ہمارا زمانہ سادہ اور تہذیب و ادب والا تھا

373

والدین کے علاوہ خاندان اور بزرگ ہمسائے بھی بچوں پر نظر رکھتے تھے،معروف افسانہ نگار اور حریم ادب کی بانی رکن عقیلہ اظہر سے گفتگو
محترمہ عقیلہ اظہر مصنفہ ہیں، حریمِ ادب کی بانی اراکین میں سے ہیں۔ وہ پاکستان بننے سے چند سال پہلے ہی پیدا ہوئی تھیں، لہٰذا پاکستان کے ساتھ ساتھ بڑی ہوئیں۔ ان کے افسانے کلاسک ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی شستہ ادبی لب و لہجے کی مالک ہیں۔ ایک کتاب ’’حوصلوں کی سحر‘‘ شائع ہو چکی ہے، ایک اور کتاب طباعت کے مرحلے میں ہے۔ وہ زبان و بیان اور ادب و تہذیب کی ایک ایسی نمائندہ شخصیت ہیں جو آج کے دور میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ ہم نے اپنے قارئین کے لیے اُن سے ملاقات کی۔ اُن سے ہونے والی گفتگو ہم یہاں اپنے قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔

جسارت میگزین: اپنے بارے میں بتایئے، خاص طور سے خاندان کی ہجرت کے بارے میں۔
عقیلہ اظہر: میرا سنِ پیدائش 1945ء ہے، یعنی پاکستان بننے سے دو ڈھائی سال پہلے۔ ہمارا تعلق ہندوستان کے صوبے یوپی ضلع لکھنؤ کے علاقے سیتاپور سے تھا۔ والد صاحب چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا تھا۔ جب وہ پڑھنے جارہے تھے تو آدھا شہر جمع ہوگیا تھا کہ آپ لوگ تو اتنے بڑے زمیندار ہیں، آپ کو پڑھنے کی کیا ضرورت؟ مگر والد صاحب کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے کہا میں یہ سب بھی کرلوں گا مگر پڑھائی کے بعد۔ ہمارے والد صاحب نے اپنی اولادوں کو پڑھایا۔ ہماری سب سے بڑی بہن کو بھی مخالفت کے باوجود پڑھایا۔ وہ تانگے میں اسکول جاتی تھیں۔ تانگے کو پیچھے سے پردہ لگا دیا جاتا تھا۔
ہم پاکستان 1950ء میں آئے۔ میں اُس وقت پانچ سال کی تھی۔ میری بہنیں بڑی تھیں یہی کوئی دو، تین سال کے فرق سے۔ تین بڑے بھائی تھے۔ پھر سب سے بڑی بہن بھی تھیں۔ جب پاکستان آنے کا سلسلہ ہوا تو والد صاحب نے ہماری والدہ کو بچوں کے ہمراہ بحری جہاز سے کراچی بھیج دیا اور خود کچھ عرصے بعد آئے۔ چونکہ ان کی وکالت کی پریکٹس وہاں بہت اچھی چل رہی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میں تمام جائداد کے قانونی طور پر کاغذات وغیرہ مکمل کرلوں گا پھر آئوں گا۔ والد صاحب کے دوست تھے میجر قریشی، تو قریشی انکل نے اپنے لیے پیر کالونی میں گھر خریدا تھا۔ تو والد صاحب نے کہا کہ ہمارے لیے بھی وہیں پر گھر خرید لو۔ تب ہمارا 120 گز کا گھر انہوں نے خرید کر رکھا ہوا تھا۔ اُس زمانے میں سامان لانے پر کوئی پابندی نہیں تھی، اس لیے والدہ بہت سارا سامان لے کر آئی تھیں۔ اُس وقت میرے بڑے بھائی غالباً انٹر میں تھے۔
120 گز کا گھر تھا، اس میں دو کمرے، ایک برآمدہ تھا۔ ہمارے پڑوس میں خرم مراد صاحب رہتے تھے، ان کا گھر دو پلاٹ پر بنا ہوا تھا جو ہم سے بڑا تھا۔ اس کالونی میں تمام افراد ہجرت کرکے آئے ہوئے تھے، اور جہاں سے تھے ہم اسی نام سے ان کو جانتے تھے، اور اسی نام سے امی ان کو کچھ بھجوانا ہوتا تو کہتیں: یہ میرٹھ والی خالہ کو دے آئو، شاہ جہاں پور والی خالہ سے یہ کہہ آئو، اور علی گڑھ والی خالہ کو بلا لائو۔ وہ بھی ہمیں اسی طرح یاد رکھتی تھیں۔ بدایوں والی خالہ سے امی کی بہت دوستی تھی۔ سب لوگ ایک دوسرے کے گھر آزادانہ آتے جاتے تھے۔ دروازے کھلے رہتے، خواتین پچھلے دروازے سے آتیں اور مرد سامنے والے دروازے سے۔ خواتین پیچھے والے صحن میں پڑے ہوئے تخت پر بیٹھ جاتیں۔ جو کچھ بھی کھایا جارہا ہوتا سب آدھا آدھا ہوجاتا، کوئی تکلف نہیں تھا۔
اُس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ پیرالٰہی بخش تھے۔ انہوں نے یہ کالونی بنائی تھی۔ شروع شروع میں پیر کالونی میں سب لوگ ہجرت کی باتیں کرتے تھے کہ ہم تو بھرا گھر چھوڑ آئے ہیں، یہ چھوڑا، وہ چھوڑا وغیرہ…
میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی، چھ سات سال کی تھی تب اسکول میں پہلی کلاس میں داخلہ ملا، اور میری بہنوں کو اُن کی صلاحیت کے مطابق۔ ہمارا اسکول بہت اچھا تھا۔ اُس وقت گاڑی نہیں تھی، سب مل کر پیدل ہی اسکول جاتے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جایا کرتا تھا۔ ہر گلی سے لڑکیوں کے غول نکل رہے ہوتے۔ اُس وقت تعلیم کی بہت اہمیت تھی۔ والد تو تین سال بعد آئے تھے، مگر والدہ نے بہت ذمے داری کے ساتھ ہم سب کو پڑھایا تھا۔
ہمارے گھر کا ماحول بہت سادہ سا تھا۔ ادب، تہذیب بہت زیادہ تھی۔ ہر وقت یہ احساس رہتا کہ کہیں ہم سے کوئی بے ادبی نہ ہوجائے۔ ملازموں سے بھی آپ سے بات کرتے، تم نہیں کہتے۔ باجی، آپا، خالہ کہا جاتا۔ کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو ڈانٹ پڑتی تھی۔ گھروں میں کوئی خاص آرائش نہیں ہوتی تھی، بس صاف ستھرا رکھا جاتا۔ ہر فرد صفائی کا بہت خیال رکھتا۔ ہمارے والد دفتر جانے سے پہلے اپنا بستر خود تہہ کرتے‘ کپڑے خود ٹانگتے اور ہماری امی کمرہ اتنا صاف رکھتیں کہ جیسے وہاں کوئی سویا ہی نہیں تھا۔ سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کیے جاتے۔ ہماری 6 پھوپھیاں تھیں جو اکثر آکر رہتیں۔ کبھی کوئی پھوپھو، تو کبھی دوسری۔ بہت محبت ہوتی تھی آپس میں، خاص اہتمام ہوتا تھا اُن کے لیے۔
جسارت میگزین : آپ حریم ادب کی بانی اراکین میں سے ہیں، اس کی تشکیل اور ابتدائی ادوار کے بارے میں بتائیے۔
عقیلہ اظہر : یہ 1983ء کی بات ہے، میرے میکے میں نوعمری سے ہی فطری حیا اور پردے کا شعور بچیوں کو دے دیا جاتا تھا، گو کہ اس کی گہرائی کو نہیں سمجھا جاتا تھا۔ الحمدللہ جب شادی ہوئی تو مجھے باپردہ ماحول ہی ملا۔ پھر جب ہم ایک نئے علاقے میں اپنے نوتعمیر شدہ مکان میں منتقل ہوئے تو میری خوش نصیبی کہ دیوار سے ملا پڑوس آپا اُمِ زبیر کا تھا۔ وہ ہمسائیگی کا تعلق نباہتے ہوئے چائے بنا کے لے آئیں۔ میرے باپردہ ہونے پر بہت مسرت کا اظہار کیا۔
اس زمانے میں ہمارے گھر ’’اخبار جہاں‘‘ باقاعدگی سے آتا تھا۔ عمومی سے موضوعات پر کہانیاں اور افسانے پڑھتے پڑھتے ایک دن میں نے کہانی لکھ بھیجی اور وہ شائع بھی ہوگئی، تو میں نے وہاں کہانیاں بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اخبار جہاں میرے قلمی سفر کی پہلی سیڑھی تھی۔ ایک دن آپا اُمِ زبیر نے مجھے اپنی تحریر کردہ کچھ دینی اور اصلاحی کتب مطالعے کے لیے دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی کچھ تھوڑا لکھ لیتی ہوں، اور اُن کے طلب کرنے پر اپنے افسانے اور کہانیاں دکھائیں جن میں نہ حد سے تجاوز تھا، نہ بے باکی، بلکہ کچھ پیغام بھی تھا۔ انہیں بہت خوشی ہوئی۔ وہ مجھے سنجیدہ دینی کتب پڑھنے کے لیے دیتیں۔ پَر چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا، اتنی خشک کتب مجھ سے پڑھی نہ جاتی تھیں۔ میں اُن سے کتاب لے کر رکھ لیتی اور اگلی ملاقات پر وہ کتاب واپس لے کر دوسری دے جاتیں۔ میں نے اُن سے ذکر کیا کہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتیں۔ کہنے لگیں کہ کوئی بات نہیں، آہستہ آہستہ دل لگ جائے گا۔ پھر مجھے ترجمۂ قرآن اور تفسیر کی طرف بھی راغب کیا، ساتھ تحریر لکھنے اور اُن سے رہنمائی لینے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ وہ کراچی کی کئی قلمکار بچیوں اور خواتین سے واقف تھیں۔ ایک دن انہوں نے پروگرام بنایا کہ لکھاری بہنوں کی ایک محفل منعقد کریں۔ پھر ہم نے رابطے شروع کیے۔
اُس وقت پنڈی اور لاہور میں ’’حریم‘‘ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ جب میرے گھر محفل ہونے لگی تو پنڈی سے سلمیٰ یاسمین نجمی نے خط کے ذریعے رابطہ کیا، اور کراچی آکر لکھاری بہنوں سے ملاقات کا عندیہ دیا۔ حسبِ پروگرام اُن کی آمد ہوئی۔ سلمیٰ یاسمین نجمی نے اسی نشست میں کراچی میں حریم ادب قائم کی۔ آپا اُمِ زبیر کو نگراں بنایا اور طے پایا کہ سہ ماہی بنیاد پر نشست رکھی جائے گی۔ میرے بچے چھوٹے تھے تو میرا ہی گھر مقام ٹھیرا۔ پھر نشستوں کا سلسلہ سہ ماہی بنیاد پر شروع ہوگیا۔ ابتدا ہی میں کچھ اصول طے کرلیے گئے، جن میں اہم یہ تھا کہ یہ معاشرے میں موجود ادب تخلیق کرنے والوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہوگا جہاں صالح ادب کی ترویج کی جائے گی اور مثبت پیغامات کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا کام کیا جائے گا۔ بعد میں اور بھی بہت سے لوگ شامل ہوتے گئے۔ بیگم ابوالخیر کشفی سے ملاقات ہوئی۔ وقت کے ساتھ ہمیں احساس ہوا کہ آنے والے لکھ تو رہے ہیں مگر کچھ مطالعہ نہیں کررہے۔ مطالعے میں وسعت ہونے سے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
ہم نے لائبریری قائم کرنے کا سوچا، کتابوں کی فہرست بنائی جس میں ادبی رسائل اور کلاسک ادب پر مشتمل کتب تھیں، اور انہیں خرید لیا۔ لائبریری کا انچارج مقرر ہوا۔ جو کتاب لی جاتی، پڑھنے والا اسے وقت پر واپس کرتا۔ یوں بڑا اچھا سلسلہ چل نکلا۔ لکھنے والوں کو رہنمائی ملی، موضوعات میں وسعت آئی اور تحریر کا معیار بھی بڑھا۔
جسارت میگزین: کورونا اور اس کے بعد لوگ ڈپریشن کا شکار ہوئے، آپ اس دورِ تنہائی سے کیسے گزریں؟
عقیلہ اظہر: جی ہاں یہ وقت خاصا مشکل تھا، میں نے اس دوران مختلف مشاغل اختیار کیے۔ قرآن کے ساتھ رشتہ اور مضبوط کیا۔ مشاغل میں مَیں نے پینٹنگ کی، ہینڈی کرافٹ بنائے اور لوگوں کو بعد میں تحفے میں دیے۔ یوں ایک مثبت معاملہ رہا۔
جسارت میگزین: اُس زمانے اور آج کے زمانے میں بچوں کی تربیت میں کیا فرق ہے؟
عقیلہ اظہر: اُس زمانے میں کردار سازی پر بہت دھیان دیا جاتا۔ اولاد کی تربیت اور کردار کی بہتری کے لیے کوشش کی جاتی۔ والدین کے علاوہ خاندان کے بزرگ نظر رکھتے تھے، کوئی برا نہیں مانتا تھا۔ اصل میں خود والدین کا کردار بچوں کی تربیت میں اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا بچوںکی بہتر تربیت کے لیے خود نمونہ بن کر بچوں کی تربیت کرنی ہوگی۔ ماں خود پردہ کرے، مناسب لباس پہن کر باہر نکلے اور بچوں کو بھی ویسا ہی پہنائے۔ اب یہ بچیاں بال کھلے رکھ کر، نامناسب لباس میں ڈرائیور کے ساتھ جائیں گی تو وہ تو مرد ہیں، وہ کیا کریں! مائیں ایسا لباس خرید کر دیتی ہی کیوں ہیں جو مناسب نہ ہو؟ لڑکوں کے لیے والد کو نمونہ بننا ہوگا، خود مسجد جائیں، وقت پر نماز ادا کریں اور بچوں کو بھی ایسی ہی عادت ڈالیں۔ اس کے علاوہ گھروں میں ہونے والی تقریبات بھی نمونہ ہوتی ہیں۔ اگر والدین غیر اسلامی رسومات کریں یا اس پر خاموش رہیں تو اولاد بھی یہی سیکھتی ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی کام دین کے خلاف نہ ہو۔ خواتین اکثر کہتی ہیں کہ ہمیں تو دین کی سمجھ اتنی دیر میں آئی، اب تو بچے بڑے ہوگئے، اب ان کو کیسے سمجھائیں! تو ان کے لیے مشورہ ہے کہ بچوں کو سمجھاتی رہیں کہ ہم نے دیر میں سمجھا، لیکن تم اگر ابھی سے اس پر عمل کرو گے تو کامیاب رہو گے، تمہیں نیک عمل کے لیے زیادہ وقت مل جائے گا۔ نرمی کے ساتھ بات سمجھائیں تو جلد سمجھ جاتے ہیں، بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔
جسارت میگزین: آج کل شادیاں ہوتی ہیں اور بہت جلد ٹوٹ جاتی ہیں، کچھ ہی مہینے بعد طلاق یا خلع کی خبر آجاتی ہے، اس کا کیا حل ہوسکتا ہے؟
عقیلہ اظہر: اس کی سب سے بڑی وجہ بے صبری ہے۔ لڑکیاں بھی کہتی ہیں کہ ہم یہ سب برداشت کیوں کریں! ذہن نہیں مل رہے اس لیے جلدی علیحدہ ہوجائو تو بہتر ہے۔ بچے پرکھتے ہیںکہ کیا ہماری یہ شادی آگے چل سکتی ہے؟ اگر یہ سب سوچ کر آئو گی تو نباہ کیسے ہوگا؟ بھئی کچھ تحمل سے سوچو، سمجھو، برداشت کرو۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ اب تم جا رہی ہو تو تمہارا جنازہ ہی آئے وہاں سے۔ مگر یہ بھی انتہا تھی۔ لیکن اس میں ایک پیغام تھا کہ تمہیں ہر حال میں یہ رشتہ نبھانا ہے۔ والدین نے بھی سختیاں جھیلی ہوتی ہیں مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتے، مگر آج کی نسل کہتی ہے وہ زمانہ اور تھا۔دوسری وجہ دین سے دوری بھی ہے۔ طلاق کو معمولی جاننا، بہت بری چیز نہ سمجھنا… یہ بھی ہے۔ میرا والدین کو بھی مشورہ ہے کہ پہلے اچھی طرح چھان بین کر لیں، جلد بازی سے کام نہ لیں۔ کئی مرتبہ رشتہ نہیں مل رہاہوتا، دیر ہو جاتی ہے تو والدین پریشان ہو کر جلد بازی میں نامناسب جوڑ کے رشتے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ رشتہ منظور کرنے میں چھان بین ضرور کرلیں، اور جب رشتہ ہو جائے تو لڑکا، لڑکی کے ساتھ ان کے والدین بھی اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں، سمجھ داری سے کام لیں۔ معمولی اختلافات کو بلا وجہ ہوا دے کر بات کا بتنگڑ نہ بنائیں۔ باہم گفتگو سے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کریں تاکہ طلاق یا خلع کا داغ بچوں کی زندگی پر نہ لگے۔
جسارت میگزین: کوئی ایس بات جس سے دکھ یا پچھتاوا ہوتا ہو؟
عقیلہ اظہر: الحمدللہ زندگی بہت اچھی گزری، لیکن اب اِس عمر میں آکر لگتا ہے کہ زندگی رائیگاں چلی گئی۔ بہت کچھ کر سکتی تھی، بہت سے کام نامکمل رہ گئے۔ اب میں لکھتے لکھتے بھول جاتی ہوں۔ جب لکھ سکتی تھی تب کم لکھا۔ وہ وقت ضائع ہو گیا۔ اب میں اپنی بہنوں سے یہ ضرور کہوں گی کہ ابھی ان کے پاس وقت ہے، صلاحیت ہے، وہ اِس وقت جو کرسکتی ہیں کر ڈالیں۔ اب اس عمر میں تو بھولنے کا مرض ہوجاتا ہے، آنکھیں اور دماغ ساتھ نہیں دیتے، اس لیے مہلت سے فائدہ ضرور اٹھائیں۔

حصہ