سچی اور کھری تنقید سے معیاری ادب پروان چڑھتا ہے

155

تحریک پاکستان میں مزاحمتی ادب نے اہم کردار ادا کیا،مصنف و دانشور پروفیسر عقیل دانش سے گفتگو
اردو زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج و اشاعت جن اہل قلم اور دانش کے عمل سے جاری ہے ان میں پروفیسر عقیل دانش بھی شامل ہیں‘ ان کی پیش رفت نے ایک جانب تمغۂ اقبال اور تمغۂ بابائے اردو ان کے سینے پر سجائے تو دوسری طرف ان کی تحریریں اخبارات کے صفحات پر بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ بی بی سی لندن میں بھی انہوں نے دس برس تک کام کیا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’پیرائیہ اظہار‘‘ 2010 ء میں اور نثری کتاب ’’حیاتِ دانش‘‘ 2021 ء میں شائع ہوئی۔ عقیل دانش ان دنوں برطانیہ سے کراچی آئے ہوئے ہیں۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے ان سے جسارت سنڈے میگزین کے لیے مکالمہ کیا جو قارئینِ ادب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک علمِ عروض کی کیا اہمیت ہے؟
عقیل دانش: عروض اُس علم کا نام ہے جس سے اشعار کے اوزان کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس علمِ کو سیکھے بغیر بھی شاعری ممکن ہے۔ بہت سے نامور شعرا کو علم عروض نہیں آتا مگر وہ کامیاب شعرا کی صف میں شامل ہیں۔ شاعری چونکہ ایک خداداد صلاحیت ہے لہٰذا اشعار ودیعت ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے۔ علم عروض نہ جاننے والے شعرا اپنے اشعار کو گنگنا کر وزن میں کر لیتے ہیں۔
جسارت میگزین: شاعری میں تنقیدی روّیوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
عقیل دانش: تنقید ادب کا ایک اہم ستون ہے‘ اس سے کھرے اور کھوٹے کا اندازہ ہوتا ہے اور شعور پیدا ہوتا ہے‘ تنقید کی اپنی زبان ہوتی ہے اور پیرائیہ اظہار ہوتا ہے۔ اچھی تخلیق کے لیے معیاری تنقید ضروری ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک الیکٹرانک میڈیا کے پھیلائو سے ادب میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟
عقیل دانش: الیکٹرانک میڈیا نے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے اثرات مرتب کیے‘ ادبی دنیا بھی اس ایجاد سے فیض یاب ہو رہی ہے‘ اب کتاب کے بجائے کمپیوٹر سے اپنی مطلوبہ ادبی معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔ ادبی پروگرام اب الیکٹرانک میڈیا کے باعث لائیو جارہے ہوتے ہیں اور ساری دنیا آپ کو سن اور دیکھ رہی ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے ’’آن لائن‘‘ مشاعرے شروع کیے۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
عقیل دانش: ادب زندگی سے جڑا ہوا ہے‘ اس کا سب سے بڑا موضوع انسان‘ زندگی اور کائنات ہے۔ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ اپنے ماحول کو نظم کرتا ہے ہر زمانے کی معاشرتی ضروریات بدلتی رہتی ہیں۔ میرا نظریۂ ادب یہ ہے کہ ہم شاعری میں زمینی حقائق بیان کریں‘ معاشرے کی بھلائی کے لیے اشعار کہیں۔ ادب میں نظریات کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کسی تحریک کو ادب کا حصہ نہ بنائیں جیسا کہ ترقی پسند تحریک نے غزل کے خلاف مہم چلائی اور نظم نگاری کو اہم قرار دیا۔ ادب کو ہدایات کے تحت نہیں لکھوایا جاسکتا ادب تو زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے رویے بدلتا رہتا ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں نظم کیا ہے اور نثری نظم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
عقیل دانش: اردو ادب میں دو قسم کا کلام ہوتا ہے نظم اور نثر۔ نظم کے لغوی معنی موتی پرونا اور آراستہ کرنا ہیں باالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کلام جس میں وزن اور موزونیت پائی جاتی ہے وہ نظم ہے۔ سانیٹ اور ہائیکو بھی نظم کی فہرست میں موجود ہیں لیکن نثری نظم کی اصطلاح نہ جانے کس نے ایجاد کی‘ کہا جارہا ہے کہ یہ مغرب سے درآمد شدہ ہے تاہم آج سے چالیس‘ پچاس برس قبل ادبِ لطیف کے نام سے نثر پارے لکھے جارہے تھے جو کہ آج کی نثری نظم سے زیادہ پاور فل تھے۔ نثری نظم میں ردیف‘ قافیہ اور غنائیت نہیں ہوتی اس کا کوئی رول ماڈل بھی نہیں ہے۔
جسارت میگزین: ادبی گروہ بندیوں اور متشاعروں کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
عقیل دانش: ہر زمانے میں ادبی گروہ بندیاں اور متشاعر موجود رہے ہیں‘ گروہ بندی کا نقصان یہ ہے کہ صرف اپنے گروہ اور اپنے قبیلے میں شامل افراد کی ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو‘‘ کے مصداق مسلسل تعریف اور توصیف جاری رہتی ہے اور جینوئن قلم کار کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی۔ متشاعروں کا سلسلہ بند نہیں ہو سکتا بہت سے دولت مند متشاعر اپنے اعزاز میں اپنے خرچ پر تقریبات منعقد کرکے مشہور ہونے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے بہت سے شعرا ایسے بھی ہیں جو معاشی مجبوریوں کے سبب اپنا کلام بیچ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔
جسارت میگزین: پاکستان اور برطانیہ کی اردو شاعری میں کیا فرق ہے؟
عقیل دانش: بات یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم اردو بولنے والوں میں بنگلہ دیشی‘ بھارتی اور پاکستانی شامل ہیں یہ وہ طبقہ ہے جو معاشی ضروریات کے تحت ہجرت کے عمل سے گزرا ہے لہٰذا وہاںکے اردو شعرا کے ہاں تنہائی‘ ہجرت‘ وطن سے دوری کے علاوہ برطانوی معاشرے اور برصغیر ہندو پاک کے معاشرتی اقدار کے اشعار نظر آتے ہیں برطانیہ میں اردو بولنے والے ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور مشاعروں میں بلا تفریقِ رنگ و نسل شریک ہوتے ہیں کیوں کہ یہ عمل اردو کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی شعرائے کرام نے ہر صنفِ سخن میں کام کیا ہے اب نوجوان نسل بھی شاعری کی طرف آگئی ہے۔ پاکستانی عوام جن مسائل و حالات سے گزر رہے ہیں وہ تمام موضوعات ہماری شاعری کا حصہ ہیں۔
جسارت میگزین: قاری اور کتاب میں فاصلے کی کیا وجوہات ہیں؟
عقیل دانش: ایک زمانے میں ہر علاقے میں لائبریری ہوتی تھی جس کے باعث ہر شخص کتاب سے جڑا ہوا تھا اب مہنگائی اور دیگر معاشی مصروفیات قاری اور کتاب کے درمیان حائل ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے کتب بینی کو ڈسٹرب کیا ہے اب لوگ تن آسان ہو گئے ہیں کمپیوٹر سے اپنی مرضی کی چیزیں نکال کر پڑھ لیتے ہیں۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
عقیل دانش: ہندوستان میں انگریزی حکومت قائم تھی‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی‘ معاشرتی ناہمواریاں اپنے عروج پر تھیں لہٰذا ترقی پسند تحریک کی پزیرائی کی گئی لیکن یہ تحریک سیاسی بنیادوں پر قائم تھی تاہم اس نے ادب میں بھی اپنا عمل دخل پیدا کیا۔ اس تحریک نے قلم کاروں پر زور دیا کہ آپ زندگی کے مسائل پر زور دیں‘ افسانوی چیزوں کو ترک کریں۔

غزل/عقیل دانش

زندگی میں سچ ہوا کرتا ہے اکثر دیکھنا
خواب میں پیہم مسلسل ایک منظر دیکھنا
سنگ باری گھر سے شیشے کے ہو لیکن سوچ کر
لوٹ بھی آتے ہیں دیواروں سے پتھر دیکھنا
پیش کش تو پھول کی ہے دل نشین لیکن جناب
آستینوں میں چھپے ہوتے ہیں خنجر دیکھنا
بغض و نفرت کو خلوص و دوستی کہتے ہیں لوگ
کن لباسوںمیں چھپے ہیں کیسے پیکر دیکھنا
ہے ابھی تو ابتدا بطلانِ رنگ و نسل کی
ایک دن بن جائے گا دریا سمندر دیکھنا
سر قلم جو راہِ حق میں ہو قلم ہو جائے گا
ہر در و دیوار پر اُگ آئیں گے سر دیکھنا
خیر ہے اس دور میں ہر گام پر پسپا مگر
ہار جائیں گے کسی دن شر کے لشکر دیکھنا
بارگاہِ رب میں ہوں مقبول دانشؔ کیا عجب
کچھ دعائیں سننے والوں کی بھی لے کر دیکھنا

حصہ