شکاری

154

’’آصف بھائی دیکھیں، میری دوست پہلی بار آپ کی دکان پر آئی ہے، کچھ اچھے اچھے کارڈ دکھایئے۔‘‘
آصف نے صائمہ کو دیکھا تو پلک جھپکنا ہی بھول گیا، شاید یہی وہ صورت تھی جو اُس کے سپنوں میں بستی تھی، اور صائمہ… اس کے چہرے پر تو گھبراہٹ کے مارے پسینہ پھوٹنے لگا۔
وہ ایک دبے ماحول کی معصوم سی لڑکی تھی، اُس کے لیے اِس طرح کسی لڑکے کا سامنا کرنا بہت مشکل تھا۔ بس وہ اپنی دوست فیروزہ کو کہنی مارتی رہی کہ واپس چلے، کیوں کہ اُس کی تو کوئی ایسی دوست نہ تھی جسے وہ اس ویلنٹائن پر کارڈ دیتی۔ مگر فیروزہ ایک گھاگ شکاری تھی جس نے جان بوجھ کر معصوم اور بھولی بھالی صائمہ کو دوست بنایا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آلۂ کار بنایا تھا، کیوں کہ اس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ معصوم لڑکیوں کی آڑ میں دکانوں پر سے مال بٹورتی تھی۔
اُس نے کچھ مہنگے کارڈ منتخب کیے اور یہ ظاہر کیا کہ یہ صائمہ کو پسند آئے ہیں، اور آصف بھائی سے قیمت پوچھی۔ اور آصف جو پہلی نظر میں ہی اسیر ہوچکا تھا، اس نے پیسے لینے سے انکار کردیا۔
’’ارے نہیں، آپ کی اپنی دکان ہے، جو چاہے لے لیں۔‘‘
صائمہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی، اُس نے کارڈ فیروزہ کے ہاتھ سے لے کر واپس کائونٹر پر رکھ دیے۔ لیکن آصف نے کارڈ زبردستی فیروزہ کو تھما دیے اور اُس نے اشارتاً کہا کہ وہ باہر جاکر یہ صائمہ کو دے دے گی، لیکن اس کا طریقہ کار ہی یہ تھا۔ وہ سارے کارڈ خود لے کر چلی گئی۔
کچھ دن بعد وہ پھر زبردستی صائمہ کو لے کر آصف کی دکان پر گئی اور اِس بار کچھ گفٹ دکھانے کی فرمائش کی، اور اسی طرح بغیر قیمت ادا کیے کچھ اچھے گفٹ لے کر چلتی بنی۔
اور پھر یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی اتنا برا نہ ہوتا، مگر اب فیروزہ نے نیا پلان بنایا۔ اس نے دوستوں کو اپنی سالگرہ پر مدعو کیا اور صائمہ کے انکار پر اُس کے گھر پہنچ گئی اور اس کی امی کو اپنی سالگرہ کا بتاکر جو کہ وہ ایک ہوٹل میں ارینج کررہی تھی، صائمہ کو شرکت کی اجازت دلوائی، ساتھ ہی پک اینڈ ڈراپ کا وعدہ بھی کیا۔
صائمہ کی امی نے اس شرط پر اجازت دی کہ دعوت دوپہر میں کی جائے، رات کو اسے کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بالآخر لنچ پر لے جانے کا انتظام ہوا۔
اُدھر آصف کو یہ بتایا گیا کہ سالگرہ صائمہ کی ہے اور اسی نے آصف کو مدعو کیا ہے۔ آصف کے تو دل کی کلی کھل گئی، اس کے قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ دعوت کے لیے وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوا، بہت خوب صورت گھڑی خریدی جس کی قیمت صائمہ کے تصور سے بھی زیادہ تھی، مگر وہ گھڑی کون سا صائمہ تک پہنچنے والی تھی!
سالگرہ کی تقریب میں آصف بہت تیار ہوکر پہنچا اور جاتے ہی صائمہ کو مبارک باد دی اور گھڑی اس کی طرف بڑھائی۔
صائمہ نے حیران ہوکر آصف کو دیکھا، ایسے میں فیروزہ نے ہاتھ بڑھا کر تحفہ پکڑ لیا اور کہا ’’آصف بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہیں، آپ کے ہاتھ سے کہاں لیتی ہے صائمہ کوئی چیز! مجھے دیجیے، میں خود پہنچا دوں گی۔‘‘
صائمہ کی حیرانی مزید بڑھ گئی، اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فیروزہ کی سالگرہ کی مبارک باد اُسے کیوں دی جا رہی ہے؟ اسی حیرانی میں کھانا لگا اور فیروزہ نے کمالِ ہوشیاری سے تصویریں بنانی شروع کردیں۔ صائمہ انکار کرتی رہی مگر اس کی سنتا کون؟
اللہ اللہ کرکے دعوت ختم ہوئی۔ سب سے زیادہ حیرت تو اُس وقت ہوئی جب آصف نے دعوت کا بل ادا کیا جو کہ ہزاروں پر مشتمل تھا، اور یہ سب اسی غلط فہمی میں ہوا کہ سالگرہ صائمہ کی ہے۔
کھانے کے بعد آئس کریم کا دور چلا اور اچانک فیروزہ نے سب کے سروں پر بم پھوڑ دیا ’’ہیپی ویلنٹائن ڈے… کیسا رہا سرپرائز؟‘‘
’’کیا…؟‘‘ فیروزہ کی سہیلیاں ایک ساتھ چیخیں۔ ’’تم کتنی چیٹر ہو فیروزہ، تم نے سالگرہ کی آڑ میں ہم سے تحفے بٹورے اور اب…؟‘‘
’’بھئی دیکھو سیدھی سی بات ہے، اگر میں اپنی سالگرہ کی بات نہ کرتی تو صائمہ کی امی اسے آنے کی اجازت نہ دیتیں۔ آصف بھائی کو صائمہ کی سالگرہ کا نہ بتاتی تو یہ بھی نہ آتے، اور رہ گئیں تم سب… تو مرو نہیں، میں نے بھی تم سب کے لیے گفٹ رکھے ہیں۔ اور اس طرح آصف کی دکان سے لیے ہوئے گفٹ اور کارڈ سب کو دیے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آصف کی دی ہوئی گھڑی خود رکھ لی، یہ کہہ کر کہ ’’آصف بھائی! اتنی چیٹنگ تو چلے گی۔‘‘ اور آصف اس وعدے کے ساتھ کہ صائمہ کو بعد میں دوسری گھڑی لا دے گا، بات ختم کردی۔
لیکن صائمہ کو یہ سب بالکل پسند نہ آیا، اور اس کے بعد وہ محتاط ہوگئی اور پھر کبھی فیروزہ کے ساتھ آصف کی دکان پر نہ گئی۔
اُدھر آصف مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ صائمہ کے لیے آنے والا ایک بہت اچھا رشتہ اس کے والدین نے قبول کر یا اور منگنی کی تاریخ بھی طے ہوگئی۔ شادی امتحان کے بعد ہونا قرار پائی۔
یہ بات آصف تک فیروزہ نے ہی پہنچائی اور ساتھ ہی دوسرا گیم کھیلنے کی منصوبہ بندی کی۔ اس نے آصف کو اکسایا کہ وہ اپنا رشتہ بھیجے۔
آصف نے اپنی ماں کو مناکر صائمہ کے گھر بھیجا، مگر اس کے والدین نے سہولت سے انکار کردیا، کیوں کہ وہ شریف لوگ تھے اور زبان دے چکے تھے۔
اس بار فیروزہ نے آصف کے دل میں انتقام کی آگ بھڑکائی اور ساتھ ہی منصوبہ بھی بتایا، اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ ایک بھاری رقم کے عوض صائمہ کی کچھ اچھی تصویریں آصف کے حوالے کردیں، اور آصف نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ان تصویروں کے ساتھ اپنی کچھ تصویریں ملا کر بنوائیں اور اس کی کئی کاپیاں کروا کر صائمہ کے گھر بھیج دیں اور دوسرے اس گھر میں جہاں صائمہ کا رشتہ ہوا تھا۔
صائمہ کے گھر میں جیسے کوئی دھماکا ہوگیا۔
آصف نے ثابت کیا کہ نام نہاد محبت جب انتقام کا روپ دھارتی ہے تو کتنی خطرناک ہوجاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صائمہ کا رشتہ ختم ہوا لیکن آصف کا رشتہ اب بھی قبول نہ ہوا، کیوں کہ صائمہ نے خود اس فراڈیے سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔
لیکن یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ جہاں صائمہ کا رشتہ طے ہوتا، آصف اسی طرح تصویریں ان کے گھر بھجوا دیتا اور رشتہ ختم ہوجاتا، ساتھ ہی محلے میں ان کی شدید بے عزتی ہوتی۔ تنگ آکر ان لوگوں نے اپنا آبائی گھر فروخت کرکے ایک چھوٹے سے علاقے میں گھر خرید لیا۔ وہیں صائمہ نے ایک پرائیویٹ اسکول میں جاب کرلی اور گھر کی گاڑی کھینچنے لگی، کیوں کہ پے درپے صدمات نے اس کے والد کو بیمار کردیا تھا اور وہ جاب کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
اسی کسمپرسی میں زندگی گزر رہی تھی۔ غم اور بدحالی نے صائمہ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا۔ صبح سے دوپہر تک اسکول، اور دوپہر سے رات تک ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے وہ گھن چکر بن گئی۔ شادی کے تو نام سے ہی اب اسے خوف آتا۔
اس کی زندگی کو اذیت ناک بنانے والی ایک دوست نما دشمن فیروزہ تھی جو ایک معصوم اور بے گناہ لڑکی کو پیسے کی ہوس میں برباد کرگئی یہ سوچے بغیر کہ خدا کو کیا منہ دکھائے گی۔

حصہ