ماب لنچنگ اور سوشل میڈیا

380

میں نے بغور دیکھا، تجزیہ کیا تو یقین مانیں محسن بیگ کی زبان سے کوئی بد اخلاقی ، فحش گوئی، گالم گلوچ کا استعمال نہیں ملا۔ ہاں اس نے وزیر اعظم پاکستان کی سابق اہلیہ کی کتاب کا حوالہ ضرور دیا۔ مگر جو کچھ کتا ب میں لکھا ہے اس پر تو کوئی سرزنش نہیں مگر صرف کتاب کا حوالہ دینے پر اتنی پھرتیاں کہ شکایت درج ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ہی ’’ملزم‘‘ کے خلاف کارروائی کر دی گئی۔
اس ہفتے دو‘ تین دن یہ ٹرینڈ اس لیے بھی چھایا رہا کہ شاید پیٹرول بم اور خاتون اوّل کے حوالے سے خبریں دم توڑ جائیں۔ پی ایس ایل کا زبردستی کا شور بدستور سوشل میڈیا پر چھایا رہا حالانکہ پیٹرول بم میں اتنی صلاحیت تھی کہ سب کچھ روند سکتا تھا۔ سوشل میڈیا پر اقرارالحسن کے لاکھوں چاہنے والوں نے اُن پر تشدد کی مذمت کی مگر ان کی دھڑا دھڑ وڈیوز نے خود ان کے ’’شدید زخمی‘‘ ہونے کے بیانیے کو کمزور کیا۔
14 اور 15فروری کو سوشل میڈیا کی ٹرینڈ لسٹ پر جہاں ویلنٹائن ڈے منڈلاتا نظر آیا وہیں ’’حیا ڈے‘‘ کا ٹرینڈ بھی ایک دن تو چلا۔ بھارت میں حجاب کے معاملہ پر عدالتی ٹال مٹول بدستور دونوں جانب مذہبی شدت پسندی کو ابھار رہا ہے۔ ایسی تصاویر دیکھنے کو ملیں کہ بچیوں کے امتحانات تھے مگر عدالتی حکم تھا کہ اسکارف/ حجاب نہیں پہننا۔ تو والدین نے امتحان چھوڑنا گوارہ کر لیا اور صاف کہا کہ ’’اللہ کا حکم ہے‘ ہم حجاب نہیں اتاریں گے۔‘‘
اسی تناظر میں آج ہم بات کریں گے اس اتوارکو ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں آنے والے ہیش ٹیگ ’میاں چنوں‘ کے بارے میں ، اس کا تعلق بھارت کی صورت حال سے کیسے جڑتا محسوس ہوتا ہے‘ یہ بھی بات کریں گے۔ میاں چنوں پنجاب کے ضلع خانیوال کا چھوٹا شہر ہے جہاں اس ہفتے ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کو قتل کرنے کا دل خراش واقعہ ہوا۔
وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ ’’ذہنی معذور کو پتھر مار کر قتل کرنے والے نبی کریمؐ کو کیا جواب دیں گے۔‘‘ انہوں نے ویسے بہت کچھ کہا ہے مگر یہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو پورا حکومتی بیانیہ بتا رہا ہے۔ ماب لانچنگ یعنی ہجوم کے ہاتھوں قتل‘ پاکستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ناسمجھی یا کم علمی کی وجہ سے عجیب معذرت خواہانہ رویے و بیانیے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو جب تک بغیر سوچے سمجھے مذمت نہ کی جائے، سانس ہی نہیں لی جاتی۔ کوئی نہ کرے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ مذمت کرو، تم حمایت کر رہے ہو، ایسا ہے ویسا ہے۔ وہ پاگل تھا، ذہنی مریض تھا، ایسا نہیں کرنا تھا، ویسا نہیں کرنا تھا، شرم سے سر جھک گیا، یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔ دین میں کیا حکم ہے، جاہل لوگ ہیں، انسانیت نہیں ہے۔ ایسی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہمارا دینی شعور ختم ہوتا جا رہا ہے۔
میں نے ایک سوال کیا آپ اندرون سندھ کسی مندر میں جائیں اور شرک کے خلاف نعرۂ تکبیر لگائیں، ان کی مورتی پر تیل چھڑک کر آگ لگا دیں تو وہاں موجود ہندو آپ کے ساتھ کیا کریں گے؟ اِسی طرح زنا کے ملزم کو جب گرفتار کیا جائے تو اس کے جرم کو بھی میڈیکلائزڈ کر دیا جائے کہ ملزم کی طبی حالت ٹھیک نہیں، اس کو ہائپر اسپرمیا ہوگیا ہے، اس کے ’پلازما ٹیسٹو اسٹرو ن‘ ہارمونز بہت زیادہ پیدا ہورہے ہیں جس کی وجہ سے وہ جنسی جذبات پر قابو نہیں پا سکتا تو اس کو مریض قرار دے کر چھوڑ دیا جائے۔ تمام تر طبی تحقیق سے یہ بات ہر زانی کے ٹیسٹ لے کر ثابت کی جا سکتی ہے مگر آپ ایسا نہیں کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ مندر میں ایسا کریں گے تو وہاں موجود افراد لازمی مشتعل ہوں گے اور آپ کے ساتھ میاں چنوں سے زیادہ سخت سلوک ہوگا۔
اس لیے خوب جان لیں کہ پاکستان میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہجوم انسان کو قتل کر رہے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ برداشت کیوں نہیں کر پا رہے؟ لوگوں میں ایسی کیفیت کیوں ہے کہ وہ نبیؐ، اللہ، قرآن اور دینی مظاہر و شعائر کے خلاف کوئی بات یا حرکت برداشت کرنے کو تیار نہیں؟ ایسا واقعہ ہوتا ہے تو لوگ پہلے تو ثبوت، ثبوت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اگر ثبوت مل جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو جنونی ہے… پاگل ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مارنے والے مجمع کو بھی لوگ پاگل، جنونی ہی کہتے ہیں۔ گویا یہ پاگلوں کی جنگ ہے۔ اِسی قانون کا کمال دیکھیں کہ جنسی ہرانسمنٹ کے معاملے میں اگر کوئی لڑکی بغیر کسی ثبوت ‘ بغیر کسی گواہ کے یہ بھی کہہ دے کہ یہ شخص مجھے بری نظر سے دیکھ رہا تھا تو یہ قابل تعزیر جرم بن جاتا ہے۔ ہمارے دوست نے اس معاملے پر ایک ادارے سے ایک شخص کی نوکری ختم ہوتے دیکھی ہے کہ لڑکی نے صرف یہ شکایت کی کہ مجھے یہ دیکھ رہا تھا۔ ایک جانب یہ حال ہے مگر باقی معاملات سے زبانی گواہی کو نکال پھینکا گیا ہے۔ بات سمجھ آئی۔
یہ جدیدیت کا رائج طریقہ ہے معاشرت میں نفوذ کا۔ امریکا کی مثال سامنے ہے‘ جہاں ہم جنس پرستی ایک بڑا گناہ تھا کہ ملوث افراد کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ مغرب نے پورا زور لگا کر سب سے پہلے ان کو ’’بیمار‘‘ ثابت کیا تاکہ انسانیت کے پرچم تلے رحم کا جذبہ ابھرے۔ ڈرامے اور فلمیں بنا کر اس کے ذریعے سمجھایا جاتا رہا۔ پھر ان کی تحریک بنی اور اس عمل کو نارملائز کر دیا گیا۔ یقین مانیں ہم جنس پرستی مغرب کا اب ایسا طرز زندگی (لائف اسٹائل) بن چکا ہے کہ پوری دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہی بعینہ کھیل مذہبی جذباتیت کو روندنے میں رچایا جا رہا ہے خصوصاً ’’بلاسفیمی‘‘ کو۔ آپ نوٹ کرلیں کہ پاکستان کے سب سے زیادہ کیسز میں ملزم کو دماغی مریض بنایا جاتا ہے، یہ اشارے خود عدلیہ دیتی ہے تاکہ یہ مان لیا جائے کہ انسان دماغی طور درست حالت میں نہیں ہوتا، اس عمل کو ’میڈیکلائز‘ کرکے قانون کے شکنجے سے باہر کرنے کے راستے نکالے جاتے ہیں۔
آپ کو یا د دلائوں مرزا غلام قادیانی کو بھی ذہنی مریض پکارا گیا تھا۔ مگر اس وقت معاملہ استعمار کے راج کا تھا اور سب جانتے تھے کہ یہ اس کا ایجنٹ خاص ہے اس لیے لوگ اپنے اسپیس میں رہے، البتہ قیام پاکستان کے بعد جب ان کو بھی مسلمان جیسے حقوق ملنا شروع ہوئے تو معاملہ بتدریج شدت اختیار کرتا چلا گیا۔
اس کیس میں کہتے ہیں کہ مرنے والا پاگل تھا، سوشل میڈیا پر اس کے 16سال سے جاری علاج کی دستاویزی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں۔ تو ایسے پاگل کو کس نے اور کیوں آزاد چھوڑا ہو اہے؟ یہ کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔ پھر بیماری بھی ایسی بتائی گئی ’شیزوفینیا‘ کہ جس کے مریض کو کوئی عام آدمی دیکھ کر پہچان بھی نہ سکے۔ اچھا اس کو یوں دیکھ لیں کہ کوئی مندر میں جاکر مورتی کو آگ لگائے گا تو کیا وہاں کے لوگ پہلے اس کی طبی رپورٹیں چیک کریں گے؟ تو خانیوال کے واقعے سے ایسی امید کیوں؟
بھارت کی ایک اور مثال سے سمجھیں کہ بھارت میں جہاں جہاں گائے کے مسئلے پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا، وہاں کیا مسلمانوں کے لیے خود ضروری تھا کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہندو یہاں اکثریت میں ہیں اور گائے ان کے نزدیک کیا مقام رکھتی ہے۔ اس کے باوجود میں ان کے سامنے سے گائے کا گوشت لے کر جائوں یا ذبیحہ کروں گا تو ان کے ساتھ پرانی دشمنی کو مذہبی جذباتیت کی ہوا دینے کے سوا کیا کروں گا؟ ایسا تو نہیں ہے کہ گائے کے علاوہ کوئی اور جانور مسلمانوں کے لیے حلال ہی نہ ہو۔ تو ہجوم کی نفسیات جذباتیت پر مبنی ہوتی ہے اگر یہ جذباتیت مذہب سے جڑی ہو تو اس کو مزید پَر لگ جاتے ہیں۔ پس وہاں مظلوم مسلمان کو میڈیکلائز نہیں کیا جاتا کہ ان کی ضرورت نہیں۔ اس لیے دارالحرب میں رہنا ہے یا جس جگہ آپ رہ رہے ہیں وہاں کی اکثریت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو اکیلے میں توڑا، پھر وہاں سے گئے نہیں بلکہ آگ میں جانے تک ہر قسم کے حالات کا سامنا کیا۔ اسوۂ رسولؐ بھی یہی بتاتا ہے کہ مکی دور میں وہاں مشرکین کی اکثریت کے مذہبی جذبات کو جب اسلام کی دعوت نے دھکا مارا تو وہ بہت بلبلائے اور انہوں نے حد درجہ تشدد و ظلم کیا۔ اس دور کے تشدد کے کئی واقعات یقینا آپ کے علم میں ہوں گے۔ یاد دلانے کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی جذباتیت ایک فطری عمل ہے جسے شعور دینے کی ضرورت ہے نا کہ پاگل پن کی آڑ میں میڈیکلائز کر کے مذہبی جذباتیت کو ختم کرنے کی سازش کی جائے۔ ہمیں تو فخر ہونا چاہیے کہ ہمارے اندر دینی غیرت و حمیت موجود ہے۔ پھر یہ بھی سمجھیں کہ وہاں کے لوگوں نے آج تک ایسا کوئی پاگل نہیں دیکھا جو قرآن مجید کو مسجد میں جلائے۔ یہ سیدھا سیدھا مذہبی جذبات پر حملہ تھا اور عین جمہوری عمل تھا کہ لوگوں کی اکثریت (مقامی جمہور ) نے فیصلہ کیا کہ ایسا ہی ہونا چاہیے اور وہ اپنے طور سے کر گزرے۔ یہ عام لوگ تھے‘ ان کے جذبات اس عمل سے بھڑکائے گئے تو وہ مسجد کے دروازے توڑ کر داخل ہوئے۔ مگر یہ سوال کوئی کیوں نہیں اٹھا رہا کہ شریعت میں ’’ایسے فرد یا افراد کو کیا سزا دی جا سکتی ہے جو کسی شاتمِ رسول، شاتم قرآن یا توہین مذہب کرنے والے کو قتل کردے؟‘‘
تاریخ اسلام سے اسوۂ رسول ؐ کی مثالیں دینے والے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ’’مسجد نبویؐ میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے والے اُس بدوکے عمل پر کئی صحابہؓ اس کی طبیعت صاف کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے تھے، صرف رسول اللہ ؐ نے روک دیا، مگر کیا کوئی ایسی روایت ڈھونڈ کے لا سکتا ہے کہ اُن صحابہ کرامؓ کو نبی کریمؐ نے معاذ اللہ کبھی جنونی، پاگل یا کچھ اور کہا ہو؟ کیوں کہ صحابہؓ تو نکل پڑے تھے اور ظاہر ہے وہ بدو کی طبی رپورٹ دیکھنے نہیں جا رہے تھے۔ کسی نظریے سے وابستگی کا اصل پیمانہ یہی ہوتا ہے کہ اس نظریے پر کون جان دے سکتا ہے اور کون جان لے سکتا ہے۔ اس کے لیے لمبی داڑھی، اونچے پائنچے، نمازوں کی کثرت درکار نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی پوری تاریخ دین والہانہ عقیدت و عشق سے جڑی ہوئی ہے، عمل ہو یا نہ ہو‘ وہ دین کی‘ مذہب کی اور رسول ؐ کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ ہمیں تو دو‘ تین ہی نام معلوم ہیں جب کہ پنجاب کے کئی شہروں اور دیہات میں ایسے غازیوں کی قبریں موجود ہیں جنہوں نے اس معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ لوگوں کی اسلامی جذباتیت کو جہل، پاگل پن کہہ کر الحاد کو معاشرے کی جڑوں تک رسائی دینے کے سوا کچھ نہیں۔
مضمون جاری ہے میں اگلے ہفتے مزید سمجھانے کی کوشش کروںگا کہ یہ معاملہ ہے کیا۔ اس کو تاریخی، حقیقی و نظاماتی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے ، بس برطانوی جریدے ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ کے ایک مضمون کا عنوان کا حوالہ دوں گا کہ جدیدیت میں
Abraham Lincoln warned of mob rule in 1838
’’امریکی صدر ابراہم لنکن کے دور میں ماب لنچنگ فروغ پایا۔‘‘

حصہ