اہنسا کے پجاری اور حجاب

407

’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے، میں عمومی طور پر جیسے کالج جاتی ہوں ویسے گئی تھی۔ مجھے باہر ہی گروپ بنا کر لڑکوںنے روک کر کہا کہ برقعے میں رہنا ہے تو گھر چلی جا اور کالج جانا ہے تو یہ برقعہ اتار کر جانا ہوگا۔ مگر میں اندر آگئی۔
پھر میں نے سوچا کہ میں چپ چاپ کلاس میں چلی جائوں گی؟ مگر وہاں لوگ اتنے نعرے لگا رہے تھے کہ برقعہ اتار، برقعہ اکھاڑ ، جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔وہ کوئی پچاس کے قریب تھے، میرے قریب آ رہے تھے اور اورنج رنگ کا کپڑا گلے میں ڈالے ہوئے تھے جسے میرے منہ کے سامنے لہرا رہے تھے اور میرے پیچھے آ رہے تھے۔
کچھ انسانیت نہیں ہے ان میں وہ چِلا رہے تھے کہ برقعہ اتارو، چلی جائو۔سب مجھے ڈرا رہے تھے۔ میں ڈر گئی تھی، جب میں ڈر جاتی ہوں تو اللہ کا نام لیتی ہوں، میں نے بھی اس موقع پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، جس نے مجھے ہمت دی۔
ہم عمومی طور پراندر کلاس میں جاتے وقت برقعہ اتار دیتے ہیں صرف بال چھپاتے ہیں۔ مگر یہ لوگ تو مجھے کیمپس میں آنے سے روک رہے تھے ، کچھ طلبہ کالج کے تھے مگر زیادہ تر باہر کے لڑکے تھے ، جو مجھے کالج داخل ہونے اور برقعہ اتارنے کا کہہ رہے تھے۔ پرنسپل بھی وہاں پہنچ گئے اور میرے اساتذہ بھی تھے جو مجھے سپورٹ اور تحفظ دے رہے تھے۔
مجھ سے پہلے چار طالبہ کالج آئی تھیں، ان کو تو کمرے میں بند کر دیا تھا، وہ تو ڈر کر رو کر چلی گئیں۔ مجھے بھی ڈرا رہے تھے مگر میں نہیں ڈری میں نے ان کو اللہ اکبر کی صورت میں جواب دیا۔ پرنسپل میری سپورٹ میں تھے۔ کالج میں ہمارے پرنسپل نے اجازت دی کہ تم جیسے پہلے آتی تھی ویسے ہی آئو۔
میں سمجھتی ہوں کہ حجاب پہننا چاہیے۔ مجھے اپنے بھارتی آئین پر بھروسہ ہے، وہ اس کے خلاف نہیں جائے گا۔ دیکھتے ہیں ہائی کورٹ کے فیصلے کو۔ میں بہت ہمدردانہ درخواست کرتی ہوں کہ میں کسی کاسٹ، کسی ہندو مسلمان کی بنیاد پر بات نہیں کر رہی۔ میں صرف تعلیم اور اپنے حق کے لیے کھڑی ہوں۔ مجھے تعلیم میں آگے نہیں بڑھنے دے رہے ، کلاس میں ہی داخل نہیں ہونے دے رہے۔ میں تو عرصے سے اسی طرح کالج آ رہی ہوں، کبھی کسی کو مسئلہ نہیں ہوا۔
میرے کالج کے پرنسپل کو یہ لڑکے بول رہے ہیں کہ اگر یہ لڑکیاں برقعہ پہن کر آئیں گی تو ہم بھی ایسے کپڑے پہن کر ہی آئیں گے۔ ہمیں ان سے کوئی دقت نہیں کہ وہ کیا پہن کر آئیں ، ہمیں اپنے لیے حجاب کی اجازت اور تعلیم کی آزادی چاہیے۔ یہ حجاب تو کوئی آج کی بات نہیں ہم برسوں سے پہن رہے ہیں ، اب اچانک کیوں لباس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے؟ پرنسپل اور اساتذہ ہمارے ساتھ ہیں، یہ آئوٹ سائیڈر آکر ایسا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت تعریف اور لوگ اتنا پیار و ہمت دے رہے ہیں بہت شکریہ سب کا۔‘‘
سوالات کو چھوڑ کر یہ تحریر اُس انٹرویو سے لی گئی ہے جو بھارتی ریاست کرناٹک میں مقیم مسکان خان نے بی بی سی کو دیا۔کرناٹک میں یہ معاملہ اس ہفتے کا نہیں بلکہ کئی کالجوں میں ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر وہیں کی گورنمنٹ گرلز پری یونیورسٹی کالج ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں چار طالبات سیڑھیوں پر بیٹھی ہیں اس جرم میں کہ انہوں نے اسکارف، حجاب اور برقعہ اتارنے سے منع کر دیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یا تو خاتون استاد مقرر کی جائے یا پھر ہمیں حجاب کرنے دیا جائے۔ کالج انتظامیہ نے ان کو کلاس لینے کی اجازت نہیں دی۔ یہ احتجاج اور یہ پابندی کا معاملہ وہاں سے ہندو انتہا پسندوں کے پاس یرغمال ہوتا پورے شہر میں پھیل گیا۔ ہندو انتہا پسندوں نے اس معاملے کے حل کے لیے بہت دن لگائے سوچنے میں، ابتدائی بیانیہ میں یہ کہا گیا کہ ’’کالج یونیفارم میں حجاب کی گنجائش نہیں۔‘‘ مگر جب سوشل میڈیا کی بہ دولت کالج کے پراسپیکٹس میں حجاب کی اجازت کے وڈیو شاٹس چلائے گئے تو پھر کہا گیا کہ ’کیمپس میں آسکتے ہیں مگر کلاس نہیں لے سکتے۔ اب یہاں ملکی قانون کی آڑ لی گئی اس کے جوا ب میں مسلمان بھارت کا ’’سیکولر آئین‘‘ لے آئے۔ اب پھر بات نہ بنی تو بیانیے کی ہار مانتے ہوئے ہندو طلبہ نے بھگوا گھمچا (زعفرانی دوپٹہ) پہن کر آنا شروع کر دیا کہ اگر مسلم طالبات برقع پہنیں گی تو ہم اپنا (مبینہ مذہبی رنگ زعفران) کپڑا پہن کر آئیں گے۔ اس معاملے میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ ایک کالج میں لگا ہوا بھارت کا قومی پرچم اتار کر انہوں نے بھگوا پرچم لہرا دیا۔ اب ایسا کرنے سے ان کو لگا کہ بات برابر ہو گئی، مگر مقصد تو برابری تھا ہی نہیں اس لیے کرناٹک میں معاملہ احتجاج تک چلا گیا۔ جب معاملہ لا اینڈ آرڈر کا ہوا تو یہ احتجاج اڈوپی کی پانچ خواتین کورٹ میں لے گئیں۔ کورٹ میں عدلیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس نے ہائر بینچ کو کیس بھیج دیا، کورٹ نے کیس کو 14 فروری تک پہنچا دیا۔ صورت حال مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے ریاست کے وزیراعلیٰ باسا واراج بومئی نے ٹوئیٹ کر کے تین دن کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کردیے۔ ہندوئوں کا احتجاج بدستور جاری رہا، اِسی دوران مسکان خان کے کالج کا ایک واقعہ رونما ہوگیا۔
بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر ’اڈوپی‘ کے علاقے مانڈیا سے تعلق رکھنے والی بی کام سال دوم کی ایک طالبہ مسکان خان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ حجاب پہن کر اسکوٹی پر کالج میں داخل ہوتی ہے اور اس دوران ایک ہجوم ’جے شری رام‘ کے نعرے بلند کرتا ہے اور اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے حجاب پہن کر کالج داخل ہونے سے روکتا ہے۔ لڑکی جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے۔ بلاشبہ یہ کائنات کا سب سے عظیم نعرہ ہے جو ہر مسلمان کے دل و جان کی تسکین ہے، اس نعرے میں اسلام کا تمام تر نظریہ شامل ہے جس کی صرف زبان سے ادائیگی ہی کے بے پناہ برکات و فیوض ہیں۔ اس کا اثر ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں۔ یقین کریں جتنی با ر آپ یہ وڈیو دیکھیں گے رگ و پے میں ایمانی حرارت و اضافہ محسوس ہوگا۔ اس واقعہ نے سب کو ہلا دیا، ایک لڑکی پر لڑکوں کا گروہ حملہ آور ہو گیا؟ ایک بڑی مسلم اکثریت کے نزدیک اس واقعہ کی اوّل و آخر اہمیت صرف ’’مزاحمت‘‘ ہے۔ جس کا اظہار ’اللہ اکبر‘ کے پاک نعرے سے کیا گیا۔
معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی حجاب پر پابندی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی ناظم الامور کودفترخارجہ بلا کر احتجاج ریکار ڈکرایا۔ بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں مقیم مسلمانوں اور ہندوئوں نے بھی مسکان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور متعصب ہندو ذہنیت کی سخت مذمت کی۔ بات رکنے کی کہاں تھی بھارت میں حجاب پر پابندی کا معاملہ کرناٹک ہے ہوتا ہوا مدھیا پردیش چلا گیا، جہاں کے ایک شہر پوڈی چیری کے اسکول نے بھی باحجاب طالبہ کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا۔ سوشل میڈیا پر مستقل کئی ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔ ملالہ یوسف زئی نے بھی بھارت کے اس عمل پر دنیا بھر کو متوجہ کیا، کیوں کہ یہاں بھی معاملہ خواتین کو تعلیم سے روکنے کا بنتا تھا۔ سوشل میڈیا پر بے شمار اسٹیٹس، میمز اور وڈیوز بنائی گئیں۔ بھارت میں خواتین احتجاج کرنے کے لیے پوری قوت سے باہر نکل آئیں۔ آر ایس ایس نے سبکی مٹانے کے لیے کہا کہ وڈیو پلانٹ کر کے بنائی گئی ہے، لڑکی کو معلوم تھا کہ کیا ہوگا، یہ مسکان ہمیشہ جینز پہن کر کالج آتی تھی آج سازش کے تحت برقعہ پہن کر آئی تاکہ امن خراب کرے۔‘‘
28 ریاستوں اور 8 یونین ٹیریٹری پر مشتمل بھارت، چین کے بعد دنیا میں دوسری بڑی آبادی والا ملک ہے۔ بھارت کو اپنے قیام کے بعد سے ہی اپنے سیکولر آئین اور جمہوری ہونے پر بڑا فخر رہا ہے مگر وہ اپنے طرز عمل سے اسے ڈھونگ ثابت کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو ایک جغرافیائی مذہب ہے، ہندو دنیا میں جہاں بھی جائے گا اْن کے لیے وہ جگہ مقدس نہیں ہوگی جب کہ عیسائیت و اسلام عالمی وسعت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ برنارڈ لیوس کہتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت وہ مذاہب ہیں جن میں جنگیں اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ مماثلت‘ وسعت اور پھیلائو کی بنیاد پر ہوئیں۔ ہم بھی پھیلائو چاہتے تھے اور وہ بھی۔ پس اِسی وجہ سے تقسیم ہند سے قبل ہی متعصب ہندو ذہنیت نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ یہ آر ایس ایس کوئی آج کی یا دو تین دہائی قبل کی نہیں ہے بلکہ یہ تقسیم ہندو کے نعرے کو محسوس کرتے ہوئے وجود میں آچکی تھی۔ بھارت پر بی جے پی کا قبضہ مکمل ہندو ازم کی بنیادوں پر ہے، اس کا سیکولرازم سے کوئی تعلق نہیں۔ بی جے پی کا بیانیہ ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم نے صر ف ہندوئوں کو لادین کر کے نقصان پہنچایا ہے جس کے بعد اگر بھارت میں سیکولرازم چھا جائے گا تو یہاں صرف مسلمان رہ جائیں گے اور یہ مسلم اسٹیٹ بن جائے گا۔ یہ خوف متعصبانہ ہندو ذہنیت پر اپنی دکان چلانے والے تمام بھارتیوں کا ہے۔
ایس قطعاً نہیں ہے کہ مسلمان سیکولر نہیں ہو رہے ، مسلمانوں کا معاملہ قدرے الگ یوں ہے کہ مسلمانوں کا پورا سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، خاندانی نظام ہے جس سے اُن کا جدا گانہ تشخص ظاہر ہوتا ہے۔ بھارتی مسلمان شراب بھی پیے گا، سودی بینک میں کام بھی کرے گا، فلم اسٹار بھی بنے گا، ہندو تہوار بھی منائے گا اور ساتھ ہی حج و عمرہ بھی کرے گا، قربانی بھی کرے گا، دن میں پانچ وقت اذان گونجے گی، سال میں دو عیدیں ہوں گی، رمضان ہوگا، ربیع الاوّل ہوگا، برقعہ بھی ہوگا، ٹوپی بھی ہوگی، نیاز بھی ہوگی، مزار بھی ہوگا۔ یہ سارے تہذیبی ومذہبی مظاہر اتنے سارے ہیں کہ باوجود سیکولر ازم کی یلغار کے ہندو معاشرے کے اعصاب پر مسلم تہذیب کسی نہ کسی صورت سوار رہتی ہے۔ اس لیے وہ دیکھتا ہے کہ جب ہندو ملحد ہوتا ہے تو وہ عبادت تو دور کی بات ہندو مت کی تمام مظاہر والی چیزوں سے بھی جاتا ہے مگر مسلمان جیسا بھی ہوتا ہے اس کی تہذیبی عکاسی اس کی مسلم شناخت کو ظاہر کرتی رہتی ہے۔ بھارت میں آج بھی حج سستا ہے، حج کو اتنا پروموٹ کیا جاتا ہے‘ اتنی سبسیڈی دی جاتی ہے کہ اتنا کمبھ کے میلے کو نہیں کیا جاتا۔ بھارت میں مسلمانوں کا مدارس تبلیغ کا سارا نظام جاری ہے جس کے نتیجے میں متعصب ہندو صاف محسوس کرتا ہے کہ یہ لبرل ازم ’ہندومذہب ‘کو تو کھا رہا ہے مگر مسلمانوں کی تہذیبی شناخت پر اثرات محسوس نہیں ہو رہے جسے وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ بات اس کو قطعی ہضم نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ اسے آپ اسلام کی برکت کہہ لیں یا دین حق ہونے کی ایک علامت کہہ لیں کہ اسلام کا نظام بہرحال اتنی آسانی سے الحاد ہضم نہیں کر سکتا اس لیے وہ دوسرے طریقوں سے وار کرتا ہے۔
بلاشبہ اس عمل میں ’مسکان‘ کی نیت و سارا پہلو دینی حمیت و غیرت ِاسلامی و تہذیب اسلامی سے والہانہ وابستگی کا ہی تھا۔ اللہ سے اس بچی کے ایمان و جان کی سلامتی کی ڈھیروں دعائیں ہیں۔ مگر…جی یہ مگر بہت تنگ کرتا ہے۔ بھارت کے مسلمان تقسیم ہند یا قیام پاکستان کے بعد سے شدید قسم کے ’’ایڈینٹٹی کرائسز‘ کا شکار نظر آتے ہیں۔ صرف بھارت ہی کے نہیں مجموعی طور پر یہ مسئلہ ہر جگہ ملے گا۔ صورتحال تو یہی ہے کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں نے ہزار سالہ دورِ اقتدار کو فراموش کر کے انگریزوں کی غلامی ذہناً قبول کرنے کے بعد اسلام کو بطور نظام یا دینی تشخص کے ساتھ نہیں لے کر چل سکے۔بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ جو کہ اُس وقت بھی بالکل صادق تھا‘ اور آج بھی یہ تمام اشعار بالکل فٹ بیٹھتے ہیں:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد
اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدی ٔ جاوید
جس کا یہ تصّوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
ملّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
مسلمان (صرف ہند ہی میں نہیں ) مسالک و اختلافات میں اس طرح تقسیم ہیں کہ ’’وحدت افکار‘‘ یا ’’جسد واحد‘‘ کی شکل فنا ہو چکی ہے۔ یہ اپنے دشمن کے لیے اس حد تک ترنوالہ بن چکے ہیں کہ مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ بھارت کے مسلمان نسل کشی سے اب صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔ گزشتہ تین دنوں میں کئی بھارتی ٹاک شوز دیکھے تو ان میں موجود مسلم نمائندگی کرنے والوں کا اپنے نام اسلامی تشخص کے بجائے آئین و قانون پر زور دیا کہ انہوں نے سیکولر آئین کو ہی بقا کا ضامن سمجھ لیا ہے اور یہ بھول گئے کہ سیکولرازم تو ان کے دین کواندر سے کھا جائے گا۔ لبرل اقدار والحاد آجائے گا تو آئین کیا کچھ کرلے گا۔ سیکولر آئین لبرل و ملحد بننے کی بھی اتنی ہی آزادی دیتا ہے جتنی آزادی آپ اپنی بیٹی کے سر ڈھانپنے کی مانگ رہے ہیں۔ ایک اسی تناظر میں بیان ہوا واقعہ یاد آیا جو ہوا تو یورپ میں تھا مگر بات شاید آپ کو سمجھ آجائے گی۔ یورپ کے ایک اسلامی سینٹر میں مقامی پولیس مبارک باد دینے آتی ہے وہاں کے مبلغین کو۔ وہ پوچھتے ہیں ایسا کیا ہوا؟ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس سنگین جرائم کے پانچ عادی مسلمان مجرم تھے جو باز ہی نہیں آتے تھے جرائم سے۔ ہم نے ان کی رِہائی کے بعد نگرانی کی تو وہ آپ کے اسلامک سینٹر سے جڑ گئے، اُس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ان کے عمل میں سو فیصد تبدیلی آگئی اور وہ ایک اچھے انسان بن گئے۔ اس لیے ہم آپ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں اور دعوت دینے آئے ہیں کہ آپ ہماری جیلوں میں آئیں اور عادی مجرموں کو اچھا انسان بنائیں۔ انہوں نے بڑی خوشی خوشی یہ پیش کش قبول کر لی اور دن گزرتے رہے۔ ایک دن ان کے گھر کی گھنٹی بجی تو وہی پولیس ان کے دروازے پر تھی، ان کو دیکھ کر حیرانی ہوئی اور کہا کہ ہم تو آپ کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کیوں، ایسا کیا ہوگیا؟ تو جواب دیا کہ ’’جناب آپ کے گھر سے شکایت آئی ہے کہ آپ نے نماز نہ پڑھنے پر اپنے 18سالہ بیٹے پر ہاتھ اٹھایا ہے، آپ نے اپنی بالغ بیٹی کو پردہ نہ کرنے پر ڈانٹا ہے۔ قانون کے مطابق یہ سخت جرم ہے اور اب ہم آپ کو گرفتار کریں گے۔ وہ کہنے لگے۔ ارے میں تو وہی ہوں جو لوگوں کو اچھا بناتا ہے۔ تو جواب ملا ’’اب آپ کو اچھا ہم بنائیں گے۔‘‘
بے پردہ خواتین کو سیکولرازم اور آزادی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت 11سے زائد یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی عائد ہے۔ پابندی کا آغاز فرانس سے ہوا، جرمانے لگے۔ مگر جب پابندی لگی تو ایک یورپی مفکر نے فرانس کو یہ بات سمجھائی کہ تم نے حجاب پر پابندی لگا کر لاکھوں مسلم خواتین کو گھروں میں بٹھا دیا ہے، یہ اس سے بڑا نقصان ہے کہ مسلمان عورت پردہ کر کے گھر سے باہر نکلے۔
اس لیے بھارتی مسلمانوں کے پاس اپنی دینی تہذیبی شناخت پر اصرار اور مزاحمت کے سوا کچھ حل نہیں۔ ایسی مزاحمت جو بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کو یکجا ہوکر اپنے تہذیبی تشخص و بقا کے لیے لڑنی ہوگی۔اس مزاحمت کی ایک مثال کورونا لاک ڈاون سے قبل پورے بھارت میں سب نے دیکھی جسے CABprotest کا نام دیا گیا، جب بھارتی مسلمانوں کی شناخت ہی چھین لینے کی سازش کی گئی۔ کرناٹک کی ریاست میں ہونے والے واقعات نے درحقیقت دنیا بھر کے مسلمانوں کو موقع دیا ہے کہ ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے کو شعور و عمل کی سطح پرلانے کاسامان کریں، یہی جدوجہد ان کے لیے رستہ کھول سکتی ہے۔ وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

حصہ