قیصرو کسریٰ قسط (37)

254

میرے والد بڑھاپے میں ملازمت سے سبکدوش ہو کر دمشق اپنے گھر آگئے تھے۔ اور میں نے انہیں کئی سال سے نہیں دیکھا تھا۔قسطینہ کو بھی اپنے نانا کا گھر دیکھنے کا شوق تھا۔ اس لیے ہم بھی اُن کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ چند منزلوں تک ہم نے ایک ساتھ سفر کیا۔ پھر ہمارے راستے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور انہوں نے ہمیں اپنے دو وفادار نوکروں اور چند مسلح سپاہیوں کے ساتھ دمشق کی طرف روانہ کرتے ہوئے کہا کہ میں قسطنطنیہ سے فارغ ہو کر دمشق آئوں گا اور اس کے بعد ہم اکٹھے مدائن چلے جائیں گے۔ شام کی ایک سرحدی چوکی کے سالار نے ہمیں اپنی حفاظت میں دمشق پہنچانے کا ذمہ لے لیا اور ہم نے ایرانی سپاہی واپس کردیے، تاہم میرے شوہر کے دو وفادار نوکر ہمارے ساتھ رہے۔ دمشق پہنچ کر ہمیں چند مہینے سین کے متعلق کوئی اطلاع نہ ملی۔ میرے والد نے دمشق کے حاکم کی وساطت سے اُس کا پتا لگانے کی کوشش کی تو ہمیں یہ اطلاع ملی کہ فوکاس نے انہیں موریس کا طرف دار سمجھ کر گرفتار کرلیا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اِس خبر سے ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی۔ میرے والد نے قسطنطنیہ میں اپنے دوستوں کو پیغام بھیجے۔ انطاکیہ کے گورنر سے مداخلت کے لیے التجائیں کیں لیکن فسطینہ کے باپ کو رہا کرانے کے لیے اُن کی ساری کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔ پھر جب ایران نے چڑھائی کردی تو ہمیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب اُن کے لیے فوکاس کی قید سے رہا ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اب دعائیں ہمارا آخری سہارا تھیں۔ دمشق کے ایک راہب نے ہمیں مشورہ دیا کہ اگر ہم یروشلم جائیں تو وہاں ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی۔ والد بڑھاپے کی وجہ سے سفر کے قابل نہ تھے۔ لیکن دمشق سے زائرین کا ایک قافلہ یروشلم جارہا تھا اور ہم اپنے دو ایرانی نوکروں کے ساتھ اِس قافلے میں شامل ہوگئے۔ ابا جان نے ہمیں یروشلم کی فوج کے ایک سالار پطیوس کے نام تعارفی خط دے دیا تھا۔ یہ شخص ابا جان کے ایک دوست کا بیٹا تھا۔ اُس نے ہمیں اپنے پاس ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن میں نے اصرار کیا کہ آپ ہمارے لیے ایک علیحدہ مکان کا بندوبست کردیں۔ اُس نے ہمیں کرائے پر ایک مکان لے دیا، تاہم یہ شرط پیش کی کہ ہم کم از کم دو دن اُس کے پاس ضرور ٹھہریں گے۔ ہم نے پطیوس سے زیادہ اُس کی نیک دل بیوی کے اصرار پر یہ شرط منظور کرلی۔ دو دن اُن کے ہاں مہمان رہنے کے بعد کرائے کے مکان میں چلے گئے۔ یروشلم میں ہماری مصروفیات مختلف خانقاہوں اور گرجوں میں جا کر دعائیں کرنے تک محدود تھیں۔ اور ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ جب تک ہمیں سین کے متعلق کوئی اُمید افزا خبر نہیں ملے گی ہم واپس نہیں جائیں گے۔ میں نے کھلے دل سے تمام گرجوں اور خانقاہوں کو نذرانے پیش کیے۔ دولت کی میرے پاس کمی نہ تھی۔ میں نے خانقاہوں سے کئی مشہور و معروف راہبوں کی ہڈیاں حاصل کیں اور بعض انتہائی متبرک ہڈیوں کے عوض میں نے اپنے قیمتی زیورات تک لٹادیے‘‘۔
’’راہبوں کی ہڈیاں!‘‘۔ عاصم نے چونک کر پوچھا ’’کس کام آتی ہیں؟‘‘۔
فسطینہ اُسے اِس قدر بدحواس دیکھ کر اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکی لیکن یوسیبیا نے قہر آلود نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا اور پھر عاصم کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔ ’’ہم خدارسیدہ راہبوں کی ہڈیوں کو بہت متبرک سمجھتے ہیں اور یروشلم کی خانقاہوں میں بعض راہبوں کی ہڈیاں تو جواہرات سے زیادہ قیمتی سمجھتی جاتی ہیں۔ میں نے ایک مشہور راہب کی ڈیڑھ سو سال پرانی ہڈیوں کو چھونے کی خوشی میں اپنا موتیوں کا ہار اُتار کر بشپ کی نذر کردیا تھا اور انہوں نے مجھے اُس مٹی کے پیالے کا ایک ٹکڑا عنایت کیا تھا جس میں یہ بزرگ پانی پیا کرتے تھے۔ لیکن تم ایک عرب ہو اور ایرانیوں کی طرح تمہیں بھی ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی‘‘۔
عاصم نے اس بحث میں اُلجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی وہ یوسیبیا کی سرگزشت کا آخری حصہ سننے کے لیے بیتاب تھا۔ اس نے کہا۔ معاف کیجیے! میں ہڈیوں کے متعلق بحث نہیں کرنا چاہتا۔ آپ یہ بتائیے کہ اِس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
یوسیبیا نے کہا۔ ’’پھر کوئی بیس دن بعد پطیوس اپنی بیوی کے ہمراہ ہمارے پاس آیا اور اُس نے کہا آج فلسطین کے نئے حاکم نے اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے اور کل شام وہ شہر کے رئوسا اور بڑے بڑے عہدہ داروں کو کھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ میں نے فسطینہ اور آپ کا نام مہمانوں کی فہرست میں لکھوا دیا ہے۔ جب میں نے حاکم سے آپ کے والد کا ذکر کیا تھا تو وہ بہت خوش ہوا تھا اور اُس نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں آپ کو دعوت میں ضرور لائوں۔ مجھے اِس دعوت سے کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن فسطینہ کا دل بہلانے کے لیے وہاں جانے کا وعدہ کرلیا۔
ہماری بدقسمتی سے یہ نیا گورنر وہی انڈرونیکس تھا، جسے میں نے بے عزت کرکے قلعے سے نکلوایا تھا اور مجھے یہ بات اُس وقت معلوم ہوئی جب میں اُس کے محل میں داخل ہوچکی تھی۔ بظاہر وہ ہم سے بڑی عزت کے ساتھ پیش آیا اور اُس کی بیوی نے بھی ہماری بہت دلجوئی کی۔ لیکن مجھے یہ جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ انڈرونیکس ابھی تک پرانے واقعات نہیں بھولا۔ اُسے معلوم تھا کہ میں ایک ایرانی کی بیوی ہوں اور میرا شوہر قسطنطنیہ میں قید ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میں تھیوڈوسیس کی بیٹی ہوں اور مجھے بلاوجہ پریشان کرنا اُس کے لیے سود مند نہ ہوگا۔ تاہم میں اُس کی طرف سے خوفزدہ تھی۔ چند دن ہمیں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جب دمشق کی طرف ایرانیوں کی پیش قدمی کی اطلاعات آنے لگیں تو مجھے یروشلم میں قیام کرنا خطرناک محسوس ہونے لگا۔ کسی طرح لوگوں کو پتا چل گیا کہ میرا شوہر ایرانی ہے اور ہمارے نوکر بھی ایرانی ہیں اور یہ بات انہیں مشتعل کردینے کے لیے کافی تھی۔
ایک روز ہم ایک خانقاہ کی زیارت کرکے واپس آرہے تھے کہ ہمیں مکان کے دروازے پر لوگوں کا ایک ہجوم دکھائی دیا۔ ہم اُن کے قریب پہنچے تو انہوں نے ہمارے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے۔ وہ ہمیں مرتد، غدار اور ایرانیوں کے جاسوس کہہ رہے تھے۔ پھر چند آدمی ’’پکڑ لو، مار ڈالو‘‘، کے نعرے لگاتے آگے بڑھے اور ہم بھاگ کر قریب کے ایک مکان میں گھس گئے۔ اندر صرف چند عورتیں اور بچے تھے۔ ایک عورت نے جلدی سے دروازہ بند کردیا۔ مشتعل ہجوم دروازے پر حملہ کرنے والا تھا کہ رومی سپاہیوں کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے لوگوں کو بھگادیا اور ہمیں وہاں سے نکال کر اپنے گھر پہنچادیا۔ گھر سے ہمارے دونوں نوکر غائب تھے۔ میری درخواست پر ایک سپاہی پطیوس کو اطلاع دینے چلا گیا اور باقی ہماری حفاظت کے لیے وہاں ٹھہر گئے۔ پطیوس اطلاع ملتے ہی ہمارے گھر پہنچا اور یہ صورت حال معلوم کرتے ہی شہر کے کوتوال کے پاس چلا گیا۔ رات کے وقت وہ واپس آیا تو ہمیں اُس کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ جب ہم خانقاہ کی زیارت کو گئے ہوئے تھے تو پولیس کے آدمی ہمارے نوکروں کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ اور اب انہیں یہ بیان دینے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ایرانیوں کے جاسوس ہیں‘‘۔
میں نے اُسی وقت انڈرونیکس کے پاس جانے کا ارادہ کیا، لیکن پطیوس نے کہا۔ ’’اس وقت اُس کے پاس جا کر آپ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ میں اُس سے مل آیا ہوں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جب تک پولیس اچھی طرح چھان بین نہیں کرلیتی آپ کے نوکروں کو رہا نہیں کیا جاسکتا، تاہم آپ کے متعلق اُس نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ مشتعل لوگوں کو آپ کے مکان سے دور رکھوں۔ آپ تسلی رکھیے! آپ کا بال بیکا نہ ہوگا۔ جب تک آپ کو خطرہ ہے میرے سپاہی آپ کے مکان پر دن رات پہرا دیتے رہیں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تم نے انڈرونیکس کو یہ نہیں بتایا کہ میرے نوکر عیسائی مذہب قبول کرچکے ہیں‘‘۔
وہ بولا۔ ’’میں نے کہا تھا لیکن وہ یہ کہتا تھا کہ اُن کے مذہب کے متعلق تحقیقات کرنے کا معاملہ کلیسا کے سپرد کردیا جائے گا۔ اگر کلیسا نے یہ فتویٰ دیا کہ وہ مرتد ہیں تو میں اِس معاملے میں کچھ نہیں کرسکوں گا‘‘۔
مجھے اپنے والد کو اطلاع دینے کا خیال آیا لیکن میں یہ محسوس کرتی تھی کہ اس معاملے میں وہ بھی ہماری طرح بے بس ہوں گے۔
چند دن اور گزر گئے۔ اِس عرصہ میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہمارے گھر کے باہر کیا ہورہا ہے۔ ہم کو دروازے سے باہر جھانکنے کی اجازت نہ تھی۔ سپاہی جو ہمارے گھر پر پہرا دیتے تھے ہمیں بازار سے ضرورت کی اشیاء خرید کر لا کر دیتے تھے۔ ہمیں یقین ہوچکا تھا کہ گورنر ہمارے خلاف کوئی خطرناک سازش کررہا ہے۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ملال تھا کہ پطیوس نے دوبارہ ہماری خبر تک نہ لی۔ میں نے سپاہیوں کی وساطت سے اپنے باپ کو اس صورت حال سے خبردار کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ہماری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پھر ایک روز کلیسا کے بشپ اور چند پادری ہمارے پاس آئے اور ہم سے طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ میں نے خانقاہوں اور گرجوں میں کس فیاضی کے ساتھ نذرانے پیش کیے ہیں۔ لیکن اُن کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ ہمارے مذہب ہی پر شک نہیں کرتے، بلکہ ہمین ایران کا جاسوس بھی سمجھتے ہیں۔
میں غصے سے بے قابو ہو کر خدا معلوم کیا کہہ گئی۔ کہ بشپ نے مجھ پر کلیسا کی توہین کا الزام عائد کردیا۔ پھر جب میں روتے ہوئے اُن کے پائوں پر گرپڑی تو انہوں نے قدرے نرم ہو کر کہا۔ بیٹی کلیسا تمہارے اِس جرم سے چشم پوشی نہیں کرسکتا کہ تم ایران کے دو جاسوسوں کو اپنے ساتھ لے کر یروشلم آئی ہو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ تمہیں اُن پر کوئی شبہ نہ ہو۔ لیکن وہ ہمیں دھوکا نہیں دے سکیں گے۔ اُن کے منہ سے سچی باتیں اُگلوانے کے لیے ہمارے پاس موثر ذرائع موجود ہیں۔ لیکن تمہیں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے اور مذہب سے اپنی سچی محبت کا ثبوت دینے کے لیے ایک قربانی دینی پڑے گی۔ ہم تمہیں سزا دینے نہیں آئے۔ بلکہ تمہاری بھلائی کے لیے آئے ہیں۔ تم اگر اپنی بیٹی کو راہبہ بننے کی اجازت دے دو تو تمہارے خلاف نوکروں کے بیانات سننے کے بعد بھی کوئی تمہاری معصومیت پر شک نہیں کرے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں قسم کھاتی ہوں کہ میرے نوکر عیسائی ہیں اور وہ ایرانیوں کے جاسوس نہیں‘‘۔
پادری نے کہا۔ ’’ہوسکتا ہے یہ درست ہو لیکن لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تم مذہب سے محبت کا عملی ثبوت دو اور تمہاری طرف سے بہترین ثبوت یہی ہوسکتا ہے کہ تم فسطینہ کو ہمارے حوالے کردو۔ ’’میں نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’مقدس باپ! فسطینہ میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اسے مجھ سے چھیننے کی کوشش نہ کیجیے‘‘۔
جب بشپ اور دوسرے راہب مجھے سمجھانے کے بعد مایوس ہوگئے تو انہوں نے فسطینہ کو رہبانیت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ڈر کر روتی ہوئی مجھ سے چمٹ گئی۔ اور وہ مجھے یہ دھمکی دے کر چلے گئے کہ تم اپنے دین سے گمراہ ہوچکی ہو۔ ایرانیوں کی پیش قدمی نے تمہارے خلاف یروشلم کے عوام کو بہت مشتعل کردیا ہے۔ اب اگر انہوں نے تمہارے مکان پر دھاوا بول دیا تو ہم کچھ نہیں کرسکیں گے اور حکومت بھی شاید تمہاری حفاظت کا ذمہ لینے کی جرأت نہ کرے‘‘۔
مجھے یہ تمام باتیں ناقابل یقین معلوم ہوتی تھیں۔ رات کے وقت اچانک پطیوس ہمارے پاس آیا اور اُس نے اطلاع دی کہ ہم واقعی کسی بڑے خطرے کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمارے ایک نوکر کو خوفناک اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے لیکن اُس نے ہمارے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ اور اب دوسرے نوکر کو شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے اور اس سے ہمارے خلاف بیان لینے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ سب کچھ اینڈرونیکس کے ایما پر ہورہا ہے۔ اگر وہ دمشق میں میرے باپ کے اثرورسوخ سے خائف نہ ہوتا تو نوکروں کے بجائے ہم سے اقبال جرم کرانے کی کوشش کی جاتی۔ انڈرونیکس کا خیال ہے کہ اگر نوکر ہمارے خلاف گواہی دے دے تو اُسے کلیسا سے ہمارے لیے بدترین سزا کی سفارش کرانے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی۔ اور پھر میرا باپ بھی کچھ نہ کرسکے گا‘‘۔
میں نے پطیوس کی باتیں سن کر کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ہمارا دوسرا نوکر بھی اپنی جان پر کھیل جائے گا، لیکن ہمارے خلاف زبان نہیں کھولے گا‘‘۔
پطیوس نے جواب دیا۔ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پولیس اُسے ہلاک کرنے کے بعد کسی وقت کا سامنا کیے بغیر یہ اعلان کرسکتی ہے کہ آپ کے دونوں نوکروں نے جرم کا اقبال کرلیا تھا، اُن کی لاشیں پولیس کی من گھڑت داستانوں کی تردید نہیں کرسکیں گی۔ ویسے بھی اب انڈرونیکس کو آپ کے خلاف کسی اقدام کی ضرورت نہیں۔ اگر ایرانی فوجیں دمشق میں داخل ہوگئیں تو عوام، جنہیں ایک منظم سازش کے تحت آپ کے خلاف مشتعل کیا گیا ہے، یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ انڈرونیکس نے آپ کی حفاظت میرے ذمے کی ہے لیکن اُسے یقین ہے کہ کلیسا کے راہب اور عوام آپ پر حملہ کریں گے تو میرے سپاہی اُن کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکیں گے۔ اور اُس نے اشارتاً مجھے یہ بھی سمجھایا تھا کہ اگر حالات قابو سے باہر ہوجائیں تو فوج کو ایک ایرانی کی بیوی کی جان بچانے کے لیے کلیسا اور عوام کا عتاب مول نہیں لینا چاہیے۔ اور میں نے مصلحتاً اُس سے یہ کہہ دیا تھا کہ میں کسی صورت میں بھی اپنے سپاہیوں کو عوام کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ مجھے اندیشہ ہے اگر اُسے یہ علم ہوگیا کہ میں آپ سے ہمدردی رکھتا ہوں تو وہ اِس مکان کی حفاظت کے لیے ایسے پہرے دار مقرر کرنا مناسب سمجھے گا جو خطرے کے وقت آنکھیں بند کرلیں۔ یہی وجہ تھی کہ میں گزشتہ چند دن آپ کے پاس نہیں آیا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن میں اپنے باپ کو بھی ان حالات سے خبردار نہیں کرسکی۔ آپ کے سپاہی بھی وہاں ہمارا پیغام پہنچانے کے لیے تیار نہ ہوئے‘‘۔
پطیوس نے جواب دیا۔ ’’اس میں ایک مصلحت تھی۔ انڈرونیکس کی باتوں سے مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اُسے آپ کے والد کے متعلق بھی یہ شبہہ ہے کہ وہ درپردہ ایرانیوں کے طرف دار ہیں۔ اور اُس کا اصلی مدعا انہیں پھانسنا ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ آپ کے والد ان حالات کی اطلاع ملتے ہی یروشلم پہنچ جائیں گے اور یہاں آکر انہیں بھی انہی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جو آپ کو درپیش ہیں، اس لیے میں نے انڈرونیکس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی کہ اگر آپ کے والد کو ان حالات کا پتا چل گیا تو وہ آپ کو بچانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردیں گے۔ انطاکیہ کے گورنر اور فوج کے بڑے بڑے رومی عہدہ دار اُس کے دوست ہیں، اس لیے جب تک تھیوڈوسیس کی بیٹی کے خلاف ہمارے ہاتھ کوئی ناقابل تردید ثبوت نہیں آتا ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہاں سے کوئی خبر اُس کے کانوں تک نہ پہنچے۔ اور یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ میری باتوں نے اُس پر اثر کیا اور اُسے میرے متعلق بھی اِس بات کا یقین ہوگیا کہ میں آپ کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کروں گا۔ میں نے یہ چند دن ضائع نہیں کیے۔ میں آپ کو یہاں سے نکالنے کا انتقام کرچکا ہوں۔ میں نے یہاں کے ایک بشپ کو اس بات پر آمادہ کرلیا ہے کہ وہ آپ کو کلیسا کی پناہ میں لے لے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ