آدھے سر کا درد

518

اس کے بہت سے نام ہیں۔ عربی میں شقیقہ کہا جاتا ہے چونکہ اس مرض میں سر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ نصف سرد تندرست رہتا ہے اور نصف میں شدید درد ہوتا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام شقیقہ (سر کو دو شقوں میں یا دو حصوں میں تقسیم کرنے والا) رکھا گیا ہے۔ عام بول چال میں آدھا سیسی کا درد کہلاتا ہے۔ لاطینی زبان میں اسے ہیمی کرینیا (ہیمی کے معنی نصف اور کرنین کے معنی کھوپڑی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انگریزی زبان میں مگرین کے نام سے مشہور ہے۔
دردِ سر کی تمام قسموں میں یہ انتہائی شدید درد ہے جو کہ آدھے سر میں اٹھتا ہے اور بھی کبھی پورے سر کو گھیر لیتا ہے۔ عموماً یہ دورے کی شکل میں شروع ہوتا ہے اور دورہ رفع ہونے کے بعد مریض خود کو پوری طرح صحت مند محسوس کرتا ہے۔ بعض لوگوں میں یہ طلوع آفتاب سے قبل شروع ہوتا ہے اور دن بڑھنے کے ساتھ بتدریج بڑھتا جاتا ہے اور جوں جوں سورج ڈھلنے کے قریب ہوتا ہے‘ درد کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو درد کے ساتھ ساتھ متلی بھی ہوتی ہے اور کبھی قے بھی ہو جاتی ہے‘ قے ہو جانے کے بعد درد موقوف ہوجاتا ہے یا کمی ہو جاتی ہے اس کے علاوہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجانا‘ نظر کا درست نہ رہنا بھی اس کی مخصوص علامات ہیں۔
چونکہ یہ نہایت شدید درد ہے اور اس کی علامات بھی بڑی واضح ہیں اس لیے اس کی تشخیص میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی اور مریض خود بھی اپنے مرض اور اس کے شروع ہونے کے انداز سے بہ خوبی ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ میں اس مرض کے شکار مریضوں کی اعداد و شمار اکٹھا کیے گئے تو وہاں ہر دسواں آدمی دردِ شقیقہ میں مبتلا ہے۔ اس طرح سے تقریباً پچاس لاکھ متاثر ہیں اور ان میں سے نصف کام کرنے والا طبقہ ہے۔ اب اگر موٹا موٹا حساب لگایا جائے کہ ہر مریض نے سال میں ایک دن اس تکلیف کی وجہ سے کام نہیں کیا تو کام کے پچیس لاکھ دن اس مرض کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔
یہ بات پورے وثوق سے تو نہیں کہی جاسکتی مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ دماغی کام کرنے والے لوگ زیادہ تر اس تکلیف کا ہدف بنتے ہیں۔ گویا:
جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے
خواتین جن میدانوں میں مرد حضرات سے آگے ہیں ان میں سے ایک میدان دردِ شقیقہ کا بھی ہے کیوں کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اگر چار افراد اس مرض میں مبتلا ہوں گے تو ان میں ایک مرد اور تین عورتیں ہوں گی۔ اس کا بڑا سبب دورانِ ایام خصوصی ہارمونس کی پیدائش ہے اسی لیے اس درد کے دورے عموماً عورتوں میں زیادہ ہوتے ہیں جنہیں ایام ٹھیک نہ آتے ہوں یا ان کی کثرت ہو‘ بچوں کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی درد کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ بعض عورتیں شادی کے بعد یا دورانِ حمل دردِ شقیقہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں یا اس میں کمی ہو جاتی ہے۔
نوجوانوں میں لڑکے‘ لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوا کرتے ہیں‘ مگر بلوغت کے بعد لڑکیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو کہ بیس سال کی عمر کے بعد خاصی نمایاں ہو جاتی ہے۔
اگر عمر کے لحاظ سے اس مرض کا جائزہ لیا جائے تو یہ دو سال کی عمر کے بچوں میں بھی پایا گیا اور اس کی انتہائی عمر پچاس سال ہے۔ پچاس کی عمر کے بعد عموماً یہ دیکھنے میں نہیں آیا اور اگر اس طرح کی علامات ملتی بھی ہیں تو وہ کسی اور مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں چونکہ پینتالیس سال کی عمر کے بعد ہارمونس کی پیدائش میں تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں اسی لیے شاید یہ مرض بھی معدوم ہو جاتا ہے۔
اس کی پیدائش کے جو عام اسباب ہیں‘ وہ خون کی کمی‘ عام جسمانی کمزوری‘ فاقہ کشی‘ بدہضمی‘ دائمی قبض‘ دماغی حساسیت یا تکان‘ تیز چمکدار اور آنکھوں کو چکاچوند کر دینے والی روشنی ہے۔ بعض امراض کے نتیجے میں دردِ شقیقہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امراضِ گردہ‘ نظر کی کمزوری‘ نزلہ و زکام کا غلط علاج جس سے کہ بلغم خشک ہو کر رک جائے وغیرہ۔ بہت سے کنبے ایسے بھی ہیں جن میں ایک یا ایک سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں یا ان کے والدین یا خاندان کے بزرگ بھی اس اذیت میں مبتلا رہے اور ان سے ان کے بچوں میں بیماری منتقل ہوئی۔دورۂ درد کی شروعات مختلف طریقے پر ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا‘ غذا میں بے احتیاطی‘ دیر تک بھوکے رہنا‘ جاگنا یا زیادہ مشقت یا ذہنی دبائو کے نتیجے میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک ہی مریض میں ایک یا ایک سے زیادہ اسباب مل سکتے ہیں۔
اگر کسی ڈائری میں اپنی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات درج کر لی جائیں تو بار بار دورے پڑنے پر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں رہ جاتا کہ کون سی چیز دورہ پڑتے وقت ہر بار مشترک رہی ہے اور مرض کا سبب بن رہی ہے مثال کے طور پر آپ کو پتا چل سکے گا جس صبح درد شروع ہوا وہ رات آپ نے باہر گزاری‘ دیر سے سوئے‘ بہت زیادہ شور و غل میں رہے۔ غذا بہت بھاری یا ناپسندیدہ کھائی یا ایسے ماحول میں رہے جہاں فضا میں دھواں یا گھٹن تھی یا اگر آپ خاتون ہیں تو اسی صبح ایام تو شروع نہیں ہوئے۔ بعض لوگوں میں ایک سے زیادہ باتیں مل کر درد کا باعث بن جاتی ہیں اور یہ اندازہ لگانا دشوار ہو جاتا ہے کہ اس میں سے کس چیز سے اجتناب برتا جائے مگر زیادہ تر جسمانی تکان یا جذباتی دبائو سے اس کی شروع ہوتی ہے۔ دورہ شروع ہونے سے قبل جو علامات عام طور پر ظاہر ہوتی ہیں وہ کمزوری‘ سستی‘ سر کا بھاری پن‘ آنکھوں کے سامنے چنگاریاں سی اڑتی نظر آنا وغیرہ ہیں۔ یہ اس کی ابتدائی علامات ہیں۔ اس کے بعد کنپٹی اور ماتھے کی رگیں تڑپتی ہیں۔ سر پھٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حرکت کرنے یا چھینکنے یا کھانسنے سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں‘ سر چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے‘ آواز اور روشنی سے نفرعت ہو جاتی ہے‘ نبض کمزور ہوتی ہے‘ متلی کا احساس رہتا ہے اور کبھی قے بھی ہو جاتی ہے درد دور ہونے پر مریض کو نیند آجاتی ہے اور سو کر اٹھنے پر وہ خود کو ٹھیک ٹھاک محسوس کرتا ہے۔ یہ درد دو تین گھنٹے سے لے کر چوبیس گھنٹے اور بعض صورتوں میں دو‘ تین روز تک رہتا ہے۔
شقیقہ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبح گھر سے نکلتے وقت اطمینان کے ساتھ اچھا ناشتہ کریں صرف چائے یا کافی پر اکتفا کرنا دانش مندی نہیں ہے اگر مجبوری کی وجہ سے صبح ناشتہ نہ کیا جاسکتا ہو تو دودھ‘ پھلوں کا رس یا کوئی اور مناسب چیز لے لی جائے اور دوپہر کا کھانا جلد تناول کیا جائے۔
اسکول جانے والے بچے بھی اکثر جلدی میں ناشتہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف درد شقیقہ میںمبتلا ہوسکتے ہیں بلکہ وہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنا جیب خرچ بھی چاکلیٹ اور ٹافیوں کی نذر کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مزید صحت خراب ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
غذا سے کس طرح درد شروع ہوجاتا ہے اس سے ابھی تک پوری واقفیت نہیں ہے بعض صورتوں میںکسی خاص چیز کا پتا چل جاتا ہے جس کے کھانے کے بعد درد کا حملہ شروع ہو گیا۔ یہ مخصوص غذا سے الرجی کے نتیجے میں بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے اچھا یہ ہے کہ جن غذائوں پر شبہ ہو ان کے نام الگ درج کر لیے جائیں اور ان میں سے ایک ایک غذا کو ایک مدت کے لیے ترک کیا جائے‘ جتنے دنوں میں درد کا دورہ پڑتا ہے اگر اس مدت میں درد کا دورہ نہیں پڑا تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو مشکل کا حل مل گیا ہے اور اس غذا کو مکمل طور پر ترک کر دیجیے اور اگر اس کے چھوڑنے سے کوئی فرق نہ پڑے تو پھر باری باری دوسری غذائوں کو آزمایے۔
گرمی و سردی کی شدت بھی درد کے شروع کا سبب بن جاتی ہے۔ بہت ٹھنڈا پانی پینے‘ نہانے یا تیرنے ے بعد مرض کا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تیز دھوپ میں چلنا پھرنا یا سورج کی چمک کو براہِ راست دیکھنے یا اس کے عکس کو پانی‘ برف یا شیشے پر دیکھنے سے بھی یہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
بہت گرم و خشک موسم‘ آندھیاں‘ شدید برف باری‘ گردوغبار‘ ان سب کا تعلق درد کے حملے سے ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ موسمی تبدیلیاں براہِ راست مرض کا سبب بن جا رہی ہوں بلکہ ان سے پیدا ہونے والا ذہنی دبائو درد کا موجب بن جاتا ہے۔جدید طریقۂ علاج میں اس مرض کا یقینی تدارک ابھی تک نامعلوم ہے۔ دوا کے طور پر بہ کثرت اسپرین اور پیرا سیٹامول استعمال کرائی جاتی ہیں۔ صرف دردِ شقیقہ میں ہی نہیں بلکہ بیشتر جسمانی دردوں میں یہ عام دوائیں ہیں بعض ملکوں میں تو‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ یہ دوائیں بغیر معالج کے نسخے کے خریدی جاسکتی ہیں۔
ان دوائوں میں قباحت یہ ہے کہ ایک تو یہ وقتی طور پر دردوں کو تسکین دیتی ہیں۔ دوسرے اسپرین کے دوسرے مضر اثرات بھی ہیں خصوصاً ان لوگوں میں جن کا ہاضمہ خراب رہتا ہو‘ آنتوں سے خون خارج ہوتا ہو۔ اسی سے ان لوگوں کو بھی اسپرین استعمال نہیں کرنی چاہیے جو کہ خون کے انجماد کو روکنے والی دوائیں استعمال کر رہے ہوں۔
طب یونانی میں جو ادویہ اس مرض کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ نہ صرف بے ضرر ہیں بلکہ اگر انہیں پابندی و یکسوئی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یقینی نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔
سرد کے درد میں جو دوا سب سے بہتر ہے وہ اسطوخودوس ہے۔ یہ بُوٹی مختلف شکلوں میں استعمال کرائی جاتی ہے۔ سفوف‘ معجون‘ گولی اور اطریفل وغیرہ کی صورت میں دردِ شقیقہ کے لیے ان کے ساتھ دو چیزوں کا اور اضافہ کر لیا جاتا ہے وہ ہیں خشک دھنیا اور سیاہ مرچ‘ اس دوا کو اس طرح تیار کیا جائے گا کہ اسطوخودوس 50 گرام‘ خشک دھنیا 40 گرام اور سیاہ مرچ 40 عدد لے کر ان کا باریک پائوڈر بنا لیا جائے اور چھان کر کسی صاف اور خشک شیشی میں رکھ لیا جائے صبح نہار منہ 5 گرام کی مقدارمیں پانی کے ہمراہ لیا جائے اوپر سے تھوڑی مصری کھا لی جائے یا ایک چمچی شہد چاٹ لیا جائے۔ اس دوا کو چالیس یوم متواتر استعمال کیا جائے۔ یہ شقیقہ کی بیشتر قسموں میں مفید ثابت ہوئی ہے۔ دورہ درد کے وقت پوست ریٹھا پانی میں گھس کر دو تین قطرے ناک میں ڈالے جائیں اور اس سے اکثر دورہ رک جاتا ہے۔
دردِ شقیقہ کا ایک خوش ذائقہ علاج بھی چٹکلے کے طور پر ہے اور وہ ہے علی الصبح گرم گرم جلیبیاں شیرے میں ڈوبی ہوئی کھاناجب دورہ شروع ہونے لگے اس وقت استعمال کریں تو بھی اکثر فائدہ ہو جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ اس لیے کر دیا گیا کہ ایک صاحب سڑک پر جاتے ہوئے گرے اور بے ہوش ہو گئے۔ کافی لوگ آس پاس اکٹھے ہوگئے اور انہیں ہوش میں لانے کے مشورے دینے لگے۔کسی نے کہا کہ پانی کے چھینٹے منہ پر مارے جائیں کسی نے مشورہ دیا کہ پیاز سنگھائی جائے۔ ایک صاحب نے کنپٹیاں دبانے کے لیے کہا‘ ایک اور صاحب جو سب سے پیچھے کھڑے تھے وہ جیلبیاں کھلانے کے لیے کہہ رہے تھے مگر ان کی کوئی نہیں سن رہا تھا آخر کو بے ہوش شخص بولا کہ بھائی جو صاحب پیچھے کھڑے ہیں ان کی بھی کوئی سن لے۔ اس لیے جیلیبیوں والے علاج سے میں آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا۔
دردِ شقیقہ شروع ہوتے ہی مکمل آرام بہترین علاج ہے۔ وہ لوگ جو آرام دہ ماحول میں لیٹ کر سونے کی کوشش کرتے ہیں‘ جلد ہی درد سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جو اپنے روز مرہ کے کام کاج جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ سر کو آہستہ آہستہ دباتے رہنا دُکھتے سر کا اچھا علاج ہے۔ اگر آپ ذہنی دبائو یا تفکرات میں مبتلا ہیں تو انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیے اور اپنے چہرے اور پیشانی کے عضلات کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے۔ ایک یا دونوں کنپٹیوں پر خون کی رگیں بہت تیز تڑپتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں انہیں انگلیوں کے سرے سے اگر دبائے رکھا جائے تو سکون ملتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے انہیں دبائے رکھنا چاہیے۔
اگر درد شقیقہ دفتر کے اوقات کار میں شروع ہو جائے تو ہر جگہ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی لیٹ کر آرام کرے‘ اس کا انحصار مالکان کے ہمدردانہ رویے پر بھی ہے۔ اس کے لیے مناسب ہے ایک طرف چند منٹوں کے لیے بیٹھ جائیں اور درد رفع کرنے والی کوئی بھی دوا استعمال کر لیں۔ اگر درد ہلکا ہے تو ہو سکتا ہے کچھ دیر بعد آپ دوبارہ کام میں مشغول ہو جائیں اور اگر شدید درد حسب سابق ہے تو پھر اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ مکمل آرام کیا جائے۔ اگر آپ کے معالج نے کوئی مخصوص دوا اس مرض کے لیے تجویز کی ہوئی ہے تو اسے ہمیشہ اپنی جیب یا ہینڈ بیگ میں رکھیے۔ دورۂ درد کے دوران کوئی بھی محرک چیز کیفین وغیرہ درد کی مدت کو بڑھا دیتے ہیں لیکن بعض مریض دوسرے گرم مشروبات سے درد میں تسکین محسوس کرتے ہیں۔
شور و غل‘ ڈرائیونگ‘ سائیکل چلانا اور دوسرے محنت مشقت کے کام درد کی شدت میں مزید اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو دردِ شقیقہ کے دوران کبھی بھی یہ احساس ہو کہ آپ کی نظر میں فرق پڑ گیا ہے تو ایسی حالت میں باریک اور پُرخطر کام مثلاً کار چلانا وغیرہ نہ کیجیے خصوصاً رات میں اگر کار چلاتے ہوئے یہ تکلیف شروع ہو جائے تو بہتر ہے کہ کارپارکنگ کی جگہ پر کھڑی کر دی جائے اور سیٹ کو مکمل طور پر پیچھے کرکے آرام دہ بنا لیا جائے اور اس وقت تک وہاں رہا جائے جب تک کہ درد کی شدت کم نہ ہو جائے یا کار چلانے کا متبادل انتظام نہ ہو جائے۔اگر ان سب تدابیر پر عمل کرکے آپ اپنے دردِ شقیقہ پر قابو پاسکیں یا اس کی شدت کو اس حد تک کم کرسکیں کہ وہ آپ کے روزانہ معمولات پر اثرانداز نہ ہو تو بہت اچھا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کو اپنے معالج سے رجوع کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ مرض کا صحیح اور مکمل علاج معالج کے مشورے سے ہی ممکن ہے۔

حصہ