سراج منیر کا انٹریو(آخری قسط)

427

طاہر مسعود: اچھا فیض صاحب سے ایک بار میں نے انٹرویو کیا تھا تو اس میں جو گفتگو ہوئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ بھئی رینے گینوں کو خود فرانس میں ہی کوئی نہیں جانتا یا فرانس میں ہی ان کے اثرات بہت کم ہیں چہ جائے کہ ان کو آپ یہاں متعارف کرائیں۔
سراج منیر: بالکل صحیح! گویا کسی بات کے حق میں ہونے کی پہلی بنیادی دلیل یہ ہے کہ فرانس میں اسے زیادہ جانا جائے۔
طاہر مسعود: چوں کہ ان کا تعلق فرانس سے تھا لہٰذا جو لکھنے والا ہوتا ہے وہ پہلے گردوپیش کو متاثر کرتا ہے۔ ان معنوں میں ان کا کہنا یہ تھا کہ جب وہ اپنے گردوپیش کو متاثر نہیں کرسکے تو…
سراج منیر: کوئی ضروری نہیں، مثلاً ابن العربی جو تھے وہ اسپین کے رہنے والے تھے۔ متاثر انہوں نے دمشق اور انڈیا کو بہت کیا۔ وہاں تو ان کا نام بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ تو کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ جب آپ حق کے Context میں بات کررہے ہیں تو پہلا سوال یہ ہے کہ رینے گینوں Relevant کن لوگوں کے لیے ہیں۔ رینے گینوں ان لوگوں کے لیے Relevant ہیں جو اپنی نجات کا راستہ اسلام میں دیکھتے ہیں یا مابعدالطبیعاتی حقائق میں دیکھتے ہیں۔ عہد جدید کا فرانس نجات کے راستے کا تصور نہیں رکھتا تھا۔ عہد جدید کے فرانس کی ساری تاریخی Movement جو ہے وہ Absurdism کی طرف ہے۔ لہٰذا رینے گینوں شاید تین سو سال بعد جا کر وہاں Relevant ہوں گے۔ بعض اوقات ایسا بھی تو ہوا ہے ناانسانی تاریخ میں، بلکہ بہت ہی اچھی مثال آپ دیکھیے کہ تراجم جو ہیں ارسطو کے وہ مسلمانوں کے اثرات سے بہت پہلے کرلیے گئے تھے لیکن مغرب کی صورت حال Medivial مغرب کی صورت حال اس کے اثرات کو قبول کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں تھی، لہٰذا ارسطو اور افلاطون کے ان ترجموں کو کسی نے نظر بھر کے بھی نہیں دیکھا۔ مگر جب ابن رشد کا Influence پہنچا اور زمین تیار ہوئی تو ارسطو اور افلاطون اس سے Relevant ہوگئے۔ تو یہ تو بڑا Simplistic جواب ہے بہت Simplistic ہے اور فیض صاحب جیسے سادہ دل آدمی تھے، ان سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
طاہر مسعود: اچھا آپ نے تنقیدی مضامین بھی لکھے، افسانے بھی لکھے ہیں، شاعری بھی کی ہے، کررہے ہیں تو آپ نے اپنے لیے کون سا میدان منتخب کیا ہے یا سارے ہی میدان آپ کے ہیں؟
سراج منیر: اصل بات یہ ہے کہ جو میدان کا انتخاب ہوتا ہے نا یہ… ایک تو سچی بات ہے ذرا اس اعتبار سے کہ یہ شعبے بنے ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں تو شاید کسی شعبے میں کچھ تھوڑا سا کام کرلوں۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں جس مسئلے کا شکار ہوں اس میں مجھے بہ یک وقت کئی سطحوں پر کام کرنا پڑے گا۔ اس کی بعض سطحیں ایسی ہیں جو Rational Thought کی گرفت میں آجاتی ہیں تو تنقیدی مضامین میں انہیں بیان کردیتا ہوں۔ بعض چیزیں ہیں جو کسی تخلیقی میڈیم کے واسطے سے سمجھ میں آتی ہیں تو بعض افراد یہ جو میں نے مضامین لکھے ہیں، ان میں کچھ ذکر آگیا ہے۔ بعض اس کی پراسرار سطحیں ہیں جو گرفت میں نہیں آتیں تو میں کوشش کرتا ہوں کہ شاید کہانی کے ذریعے گرفت میں آجائیں یا شاید شاعری کے ذریعے۔ تو یہ ایک Private Activity ہے کہانی اور شاعری۔ اور میں تو ڈر کے مارے شائع بھی نہیں کراتا تھا اپنی چیزیں۔
طاہر مسعود: لیکن بنیادی حوالہ تو کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ جیسے عسکری صاحب نے افسانے بھی لکھے ہیں، تنقید بھی لکھی ہے لیکن بہرحال ان کی جو شناخت یا ان کی جو پہچان ہے وہ تنقید کے حوالے سے ہے۔ سلیم احمد صاحب کے ہاں معاملہ یہی ہے یا دوسرے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
سراج منیر: دیکھیے! سلیم احمد کی مثال آپ نے بہت اچھی دی ہے اور آپ نے ہی ان سے انٹرویو میں پوچھا تھا کہ شاعری کے بارے میں تو وہ اپنے آپ کو بنیادی طور پر ڈراما نگار سمجھتے ہیں یعنی جو اپنی بنیادی حیثیت کا تعین کرتے تھے تو عموماً کہا کرتے تھے کہ میں تو ڈراما نگار ہوں بنیادی طور پر اور دنیا ان کو نقاد کہتی تھی، تو آدمی کا اپنے بارے میں تصور کچھ اور ہوسکتا ہے۔ اگر مجھے فرصت ہو تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں یہ سارے کام ایک ساتھ کروں اور میرے عہد کے جن جن طبقات میں ان کی Relevance پیدا ہو وہاں یہ مفید ثابت ہوں لیکن زیادہ تر کام میں نے تنقید میں ہی کیا ہے۔ زیادہ تر توجہ میں نے تنقید کو ہی دی ہے۔ آئندہ کا حال معلوم نہیں۔ شاعری میں مجھے خود سے بڑی توقع بھی نہیں۔ یعنی توقع تو خیر تنقید میں بھی کوئی اتنی نہیں۔ اس لیے کہ مسائل کی نوعیت اتنی پیچیدہ اور اتنی بڑی ہے کہ آدمی کانپ جاتا ہے اور اسے شبہ ہوتا ہے کہ میں اس کی چند ابتدائی باتوں کو بھی گرفت میں لے سکوں گا یا نہیں لے سکوں گا۔ تو بہت عرصے تک تنقید لکھنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ جو بنیادی مسائل ہیں وہ تو اب گرفت میں کچھ آنے شروع ہوئے ہیں اور اس کا مقصد بھی خلق خدا کو فائدہ پہنچانا نہیں ہے بلکہ میرا مزاج کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ جب تک میں کسی مسئلے پر تفصیل سے نہ لکھوں یا بات نہ کرلوں، وہ مسئلہ خود اپنی جہالت میں میرے ذہن میں واضح نہیں ہوتا۔ ویسے اب تک جو کام میں نے کیا ہے وہ زیادہ تر تنقید میں ہے اور کچھ حصہ اس کا آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ تہذیب سے متعلق ہے جس کی اب کتاب آنے والی ہے۔
طاہر مسعود: اب تو آپ ادارئہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ ادارے کی تاریخ کے سب سے کم عمر ڈائریکٹر ہیں تو دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ منصب سنبھالنے کے بعد جو کچھ اب تک آپ نے کیا ہے، اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور دوسرے یہ کہ کہا جاتا ہے کہ نہایت کم عمری میں ایک بڑے منصب پہ آپ کو فائز کردیا گیا ہے، اس کے دفاع میں آپ کیا کہیں گے؟
سراج منیر: پہلی بات تو یہ ہے کہ ادارئہ ثقافت اسلامیہ جس وقت میری خواہش کے خلاف میرے حوالے کیا گیا اور اس کے گواہ موجود ہیں، تو میں تو انگلستان اور سعودی عربیہ سے چھٹی پہ آیا ہوا تھا۔ تو اس وقت کے بعد لوگوں نے اور ادارے کی جو Goverming Body ہے اس کے لوگوں نے مجھ سے پہلے بھی کہا تھا کہ میں ادارے میں آجائوں اور اس وقت تو میں بہت ہی کم عمر تھا۔ اس لیے کہ یہ چار سال پہلے کی بات ہے۔ پتا نہیں اس وقت کیا ہوتا؟ بہرحال، جب انہوں نے یہ میرے حوالے کیا تو ادارہ ان کے اپنے قول کے مطابق ڈیڈ (مردہ) تھا اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ بات کہی گئی تھی کہ اس کی کتابیں مفت تقسیم کرنا ہیں کیوں کہ وہ کتابیں فروخت نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت سے عالم یہ ہے کہ میں نے ادارے میں جو کچھ کیا، ایک سال کا عرصہ اداروں کی تعمیر وتشکیل میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلی تو میری کوشش یہ تھی کہ مسلم تہذیب جو کتاب کی پروڈکشن میں دنیا کی اعلیٰ ترین تہذیب سمجھی جاتی ہے یعنی کتاب کو مسلمانوں نے اتنی خوب صورتی اور اتنی محبت دی چوں کہ ان کی تہذیب کی بنیاد کتاب ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کا آر کی ٹیکچر بھی کتاب پر مبنی ہے اور وہ اپنے آرکی ٹیکچر میں دیواروں کی تزئین اس اعتبار سے کرتے ہیں جس اعتبار سے کتابوں کے حادشیوں کی تزئین کرتے ہیں۔ میں نے پہلی کوشش یہ کی کہ کتابوں کا جو صوری حسن ہے وہ مسلم جمالیات کا Representative (عکاس) ہو، چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے ہی ہم اپنی کتابیں لائے تو ان کا جو پروڈکشن کا نظام اور ان کی جو پیش کش تھی اس نے پاکستان میں کتاب کی پروڈکشن کے نظام کو متاثر کرنا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ بہت سے پبلشرز نے ہمارے تائٹل من و عن نقل کرلیے اور ان میں بڑے بڑے پبلشر شامل ہیں۔ پہلے دو تین کتابیں آتی تھیں سال میں۔ تو ابھی مجھے یعنی باقاعدہ کام شروع کیے ہوئے تقریباً ایک سال ہوا اور 23 کتابیں آچکی ہیں۔ ان 23 کتابوں میں بہت Relevant موضوعات پر کتابیں ہیں اور تقریباً 40 سے زیادہ کتابوں پر یا تو کام ہو کے وہ مسودے ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں یا کہ ان پر کام ہورہا ہے اور وہ ساری کتابیں کم و بیش عالمی سطح کی کتابیں ہیں اگرچہ مجھے اپنی زبان سے نہیں کہنا چاہیے کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادارے کی تاریخ میں اس سے زیادہ Productive سال کوئی اور نہیں آیا اور یہ میٹنگ میں کہی گئی بات ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں مسلمانوں کے وہ ادارے جو تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا ایک مخصوص رول ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس انٹرنیشنل چیلنج کو سامنا رکھا جائے جو اس وقت مسلم دنیا کو درپیش ہے۔ میں نے اس امر کی کوشش کی ہے کہ اس چیلنج کے بالمقابل ہم ادارئہ ثقافت اسلامیہ کو اس قابل بنائیں کہ وہ ایک طرف مسلم تاریخ کے قیمتی تجربوں کا تحفظ کرے۔ دوسری طرف وہ عہد جدید میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دے اور تیسری طرف اس کا ایک ایسا دائرہ ہو جو اسلام کی تہذیبی معنویت مختلف سطحوں اور تہوں پر ثابت کرے۔ چناں چہ اس سلسلے میں بہت Relevant مواد تیار ہورہا ہے اور ملک کے بہت نمایاں لوگ اب ادارے کے لیے کام کررہے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ادارے میں جو کتابیں چھپ جاتی تھیں وہ کتابیں کہیں ملتی نہیں تھیں۔ چناں چہ ادارے کی کتابوں کی Distribution میں چھ ماہ کے اندر چار سو فی صد کا فرق پڑا ہے۔ اور یہ پاکستان میں اداروں کی تاریخ میں سب سے بڑا واقعہ ہے۔ Distribution کے سلسلے میں۔ جہاں تک رہ گیا کم عمری کا معاملہ تو میں آج سے سات آٹھ سال پہلے بھی بین الاقوامی اداروں سے وابستہ رہ چکا ہوں۔ ایسے ادارے جو عالمی سطح پر کام کررہے ہیں اور ان کے ریسرچ ڈویژن میں سے بعض کی تنظیم بھی میں نے کی ہے۔ وہاں بھی ابتدا میں یہ کم عمری آڑے آتی تھی لیکن یہ میرا ذاتی قصور نہیں ہے۔ اس کے لیے میں جواب دہ ہو نہیں سکتا۔
اب دیکھیے! ہمارا رسالہ ’’المعارف‘‘ ہے۔ اس کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اس کا دائرہ کار بھی بہت محدود ہوگیا تھا۔ معیار بھی گر گیا تھا۔ اب تک دوشمارے اس کے آئے ہیں، سہ ماہی بھی ہوگیا ہے اور اب ایسا مواد آتا ہے جو نہ صرف علمی سرکل کو متاثر کررہا ہے تحقیقی اعتبار سے ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری تاریخ کو براہ راست متاثر کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ اب ہم کچھ اور جہتوں میں کام کررہے ہیں۔ آج کل تیاری ہورہی ہے، سیمینار کے سلسلے میں۔ پہلے بھی ہم نے کچھ جلسے بڑے کیے ہیں، مولانا حامد مدنی کے سلسلے میں چار پانچ جلسے پچھلے سال کیے گئے۔ اب ہم ایک بہت بڑا سیمینار کررہے ہیں، خطاطی پر اور غالباً وہ بین الاقوامی سیمی نار ہوگا۔ اس کے لیے کہ ہم نے مختلف ملکوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ تو کئی جہتوں میں بہ یک وقت کام ہورہا ہے اور یہ کوئی میرا ذاتی کارنامہ ہیں ہے بلکہ ادارے میں جو کارکن ہیں اور جنہیں کوئی Motivation یا سمت سفر مہیا نہیں تھی، وہ میں کوشش کرتا ہوں کہ فراہم کروں۔ تو الحمدللہ! یہاں بڑے سینئر لوگ موجود ہیں۔ مولانا انیس مدنی ہیں۔ 80 سال ان کی عمر ہے۔ برصغیر کے بڑے علما میں ان کا شمار ہے۔ مولانا اسحاق بھٹی ہیں اور ان کے علاوہ اور لوگ ہیں تو سب یہ ان لوگوں کا کیا دھرا ہے۔ میرا کوئی اتنا اس میں دخل نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ اس کے جو انتظامی معاملات ہیں جو ان کو سہولتیں چاہیے ہوتی ہیں، اس کی میں دیکھ بھال کرتا ہوں۔ اب مثلاً ایک اور منصوبہ ہے Research Guidance Centre جس پر کام ہورہا ہے۔ کیوں کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ملک میں ریسرچ کی Methodolgy میں ایک زوال کی شکل نظر آرہی ہے۔ وہ دائرہ کار جو اسلامی تہذیب و ثقافت کا ہے اور جس ریسرچ Methodology پر عمل ہورہا ہے وہ اسلامی تہزیب کے مظاہر کو سمجھنے کے لیے ناکافی ہے بلکہ اکثر جگہوں پر گم راہ کن ہے۔ تو اب کوشش کررہے ہیں کہ ایسی تربیت کا نظام اس ادارے سے پیدا ہوجائے جو مفید ہو۔ ہم نے بہت بڑے اور ریسرچ میں گہری نظر رکھنے والے لوگوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ اسی طرح ادارے سے باہر ایک Net work ہم نے محققین کا قائم کیا ہے جو ادارے کے لیے کام کرتے ہیں۔ تو اس طرح رفتہ رفتہ کوشش یہ ہے کہ ادارہ موثر ہو اور خیال کی ایک نئی سطح پیدا کرے۔ اب یہ ہوسکتا ہے یا نہیں، یہ بہت کچھ خارجی حالات پہ Dependکرتا ہے۔

حصہ