نئے سحر کے طلوع ہونے کی امید

262

آج سوشل میڈیا پر اپنے حق کے لیے احتجاج کرتی کرناٹک کی بہنوں کی وڈیوز دیکھی تو بڑا فخر محسوس ہوا کہ، جن با پردہ لڑکیوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، جن کے منھ سے آواز بھی بہت کم نکلتی تھی انھوں نے آج بتادیا کہ پردہ تو ہم اپنی شریعت پر عمل کرنے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے کرتی ہیں، اور ہماری خاموش مزاجی ہماری حیا کی وجہ سے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بزدل ہیں ہم آواز نہیں اٹھا سکتی، بات جب ہمارے حق کی آئیگی، تو یہی بند زبانیں ایسا بولنے لگے گی کہ ایک تن تنہا لڑکی سے بھیڑ کانپنے لگے گی، ہمیں کمزور سمجھ کر ہمارا حق چھیننے کی کوشش نہ کی جائے، ہم اپنا حق پانے کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے،.. سلام ہے ملت کی ان بہنوں اور بیٹیوں کے حوصلوں، کو انھیں دیکھ کر یقین ہوگیا ہے کہ آنے والے دن اسلام کے ہیں، کمزور سمجھی جانے والی لڑکیوں میں جب اتنی ہمت آجائے تو یقیناً یہ ایک نئے سحر کے طلوع ہونے کی امید ہے، انھیں دیکھ کر بڑا حوصلہ مل رہا کہ یہ مستقبل کی مائیں ہیں، یقیناً ان کی گودوں میں پلنے والی نسلیں بہادر اور مجاہد ہونگی، جنھیں یہ سبق پڑھایا جائے گا کہ اپنا حق پانے کے لیے کسی سے بھیک نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ اپنا حق چھین کر لینا چاہیے، انھیں یہ درس دیا جائے گا کہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلینا بہادری نہیں بلکہ حالات کو بدل دینا بہادری ہے.. اور یہ سبق پڑھانے والی وہ مائیں ہونگی جو اس وقت اپنے حق کی لڑائی لڑ رہی ہے، جو حالات سے سمجھوتا کرنے کے بجائے، حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں،.. ایک طرف تو قوم کی یہ بیٹیاں اپنے حق کی لڑائی لڑنے کے لیے میدان میں آگئی ہیں، اور دوسری طرف اب بھی قوم کا ایک بڑا طبقہ مصلحت اور بزدلی کا لبادا اوڑھ کر سویا ہوا ہے، ان حالات میں مجھے مولانا مودودی کے کہے گئے وہ جملے بہت یاد آرہے ہیں، آپ نے کہا تھا کہ،……..’’یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘ اور پانی کے بہاؤ پر پہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔…..

حصہ