کیا والدین جانتے ہیں؟

574

قرآن کی پہلی وحی کی پہلی آیت کے پہلے لفظ ’’اقرا‘‘ نے اس بات کو واضح کردیا کہ پڑھنا یعنی علم حاصل کرنا مرد و زن کی تفریق کے بغیر بہت اہمیت رکھتا ہے، مگر آگے اللہ پاک نے یہ بھی تو فرمایا ہے ’’پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا۔‘‘ پڑھو، غور و فکر کرو، اپنی تخلیق پہ غور کرو، اور یوں علم کے سمندروں میں اترتے چلے جاؤ۔ غرض ہر علم کا سرچشمہ، جہاں سے علوم کی ابتدا ہوتی ہے، تمہارا رب ہی ہے، بس اس علم کی شاہراہ پر چلتے ہوئے یہ بات تمہیں بھولنی نہیں ہے۔ تعلیم حاصل کرکے تم سائنس دان بن گئے تو اللہ ہی کی بنائی ہوئی کائنات کی کھوج میں لگو گے، تم ڈاکٹر بن گئے تو اُسی کے بنائے ہوئے جسم کو گہرائی میں جانچو گے۔ فزکس، کیمسٹری، بوٹنی، زولوجی… ہر علم تمہیں محبت کرنے والے رب سے جوڑے گا، اس کی عظمت تمہارے دل میں بٹھائے گا، پھر اس کی عبادت میں بھی لطف آئے گا۔
اب اس سوچ کا موازنہ کرتے ہیں آج کل کی تعلیم سے، جہاں تعلیم حاصل کرنے والے ادارے رب سے جوڑنا تو دور کی بات لگتی ہے اِلّا یہ کہ کوئی مخلص اور خوفِ خدا رکھنے والا استاد کسی شاگرد کی زندگی بدل دے، لیکن اگر تعلیم کے حصول کے بعد ایک رب سے جڑکر زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کے بجائے دہریہ بن کر نکلے اور پھر ترقی کی منازل طے کرے تو کیا خاک مستقبل بنایا! دلائل ڈھونڈے تو رب سے دور کرنے کے لیے، اعتراض اٹھایا تو شعائرِ اسلامی پر… تو یہ تعلیم فتنوں کے دور میں ایک فتنہ بن گئی، اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کچھ لوگ بقرعید سے پہلے قربانی پر خرچ کرنے کے بجائے گھر کے باہر مفت واٹر کولر نصب کرنے پر زور دیتے ہیں، یہ اسی معاشرے کے پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں اور ان کو سراہنے والے بھی اَن پڑھ نہیں، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پھر کیا تعلیم حاصل نہ کی جائے؟ نہیں، تعلیم ہی تو ترقی کا زینہ ہے۔ یونہی تو عالم کو عابد پر فضیلت نہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے اہلِ علم ہی ہوتے ہیں۔ تعلیم کوئی بھی ہو، خود کو یا بچوں کو اللہ سے دور نہ ہونے دیں۔ جمعہ کا خطبہ، دین کی باتیں، ایمان کو بڑھانے والے واقعات… یہ زندگیوں کا حصہ ہوں تو تعلیم اللہ سے دور کرکے فتنہ نہیں بنے گی۔ جب تعلیم یافتہ افراد کی تنہائیوں میں خوفِ خدا کا غلبہ ہوگا تو زبانیں فساد کی نہیں بلکہ حکمت کی باتیں کریں گی، قلم میں سیاہی نہیں روشنائی ڈالی جائے گی، برش مورتیاں نہیں نظارے بنائیں گے، اس طرح افراد دہریے نہیں بلکہ مومن بنیں گے۔
دورِ اوائلِ اسلام جب مسلمان علوم و فنون میں ایک مقام رکھتے تھے، دینی اور دنیاوی تعلیم کے الگ الگ ہونے کا کوئی تصور نہ تھا… ابتدائی تعلیم گھروں سے حاصل کی جاتی، تعلیم کے لیے دور دراز سفر کیے جاتے۔ پھر وقت بدلا اور آہستہ آہستہ انسانی ذہنوں نے اپنے دلوں میں دولت کو پوجنا شروع کردیا۔ پھر وہی علم اہم ہوا جو دولت کے حصول کا ذریعہ ہو۔ وہی ترقی، ترقی کہلانے لگی جہاں پیسے کی فراوانی نظر آئی اور اچھا بینک بیلنس محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگیا۔ تعلیم نے اللہ سے اور اللہ کی معرفت سے دور کردیا۔ اللہ سے قریب کرنے والا علم کہیں پیچھے ہوگیا، اور جو علم اللہ سے دور کرکے مادیت کے فتنوں میں ڈال دے، اُس کی پیاس بھی جلدی بجھ جاتی ہے۔ پھر کتابوں کے ڈھیر نے پیسہ دیا اور بلاشبہ بہت دیا، شہرت دی، نام دیا، مرتبہ دیا، مگر سکون چھین لیا۔ جب تعلیم اللہ سے دور کردے تو انسان متکبر ہوجاتا ہے۔ زندگی کے میلے میں اگر اللہ ساتھی نہ ہو تو انسان بھیڑ میں تنہا رہ جاتا ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ اَن پڑھ افراد سے وہ رکشہ والا بہتر ہے جو ماں باپ سے نرم لہجے میں بات کرتا ہے، بیوی کی دل جوئی کرتا ہے۔ اس کی تعلیم نے اللہ سے دور نہیں کیا تو وہ فتنوں کا شکار بھی نہ ہوا۔
مگر حق تو حق ہے، جتنا دباؤ اتنا ابھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے معاشرے میں ایسے لوگوں کو بھی سامنے لاتا ہے، جن کے پاس ڈگریوں کے ڈھیر بھی ہوتے ہیں اور وہ مساجد کے منبر بھی سنبھالتے ہیں، جن کے دلائل جدیدیت کے پرستاروں کو اللہ سے قریب کرتے ہیں، جو فتنوں کے دور میں وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہہ جانے والوں کے سامنے تعلیم اور حکمت کے موتی رکھ کر ان کو اللہ سے قریب کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، جو تعلیمی اِداروں کو فحاشی کا اڈہ بننے نہیں دیتے بلکہ وہاں بھی دین کی محافل سجاکر، تعلیم کو فتنہ بننے سے بچاتے ہیں… ایسوں کو اللہ دنیا اور آخرت میں ترقیاں عطا کرے، آمین۔
اور یہ بات کہ جب تعلیم اللہ سے دور کردے گی تو اس کے کیا مضر اثرات ہوں گے؟ اہلِ علم و عقل سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ہم اکثر بزرگوں کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے بعد اسکول میں داخلہ لیا۔ گھروں میں فہمِ قرآن کی محافل معمول تھیں۔ مدرسے کی تعلیم کی تکمیل کے بعد اسکول کی تعلیم کی ابتدا ہوتی۔ مگر اب اسکول میں قرآن و حدیث کی تعلیم واجبی سی ہے۔ جب دو ڈھائی سال کا بچہ ہاتھ میں گٹار یا پیانو کی دھن پر رقص کرتا ہے تو مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے مسلمان کہلانے والے والدین اس پہ صدقے واری ہو رہے ہوتے ہیں۔ بنیادی اخلاقیات سے عاری، سلام دعا سے نابلد بچے اگر فر فر انگریزی بولتے ہوں تو مائوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!
تعلیم کی مظلوم داستان کا ایک اہم باب انگریزی کو اعلیٰ تعلیم کا معیار سمجھ لینا بھی ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو انگریزوں کے بچے کیوں اسکول جاتے؟ اور دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں جنت کی وسعت اور جہنم کی گہرائی تو بتائی گئی ہے لیکن اللہ کی پہچان نہیں بتائی گئی، اس کی محبت نہیں سکھائی گئی، جو کہ بہت ضروری تھی۔
الغرض، اچھی زندگی گزارنا سرچشمۂ ہدایت کے بغیر ممکن نہیں، اور وہ اللہ کی معرفت ہے۔ میری پوری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ علم و فن وہی اچھا، جو اللہ سے دور نہ کرے۔ آپ ڈاکٹر ہوں تو مریض سے مخلص ہوں، آپ استاد ہوں تو شاگرد کی زندگی بدل دیں، اس کو مایوسیوں سے دور کرکے اس کے اندر علم کی جستجو پیدا کریں، آپ تجارت کرتے ہیں تو دیانت داری سے کریں۔ غرض تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ جو بھی بن جائیں، اللہ کے خوف کو اپنے ساتھ رکھیں اور اُس تعلیم میں اپنی توانائیاں خرچ نہ کریں جس کے ذریعے آپ معاشرے کے لیے کوئی مفید کام نہ کرسکیں۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ فتنوں کے دور کا مقابلہ ہم علم و حکمت کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں۔

حصہ