تنہائی کے ساتھی

333

’’ٹھک… ٹھک… ٹھک…‘‘ دروازہ بج رہا تھا۔
اس نے جائے نماز تہہ کی اور دروازہ کھولا۔ سامنے فرش پہ ناشتے کی ٹرے رکھی تھی۔ اس نے ٹرے دھیرے سے اٹھائی اور ددوازہ بند کر لیا۔ میز پہ ٹرے رکھ کے وہ کھڑکی کی طرف آئی خوب صورت، جاذب نظر پھول دار پردہ ہٹایا۔ دور اُفق پر سورج کی کرنوں نے تمام مناظر کو روشن کر دیا تھا۔ ایک نئے دن کی نوید‘ زندگی کی امید۔ سرد آہ بھر کر وہ اپنے بیڈ کی جانب بڑھی جہاں ناشتا اس کا منتظر تھا۔
نوالہ جیسے اس کے حلق میں پھنس رہا تھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کچھ دن پہلے کے مناظر فلم کی طرح نگاہوں کے سامنے چلنے لگے۔
دسترخوان پہ موجود خاندان کے سبھی افراد… چھوٹی موٹی نوک جھونک۔ زندگی سے بھرپور منظر۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ اسے یوں تنہا رہنا پڑے گا۔ یہ تنہائی اُسے گھن کی طرح کھانے لگی۔ اچانک کھڑکی کے باہرمنڈیر پہ ایک ننھی سی چڑیا آکر بیٹھی اور چوں چوں کرنے لگی۔ اس نے غور سے اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس نے ڈبل روٹی چورا کر کے منڈیر پر چڑیا کے کھانے کا بندوبست کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک ،پھر دو اور پھر چار سے پانچ چڑیاں خوشی خوشی ڈبل روٹی کا کھانے لگیں۔
اسے یہ منظر بہت بھایا۔ اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ روز صبح سویرے چڑیاں منڈیر پہ آ کر چوں چوں کرنے لگتیں اور وہ خوشی خوشی کبھی رات کی بچی روٹی اور کبھی ناشتے سے ڈبل روٹی بچا کران کو ڈال دیتی۔ وہ جو زندگی سے بے زار ہو چکی تھی‘ اُس کے اندر جینے کی امنگ پیدا ہو چکی تھی۔ اسے اس کی تنہائی کی ساتھی مل گئی تھی۔
اس کی سوچوں کا دھارا اب ایک خاص رُخ پہ مڑ چکا تھا۔ وہ قدرت کے مناظر پہ غور و فکر کرنے لگی کہ اللہ رب العزت نے ان چڑیوں کا رزق اس کے ہاتھوں دلوا کر یہ بتایا کہ وہ مایوس نہ ہو‘ اس کی تنہائی کا اسے پورا احساس ہے جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس نے اس کے دل بہلانے کا کیا خوب سامان کیا تھا۔ اسے موقع دیا کہ وہ اپنے رب کو پہچانے‘ اس کے قریب ہو جائے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں وہ اپنے محبوب رب سے دور ہو گئی تھی۔ کچھ دن پہلے وہ یہی سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہی تھی کہ اللہ اس سے ناراض ہو گیا ہے جبھی توکورونا کے اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ مگر اس چھوٹی سی مخلوق نے تو سوچوں کا رخ ہی پھیر دیا۔ اللہ تو اس سے بہت پیار کرتا ہے جبھی تو اس نے اس ننھی مخلوق کو بھیجا کہ جا میری بندی اداس ہے‘وہ شیطان کے پھیلائے مایوسی کے جال میں پھنس کر اپنے رب کی رحمانیت پر شک کر بیٹھی ہے۔
’’ٹھک… ٹھک… ٹھک…‘‘ پھر دروازہ بجا اس نے سامنے دیکھا اس کا محبوب شوہر اور بچے اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑے تھے‘ اُن کی آنکھوں میں اک آس تھی‘ اُس کی طرف سے امید افزا مسکراہٹ کے طلب گار تھے۔
آج سے پہلے تک وہ اپنے پیارے رشتوں سے بد ظن ہونے لگی تھی جنھوں نے اسے تنہا کمرے میں چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سوچا ہی نہیں کہ یہ تو ان کی بہتری کے لیے تھا‘ کیا وہ یہ چاہتی کہ اس کے پیارے بھی اس تکلیف سے گزریں۔
’’نہیں…‘‘ ایک چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ ’’ہرگز نہیں…اللہ نہ کرے۔‘‘ اس نے مسکرا کر اپنے پیاروں کو دیکھا۔ کھانے کی ٹرے اٹھا کر بستر پہ رکھی۔جائے نماز بچھا کر اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔اس کے لب ہل رہے تھے ’’تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔‘‘ وہ جان گئی تھی کہ یہ وبا رب کی طرف سے ایک موقع ہے اپنے بندوں کے لیے کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں۔

حصہ