ہم کیوں مسلمان ہوئے

222

محمد صدیق (انگلستان )
جب میں مسلمان ہوا تو میرا اسلامی نام ’’صدیق‘‘ قرار پایا۔ میںشروع ہی میں اعتراف کرتا چلوں کہ میں اس انتہائی باعزت اور عظیم نام کا اہل نہیں ہوں‘ تاہم اس کے معنی و مفہوم اس اعتبار سے میرے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ میں پچھلے سالہا سال سے ’’صدق‘‘ یعنی صداقت اور سچائی کی تلاش میں سرگرداں تھا اور اب اللہ کے فضل سے بجا طور پر اعلان کر سکتا ہوں کہ میں نے اسے صحیح معنوں میں پا لیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں وہ نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صالحین کے ان جماعتوںکے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور کتنی اچھی ہے ان لوگوں کی رفاقت۔‘‘ (النساء: 69)
میں نے ایک Scottish Presbyterian مسیحی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ہمارا خاندان کچھ زیادہ مذہبی واقع نہیں ہوا تھا۔ تعلیم بھی بس واجبی سی تھی۔ ہر اتوار کو رسمی طور پر گرجے میں حاضری بھی دی جاتی تھی اور بائبل کا درس بھی سنا جاتا مگر دل چسپی اور اخلاص کا عنصر مفقود تھا۔ چنانچہ ہفتے کے باقی چھ دن ہمارے گھر میں مذہب یا بائبل کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے میں نے بائبل کا پرانا اور نیا عہد نامہ بالکل اسی نقطۂ نظر سے پڑھا تھا جس طرح عام طور پر نئی اور پرانی کہانیاں پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن جب ذرا ہوش سنبھالا اور شعور نے آنکھیں کھولیں تو میں نے ان کہانیوں پر اعتراض کرنے شروع کر دیے۔ خصوصاً ان کی ثقاہت کے بارے میں ذہن شکوک و شبہات سے بھر گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ ویسا کیوں ہے؟ کیا خدا کی منشا یہی ہے کہ میں عقل و خرد سے بے نیاز ہو کر بائبل پر اندھا اعتقاد رکھوں؟ اگر ایسا ہے تو انسانی شعور ادراک کا کیا مصرف ہے اور خدا نی انسان کو یہ نعمتیں کیوں عطا کی ہیں؟ پھر مسیحیت کے مختلف فرقے کیوں ہیں جب کہ ہر گروہ دوسرے کی شدومد سے مخالفت کرتا ہے؟ ان سارے سوالوں نے مجھے شدید الجھن میں مبتلا کر دیا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں اور کدھر جائوں؟ چنانچہ سالہال سال تک یہ حالت رہی کہ زندگی میں زبردست خلا محسوس ہوتا رہا۔ کسی بات میںجی نہیں لگتا تھا۔ معمولات پر اکتاہٹ کی کیفیت طاری رہتی تھی۔
میں پیشے کے اعتبار سے معالج ہوں یعنی Male Nurse میں اسپتالوں اور عام گھروں میں کام کرتا ہوں اور اس سلسلے میں بیرونِ ملک کے کئی سفر بھی کیے ہیں۔ میں نے اَن گنت مرتبہ زندگی‘ موت اور جسمانی اذیتوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ چنانچہ میں اکثر سوچتا تھا‘ اس سب کچھ کا آخر مطلب کیا ہے؟ کیا ہم دنیا میں صرف اس لیے آئے ہیں کہ تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اور پھر مر جائیں اور ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں؟ نہیں‘ میرا ضمیر پکار اٹھتا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں۔ میرا یقین پختہ ہوتا چلا گیا کہ خدا موجود ہے جو ہماری حفاظت کرتا ہے اور موت ہمارا خاتمہ نہیں کرتی۔ میرا یہ اعتقاد بھی تھا کہ خدا نے ہی حضرت مسیح کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا۔ مگر میں تثلیث کو ماننے سے سخت انکاری تھا۔
صرف یہی نہیں‘ میں فطرت اور کائنات کے نظام پر غور کرتا تو کسی شک و شبہے کے بغیر یہ بات عیاں ہو جاتی کہ اس سارے نظام کے پیچھے ایک قانون‘ ضابطہ اور حکمت کار فرما ہے اور اس کی باگ ڈور کسی برتر و بالا ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہ تھا کہ اگرچہ انسان قوانین طبعی کو بدلنے پر قادر نہیں مگر دنیا کی ہر چیز اس کے فائدے کے لیے ہے۔ چنانچہ میرے ذہن میں یہ بات آئینے کی طرح صاف ہوتی چلی گئی کہ خدا نے انسانی زندگی اور عمومی رویے کے لیے یقینا ایک صحیح قانون‘ متوازن دستو العمل اور حکیمانہ ضابطہ مقرر فرمایا ہوگا۔ میں اس ضابطے کی جستجو میں لگ گیا اور ایک غیر متوقع واقعہ نے مجھے میری منزل کے قریب کر دیا۔
ہوا یوں کہ ایک ایرانی مسلمان کینسر کی موذی مرض میں مبتلا تھا۔ مجھے اس کی نگہداشت کرنی پڑی۔ وہ جسمانی اور ذہنی کرب کی جس غیر معمولی حالت میں مبتلا تھا اس کا مشاہدہ مجھے اس سے پہلے کبھی نہیںہوا تھا۔ مگر حیرت ناک بات یہ تھی کہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی اور خدا پر اس کا یقین ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا تھا۔ وہ مر گیا اور مرنے سے تھوڑی دیر پہلے اس نے قرآن پاک منگایا اور اسے دیکھا۔ مجھے اس عظیم انسان کی تیمارداری پر بڑا فخر تھا۔ بار بار خیال آتاکہ وہ کون سا جذبہ تھا جو آخری دموں پر بھی اس شخص کو مسکرانے کی جرأت عطا کرتا تھا اور اس کی امید ٹوٹتی نہیں تھی۔ یہی تجسس مجھے اس کی قبر پر لے گیا۔ قبرستان کے قریب ایک عمارت میں ایک مسلمان مقیم تھا۔ اس نے مرحوم کی قبر تک میری رہنمائی کی اور میری خواہش پر اسلام کے بارے میں مجھے کچھ لٹریچر بھی فراہم کیا۔
میں نے فرصت کے اوقات میں اس لٹریچر کا مطالعہ کیا تو یوں لگا جیسے گھپ اندھیروں میں روشنی ایک ایک پاکیزہ کرن میرے سینے میں اتر آئی ہے۔ میں کئی مرتبہ وہاں گیا اور اسلام کے بارے میں کتابیں لیتا رہا۔ زبانی گفتگو بھی ہوئیں اور مسلمانوں نے میرے تمام سوالوں اور اعتراضات کا جواب دیا۔ آخر میں‘ میں نے قرآن کو سمجھنے کا ارادہ کیا اور اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ خدا کا شکر ہے جلد ہی گوہرِ مقصود ہاتھ آگیا۔ میںنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے خدا کو پہچان لیا۔ میں نے دیکھا کہ قرآن میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ قانون‘ ضابطۂ حیات‘ رہنما اصول اور سب سے بڑھ کر عقلی و شعور کی کارفرمائی۔ یہ عقل و شعور ہی ہے جو حق یعنی صدق کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ قرآن میں ہے:
’’کیا لوگوں کو تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو (خدا کے عذاب سے) ڈرائے اور اہلِ ایمان کو خوش خبری دے کہ اللہ کے ہاں ان کا مرتبہ بلند ہے۔‘‘ (سورۃ یونس۔ 2)
’’قدم صدق‘‘ کے معنی مضبوطی سے جم جانے کے بھی ہیں۔ میں یہ آیت پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ خوش خبری میرے لیے بھی ہے۔ اب شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ حق عیاں ہو کر سامنے آگیا تھا۔ چنانچہ 28 ستمبر 1958ء کا یادگار دن تھا جب میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔
الحمدللہ رب العالمین‘ مسلمانوں میں مجھے بہت سے اچھے اور مخلص دوست ملے۔ اب میری زندگی اور معاملات بامقصد بھی ہیں اور بامعنی بھی۔ اب میں دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتا ہوں تو مجھے اکیلے ہونے کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔ خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے۔جو میری رہنمائی کرتا ہے۔

حصہ