چھوٹی سی بات

164

شاید بجلی گئی ہوئی تھی۔ کوئی بہت دیر سے گیٹ کھٹکھٹا رہا تھا۔ فہمیدہ نے گیٹ کھول کر دیکھا تو وہاں عثمان کھڑا تھا۔ جب فاطمہ کو پتا چلا کہ عثمان آیا ہے تو وہ بے ساختہ بھاگتی ہوئی گیٹ تک چلی آئی۔
’’فاطمہ واپس لوٹ جائو، اب عثمان تمہارے لیے نامحرم ہے، تم اس سے نہیں مل سکتیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خود ان کی آواز بھرّا گئی۔
’’امی! عثمان تو میرے شوہر تھے، میرے بچوں کے باپ، ہمارے خاندان کے محافظ… ہم تو ایک دوسرے کا لباس تھے… یہ کیا ہوگیا خدایا! یہ سب کچھ کیسے ہوگیا!‘‘ فاطمہ روتی رہی، سسکتی رہی، مگر اب سب کچھ لاحاصل تھا۔
ایک شام بہت معمولی سی بات پر فاطمہ اور عثمان میں بحث چھڑ گئی۔ دونوں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ شیطان انہیں مزید چڑھائے جارہا تھا۔
’’فاطمہ مجھے طیش مت دلائو، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات طلاق تک پہنچ جائے۔‘‘ عثمان نے اسے سختی سے کہا۔
لیکن فاطمہ دوبدو جواب دیے جارہی تھی۔ پھر وہ سب کچھ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عثمان نے فاطمہ کو طلاق دے دی۔ طلاق شرعی لحاظ سے تو جائز فعل ہے مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے۔ فاطمہ نے جیسے ہی ’’طلاق‘‘ کا لفظ سنا وہ ہوش و خرد سے بے گانہ ہوگئی۔ جب اسے ہوش آیا تو سب کچھ تہہ و بالا ہوچکا تھا۔ کچھ بھی تو باقی نہ بچا تھا۔ دس سالہ سعد اور آٹھ سالہ خدیجہ سہمے ہوئے ماں کے قریب بیٹھے تھے۔
فاطمہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی بحث کا اتنا المناک انجام ہوگا۔ کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ ہمارا گھرانا تو خاندان بھر میں مثالی تھا۔ فاطمہ کو اچھی طرح احساس ہوگیا تھاکہ زیادہ قصور اسی کا تھا۔ وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھی۔ کاش وہ تحمل سے کام لیتی تو شاید بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ اسے اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے تھا، پھر اسی طرح تو گھر بستے ہیں۔ مگر اب سب کچھ بے معنی ہوچکا تھا۔
فاطمہ نے اپنا کچھ سامان لیا اور بچوں کے ساتھ امی کے گھر چلی آئی۔ امی پریشان تو تھیں لیکن انہوں نے بڑھ کر بیٹی اور بچوں کو سنبھال لیا۔ فاطمہ کو خود اپنا ہوش نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ماں کے اصرار پر دو نوالے کھالیتی۔ اسے آئے ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ بھابھیوں کے کھنچے ہوئے رویّے اسے آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگے۔ وہ گم سم ہوکر رہ گئی تھی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے! اسے بچوں کے حوالے سے بہت پریشانی تھی۔ اگر وہ بچوں کو عثمان کے حوالے کردیتی تو خود ان کے بغیر زندہ کیسے رہ سکتی تھی! اور اگر اپنے پاس رکھتی تو ان کی ذمہ داری کون اٹھاتا! یہ سب کچھ سوچتے سوچتے اس کا ذہن مائوف ہوجاتا۔
فہمیدہ جب عثمان سے مل کر آئیں تو ان کا مطمئن اور مسکراتا چہرہ فاطمہ کو بہت عجیب لگا۔ امی اتنی خوش کیوں دکھائی دے رہی ہیں؟ کہیں صدمے کی زیادتی سے ذہنی رو تو نہیں بہک گئی؟ وہ گھبرا سی گئی۔
’’فاطمہ اٹھو، دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھ لو۔‘‘ فہمیدہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں۔
’’کیا ہوگیا ہے امی آپ کو…! خدارا ہوش میں آئیں۔‘‘ وہ واقعی پریشان ہوگئی۔
’’میری بچی! اللہ تعالیٰ نے سب کچھ ٹھیک کردیا ہے۔ عثمان نے بتایا کہ اس نے تمہیں صرف ایک طلاق دی تھی جسے سن کر تم بے ہوش ہوگئی تھیں۔ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے، یہی اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق کے درمیان کم از کم ایک ماہ کی مدت ضرور ہونی چاہیے۔ پھر اس نے جان بوجھ کر تمہیں یہ بات نہیں بتائی تاکہ تمہیں پتا چلے کہ طلاق کا انجام کتنا بھیانک ہوتا ہے۔‘‘ فہمیدہ نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
’’امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں! کہیں میں خواب تو نہیںدیکھ رہی ہوں…! میرے رب نے مجھ گناہ گار پر کتنا کرم کیا ہے، کیا اس نے مجھے معاف کردیا ہے؟‘‘ اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’جائو، عثمان سے مل لو، وہ تمہارا انتظار کررہا ہے۔‘‘ فہمیدہ نے فاطمہ کو بتایا۔
وہ بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں گئی جہاں عثمان بیٹھا تھا۔
’’عثمان مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کو بہت پریشان کیا۔ اِن شاء اللہ آئندہ مجھ سے ایسی غلطی نہیں ہوگی۔‘‘ اس کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
’’نہیں فاطمہ، قصور ہم دونوں کا ہے، اِن شاء اللہ ہم آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ چلو اپنے گھر چلتے ہیں جو ہماری چھوٹی سی جنت ہے، اور جہاں کے در و دیوار ہمارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ عثمان نے فاطمہ کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ اور شیطان دور سے ان کا گھر بستے دیکھ کر اپنے سر پہ خاک ڈال رہا تھا۔

حصہ