ہم کیوں مسلمان ہوئے

355

مولانا عبیداللہ سندھ(ہندوستان)
جید عالمِ دین‘ تحریک آزادی ہند کے صفِ اوّل کے رہنما اور مفکر و مصلح مولانا عبیداللہ سندھی چنداں محتاجِ تعارف نہیں۔ آبائی طور پر آپ ایک سکھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر قبولِ اسلام کے بعد ساری صلاحیتیں اسلام کے فروغ اور اشاعت کے لیے وقف کر دیں اور آزادیٔ وطن کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دیا اور اس سلسلے میں ملکوں ملکوں کی خاک چھانتے رہے۔ چنانچہ افغانستان‘ ترکی‘ روس‘ سوئٹزرلینڈ اور حجاز میں برسوں مقیم رہے اور غلامی سے نجات پانے اور مسلمانوں کو زوال اور ادبار سے رہائی دلانے کی عملی تدبیریں کرتے رہے۔ آخری عمر میں انہوں نے دہلی میں مستقلاً رہائش کر لی تھی۔ 1944ء میں وفات پائی۔
…٭…
میں 10 مارچ 1872ء کو ضلع سیالکوٹ (پنجاب) کے گائوں چیانوالی میں ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد رام سنگھ میری پیدائش سے چار ماہ پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ دو سال بعد دادا بھی فوت ہو گئے تو میری والدہ مجھے میرے ماموں کے پاس جام پور (ڈیرہ غازی خان) لے گئیں۔ میرے ماموں وہاں پٹواری تھے۔ میرے دادا سکھ حکومت میں اپنے گائوں کے کاردار تھے۔
میری تعلیم 1878ء سے جام پور کے اردو مڈل اسکول سے شروع ہوئی۔ خدا کے فضل سے میں پڑھائی میں بہت اچھا تھا اور میرا شمار ممتاز طالب علموں میں سرفہرست تھا۔
1884ء میں جب کہ میری عمر صرف بارہ برس تھی‘ مجھے اسکول کے ایک آریہ سماج ہندو لڑکے کے ہاتھ میں ’’تحفۃ الہند‘‘ نظر آئی۔ میرے اشتیاق پر اس نے مجھے یہ کتاب عاریتاً دے دی جسے میں نے بڑی توجہ اور دل چسپی سے پڑھا۔ خصوصاً اس حصے نے بہت متاثرکیا جو نو مسلموں کے حالات پر مشتمل تھا۔ اسلام کی صداقت نے میرے دل و دماغ پر ایک نقش سا قائم کر دیا۔
ڈیرہ غازی خان مسلم اکثریت کا ضلع تھا اور عام مسلمان مذہب کے سچے شیدائی اور راسخ العقیدہ تھے۔ اس ماحول نے وہاں کے غیر مسلموں کو خاصا متاثر کر رکھا تھا۔چنانچہ نزدیکی گائوں کوٹلی مغلاں کے چند ہندو دوستوں نے جو میری طرح ’’تحفۃ الہند‘‘ کے گرویدہ تھے‘ مجھے شاہ اسماعیل شہید کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ پڑھنے کو دی۔ اس کے مطالعے سے میںاسلامی توحید اور پرانک شرک فرق کو بہ خوبی سمجھ گیا۔ میں نے شدت سے محسوس کیا کہ جن چیزوں کو میں دل سے ٹھیک سمجھتا ہوں اور میری عقل ان پریقین رکھتی ہے‘ وہ چیزیں ہندوئوں اور سکھوں کے مذہبی طور طریقوں سے زیادہ اسلام میںہیں۔ یہ میرا اپنا تجزیہ اوراحساس تھا اور متذکرہ کتابوں نے اس جانب میری رہنمائی کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ سکھ بھی خدا کو ایک مانتے ہیں اور مسلمان بھی‘ مگر اسلام کا تصورِ توحید سکھوں سے بلند تر ہے۔ مساواتِ انسانی دونوں مذہبوں میں موجود ہے لیکن اسلام نے مساوات کو جس طرح عملی شکل دی ہے وہ سکھ مت سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے۔ سماج کی نمائشی رسوم سے دونوں مذہبوں کو نفرت ہے مگر میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ سکھ مت نے اپنے آپ کو ان رسوم میں بری طرح مقید کر لیا ہے اور اب اس مذہب کا بابا گورو نانک کی پاکیزہ تعلیمات سے بس برائے نام تعلق ہے۔
میں ان باتوں پر عرصے تک غور و فکر کرتا رہا۔ کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹ دیں‘ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ جس مذہب کو میری‘ بہنیں اور ماموں مانتے ہیں‘ وہ صداقت پرمبنی نہیں ہے جب کہ اسلام جو غیروں کا مذہب ہے وہ بہرحال سچا اور مبنی برحق ہے۔ اب کروں تو کیا کروں۔ جائوں تو کہاں جائوں؟
انہی دنوں ایک مولوی صاحب نے مولوی محمد صاحبو لکھوکی‘ کی کتاب ’’احوال الآخرت‘‘ (پنجابی) پڑھنے کو دی۔ ’’تحفۃ الہند‘‘ اور ’’احوال ال آخرت‘‘ کے بار بار مطالعے نے بالآخر مجھے حتمی فیصلے تک پہنچا دیا۔ میں نے نماز سیکھ لی اور تحفۃ الہند کے مصنف کے نام پر اپنا نام عبیداللہ رکھ لیا۔ یہ 1887ء کا ذکر ہے اور اس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ارادہ تھا کہ اگلے سال جب کسی ہائی اسکول میں تعلیم کے لیے جائوں گا تو قبول اسلام کا اعلان کر دوں گا۔
مگر جذبات نے سمجھایا کہ مزید تاخیر مناسب نہیں‘کیا خبر موت اس وقت تک کی مہلت دے یا نہ دے۔ چنانچہ 15 اگست 1887ء کی صبح کو جب کہ میری والدہ باہر رسوئی میں بیٹھی کھانا پکا رہی تھی‘ میں کسی بہانے چپکے سے باہر نکلا اور زندگی کے نئے سفر پر چل پڑا۔ منزل نامعلوم تھی۔ میرے ساتھ کوٹلی مغلاں کا ایک رفیق عبدالقادر تھا۔ ہم دونوں عربی مدسہ کے ایک طالب علم کی معیت میں کوٹلہ رحم شاہ (مظفر گڑھ) پہنچے۔ وہاں 9 ذی الحجہ 1304ہجری کو میری سنتِ تطہیر ادا ہوئی۔ وہیں معلوم ہوا کہ میرے اعزہ میری تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہے ہیں۔ چنانچہ میں سندھ کی طرف روانہ ہو گیا اور پھر چونڈی شریف میں حافظ رفیق صاحب کی خدمت میں پہنچ گیا جو اپنے وقت کے جنیدِ ثانی اور سیدالعارفین تھے۔
چند ماہ بھر چونڈی شریف میںحافظ صاحب کی صحبت میں گزرے۔ فائدہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشرت میرے لیے اس طرح طبیعتِ ثانیہ بن گئی جس طرح ایک پیدائشی مسلمان کی ہوتی ہے۔ حضرت نے ایک روز میرے سامنے اپنے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’عبیداللہ نے اللہ کے لیے ہمیں اپنا ماں باپ بنا لیا ہے۔‘‘ اس کلمۂ مبارک کی تاثیر خاص طور پر میرے دل میں محفوظ ہے۔ میں انہیں اپنا دینی باپ سمجھتا ہوں اور انہیں کی خاطرمیں نے سندھ کو اپنا مستقل وطن بنا لیا اور سندھی کہلایا۔ میں نے قادری راشدی طریقہ میں حضرت سے بیعت کر لی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ محسوس ہوا کہ بڑے سے بڑے انسان سے کبھی مرعوب نہیں ہوا۔
بھرچونڈی شریف سے میں تحصیل علم کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ پہلے ریاست بہاولپور کی دیہاتی مساجد میں عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتا رہا۔ پھر دین پور (متصل خانپور) پہنچا جہاں سیدالعارفین کے خلیفۂ اوّل مولانا ابوالسراج غلام محمد صاحب رہتے تھے۔ یہیں میں نے ہدایت النحو تک کی کتابیں مولانا عبدالقادر سے پڑھیں۔ حضرت خلیفہ صاحب نے میری والدہ کو خط لکھوایا۔ وہ آگئیں اور مجھے واپس لے جانے کے لیے بہت زور لگایا‘ مگر الحمدللہ میں ثابت قدم رہا۔ (یہ غلط ہے کہ میری والدہ دیوبند پہنچیں۔)
شوال 1305ہجری میں دین پور سے کوٹلہ رحم شاہ چلا گیا اور وہاں سے ریل پر سوار ہو کر دیوبند جا پہنچا جہاں شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کی رہنمائی میں ایک نئی تعلیمی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

حصہ