹینکروں کی گڑگڑاہٹ نے انہیں اس پیش بندی پر آمادہ کیا کہ ان ظالموں کو بستی میں داخل ہونے سے ہر حال میں روکنا ہے۔
ہر سمت سے آتے پتھروں نے اس شام کچھ وقت کے لیے ٹینکروں کو واقعی پیش قدمی سے روک دیا، مگر ان نوعمر بچوں کو بہت بے دردی سے نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا۔
رات کی اس سفاک خاموشی میں ایک آواز بھی منوا کی تنہائی کو بانٹ لیا کرتی تھی۔ کال کوٹھری کے کہیں نزدیک ہی چوکیدار اور اس کے ساتھی پابندی سے ریڈیو پر بی بی سی سے خبریں سنتے، تب عبدالمنان کا رواں رواں ساکت ہوکر اس آواز کے ذریعے بیرونی دنیا سے منسلک ہوجاتا۔ اگرچہ خبروں میں اس کی وادی کا ذکر نہ ہوتا مگر کراچی کی خبروں کا اسے انتظار رہتا۔ کراچی سے اس کا پہلا تعارف کسی اَنجان راستے سے آئے اُن پارسلوں کے ذریعے ہوا تھا جن پر ’تمہارا دوست‘ کے پتے پر شہر کراچی لکھا ہوتا۔ ضرورت کی چیزوں کے ایسے بہت سے پارسل آتے اور وادی میں رہنے والے لوگوں سے کراچی کی دوستی مضبوط کرادیتے۔
آج تو وہ بہت بے چینی سے خبروں کا منتظر تھا جب سے اس نے سنا تھا کہ کراچی کے رہنے والے بھی اپنے اختیارات حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اختیارات، جدوجہد، دھرنے، جلوس، نعرے… یہ سب الفاظ عبدالمنان کو سہما دیتے۔ کیا میرے کراچی کے دوستوں کو بھی غلام بنایا جارہا ہے؟
آج بی بی سی سے خبروں کے تبصرے میں بتایا جارہا تھا کہ جہاں ایک طرف کراچی میں لاکھو ں کا مجمع اپنے حق کے لیے دھرنے میں شریک تھا، تو دوسری طرف ہزاروں لوگ اپنے مستقبل سے بے خبر سالانہ فلاور شو دیکھنے گئے۔
وہ دوست جو اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی امید تھے، اگر اپنے حقوق کے لیے یکجا نہ ہوئے تو پھر دوسری مظلوم قوموں کے لیے ان کی آواز بے جان ہوجائے گی۔
’’جسم آزاد ہو اور روح غلام بنا لی جائے تو جسم محض کٹھ پتلی تماشا بن جاتے ہیں۔‘‘
ملنگ بابا کی بات یاد آتے ہی ایک سرد لہر منوا کو کپکپا گئی۔

حصہ