نوید بھائی کے مشورے

403

”بھائی تمہیں کیا ہوگیا ہے! تمہارے مضامین میں کتے، بلیوں اور گدھوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا… ہاں زیادہ سے زیادہ شہر کی سڑکوں اور محلوں کی خستہ حالی بیان کردیتے ہو۔ تمہارے پاس ان موضوعات کے سوا کچھ نہیں ہے کیا؟“
”میرے نزدیک تمام عوامی مسائل اہمیت کے حامل ہیں، اسی لیے جو بھی مسئلہ سامنے آجائے لکھنے لگتا ہوں۔ اگر تمہارے پاس معاشی، معاشرتی، سیاسی یا عوامی فلاح و بہبود سے منسلک کوئی موضوع ہو تو ضرور بتاؤ، اس پر کوشش کرلوں گا۔“
”آج کل کی نوجوان نسل پر لکھو، ان کی حوصلہ افزائی کرو، انہیں زندگی گزارنے کے بہتر مشورے دو۔“
”ٹھیک ہے، اس مرتبہ تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے نوجوانوں سے ہی بات کروں گا، انہیں بتاؤں گا کہ موبائل فون پر کھیلے جانے والے گیمز اب کمپیوٹر پر بھی کھیلے جاسکتے ہیں، اس کے لیے جو سوفٹ وئیر ڈاؤن لوڈ کرنا ہے اُس کا لنک بھی شیئر کردوں گا، اور اس کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک بنانے کے طریقے اور اسے زیادہ سے زیادہ وائرل کرنے کا بھی بتادوں گا۔“
”ارے ارے یہ کیا کہہ رہے ہو؟ نوجوانوں کو کس رستے پر لگانے کی باتیں کررہے ہو؟ کچھ خدا کا خوف کرو، اس طرح تو نوجوان مزید خرابی کے رستے پر گامزن ہوجائیں گے۔“
”بھئی تم نے ہی تو کہا ہے کہ نوجوانوں کو بہترین مشورے دو۔ نوجوان جب سارا دن مختلف گیمز کھیل کر گزارتے ہیں تو ایسی صورت میں ان کے لیے اس سے بہتر بھلا اور کیا مشورہ ہوسکتا ہے! اور پھر ویڈیوز وائرل ہونے پر گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں، اس میں کیا برائی ہے؟“
”تم سمجھے نہیں، میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں۔“
”پھر کیا ہے؟“
”دیکھو، نوجوانوں میں لگن، جستجو اور مستقل مزاجی کا فقدان ہے، ان کے مزاج میں ٹھیراؤ نہیں، ضروری ہے کہ ان کی ذہنی و نفسیاتی تربیت کی جائے۔ لہٰذا اس پر کوئی تحقیقی مکالمہ تحریر کرو۔“
”اچھا اچھا، تو یہ بات ہے! ٹھیک ہے، پھر اس پر ہی کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس مرتبہ نوجوانوں کو مستقل مزاجی اور زندگی میں ٹھیراؤ لانے کے طریقے بتاؤں گا۔ انہیں بتاؤں گا کہ کبھی اِس گلی تو کبھی اُس گلی، یا گرلز کالج کے چکر لگانے سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایک ایسی دوشیزہ کا انتخاب کرلیں جو اُن کے گھر کے قریب رہتی ہو، اور ساری زندگی اُسی کے ہو کر رہیں۔ اس سے نہ صرف وہ دردر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں گے بلکہ سخت گرمی کے موسم میں اپنے چہرے کی جلد کو جھلسنے سے بھی بچا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک نوجوانوں میں یکسوئی، لگن اور ٹھیراؤ پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر فارمولا کوئی نہیں۔“
”پھر نہیں سمجھے، اور بات کو غلط سمت میں لے جارہے ہو۔ یہ طریقہ تو نوجوانوں کی ہمت بڑھانے کے مترادف ہے، بلکہ اس طرح تو ان کو مزید شہہ ملے گی، اور پھر میں نے ایسے مشورے دینے سے متعلق کب کہا ہے؟ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ تمہیں کس طرح سمجھاؤں!“
”اچھا اس مستقل مزاجی اور ایسے ٹھیراؤ سے متعلق بھی آگاہی نہیں دینی تو کرنا کیا ہے؟ جبکہ ہمارے معاشرے میں یہی کچھ تو ہورہا ہے۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں، کیا لکھوں؟ جب تک تمہاری بات میری سمجھ میں نہیں آتی میں اپنی تحریر کو عملی جامہ کس طرح پہنا سکتا ہوں؟ لہٰذا سوچو اور جلدی سے بتاؤ کہ اس ہفتے کون سے موضوع پر صفحے کالے کروں؟“
”دیکھو، معاشرے میں بڑھتی خرابیوں کی نشاندہی کرو، خاص طور پر علم و ادب جو کہ ہماری ثقافت اور پہچان رہی ہے اس کے حوالے سے لکھو، اردو زبان میں تیزی سے بڑھتے ہندی شبدوں کی نشاندہی کرو، یعنی اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوانوں کو اردو ادب سے روشناس کرو۔“
”اوہو تو یوں کہو کہ جس طرح سال میں ایک مرتبہ پرانے چہروں کے ساتھ نئی نکور اردو کانفرنس منعقد کی جاتی ہے، میں بھی اردو کی ایسی ہی خدمت کروں، یعنی ہر سال نشرِمکرر کے طور پر چلائے جانے والے پروگرام کی طرح مکھی پر مکھی ماروں! وہی پرانی داستانیں سنتا اور سناتا رہوں، یا پھر روایتی طور پر ”اردو ہماری قومی زبان ہے“ جیسے موضوع پر تعریفی کلمات کہتا رہوں۔ مختصر یہ کہ انگلش میڈیم اسکولوں کے خلاف مکالمے تحریر کروں؟“
”تمہارے ساتھ تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ جاؤ میاں جو مرضی میں آئے وہ کرو، تمہیں سمجھانا تو گھاٹے کے سوا کچھ نہیں۔“
”ارے ارے کیا ہوا، کہاں چلے! لگتا ہے ناراض ہوگئے ہو۔ ٹھیرو نوید بھائی، اس ہفتے کا موضوع تو بتاتے جاؤ۔“
”تم جانو اور تمہارا مضمون جانے۔ میں اب رکنے والا نہیں۔“
یوں نوید بھائی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر پلک جھپکتے ہی غائب ہوگئے۔ خیر وہ چلے گئے، لیکن مجھے تو اپنا کام جاری رکھنا تھا، یعنی کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ لکھوں، یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو معاشی، معاشرتی، سیاسی مسائل یا سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرے یا اُن کے حل کے لیے تجاویز دے، میرے لیے وہ اور اُس کی جانب سے دی جانے والی رائے انتہائی قابلِ احترام ہے۔ نوید بھائی سے چونکہ محبت کا رشتہ ہے، اس لیے مذاق کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی کی بات ہے جب نوید بھائی کراچی کے موسم، خاص طور پر موسم سرما پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:
”کراچی کا موسم بڑا عجیب ہوتا جارہا ہے۔ موسمِ سرما کو ہی لے لیجیے، کسی دن تھوڑی بہت سردی محسوس ہوتی ہے، تو کبھی سردیوں کا مزا لینے کے لیے پہلے کمرے میں تیز پنکھا چلا کر کمبل اور بستر کو اچھی طرح ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے، اس طرح خاصی دیر بعد جب کمرے کا درجہ حرارت کم ہوجائے تب ہی موسم سرما کا مزا لیا جاتا ہے، ورنہ سردی کسے کہتے ہیں؟ یہاں کے رہنے والے کیا جانیں! ہم نے تو جب بھی سردیاں دیکھیں ایسی ہی دیکھیں۔ ابا حضور کہا کرتے تھے: ایک زمانہ تھا جب اہلِ کراچی ٹھنڈی ٹھنڈی راتوں اور چمکتے دمکتے سورج سے روشن دنوں میں گرم سوئیٹر پہنے، گلوں میں مفلر لیے چائے، کافی، انڈوں اور خشک میوہ جات کی سوغات سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ باتیں کتابی سی لگتی ہیں۔ اب اہلِ کراچی کو موسم گرما کی تپش سے بچنے کے لیے پہاڑی، جبکہ سردیوں کو انجوائے کرنے کے لیے میدانی علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔“
اب نوید بھائی کو بھلا یہ بات کون بتائے کہ موسم کی اس تبدیلی کا اعمال سے کیا تعلق؟ اس بارے میں اگر سوچا جائے تو ہر دوسرا شخص جو موسمی تغیرات سے شدبد رکھتا ہے، جان لے گا کہ یہ یک دم نہیں ہوا، اور نہ ہی صرف ہمارے شہر میں ہوا ہے۔ موسم کے دورانیے میں ہونے والی یہ تبدیلی ایک دو دن میں نہیں آئی، بلکہ اس تبدیلی کا تعلق تو گلوبل وارمنگ سے ہے، جو گرین ہاوس گیسوں کا توازن بگڑنے سے وجود میں آئی۔ قدرت نے تو ہمیں اچھا اور متوازن ماحول دیا تھا، مگر انسان نے اسے خود تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ صنعتی ترقی کے نام پر کارخانے اور فیکٹریاں لگائی جانے لگیں، جن کی چمنیوں سے اُگلتی آگ نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اضافہ کردیا۔ اس کے علاوہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہوئی.. کوئلہ، تیل، گیس سمیت دیگر ایندھن جلائے جانے لگے، جس کی وجہ سے ہمارے موسموں پر خاصا اثر پڑا، اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ خصوصاً ساحلی علاقوں کے درجہ حرارت میں نمایاں تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ موسم کی تبدیلی صرف سردیوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ اس تبدیلی کا اثر موسم گرما پر زیادہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے جب ساری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا تو اس کا اثر تمام موسموں پر پڑے گا۔ موسم کس حد تک بدل رہا ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں ہجرت کرکے لاکھوں پرندے کراچی کے ساحل پر آیا کرتے تھے، لیکن اب خاص طور پر سائبیریا اور دیگر علاقوں سے آنے والے ان پرندوں کی آمد و رفت میں واضح کمی آچکی ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ خرابی فی الحال خطرناک حد تک نہیں پہنچی ہے لیکن اگر موسمی تبدیلیوں کا سلسلہ (بوجہ سمندری پانیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی مقدار) اسی طرح جاری رہا تو بنی نوع انسان کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے سرد موسم ساحلی علاقوں سے روٹھ رہے ہیں اور برکھا رت بھی خواب بنتی جارہی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمیں موسموں کو روٹھنے سے بچانا ہوگا۔ ہر آنے والے دن کی تبدیلیوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے مثبت اقدامات کرنے ہوں گے۔ درختوں کی کٹائی کو روکنا ہوگا۔ صنعتی الودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین بناکر ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ خصوصی طور پر قدرتی نعمت پانی کے ضیاع کو روکنا اور اس کی قدر کرنا ہوگی، تبھی ہم اپنی آنے والی نسلوں کو موسموں کی حقیقی خوبصورتی لوٹا سکتے ہیں۔
آخر میں نوید بھائی کے اس مشورے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے میری ہمدردی میں دیا، کہنے لگے:
”دن بھر کتابوں میں گھسے رہتے ہو، کچھ نہ کچھ کھاتے رہا کرو، خاص طور پر بادام.. جو دل، دماغ اور جلد کی صحت کے لیے بہترین تصور کیے جاتے ہیں۔ ان میں موجود وٹامن ای، میگنیشیم اور پوٹاشیم خون کی گردش بہتر بنانے کے ساتھ دل کی کارکردگی بہتر بناتے ہیں۔ اس لیے 4 سے 7 بادام یومیہ کھا لیا کرو۔ جبکہ پستہ تندرستی، طاقت اور مضبوطی کی علامت ہے۔ پستے میں بادام، کاجو اور اخروٹ کے مقابلے کہیں زیادہ پروٹین پائی جاتی ہے، لہٰذا اس کا استعمال بھی ضروری ہے۔ دیکھو لکھنے اور پڑھنے کے کام میں خاصا سر کھپاتا پڑتا ہے، ایسے میں اخروٹ پروٹین، وٹامن اور منرلز کی کمی پوری کرتا ہے، جبکہ کاجو، کھجور اور کشمش وٹامن ای، میگنیشیم، پوٹاشیم سمیت خون میں بہتری لانے کے لیے مفید ہیں۔ ان کے استعمال سے نیند کی کمی پوری اور تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ لہٰذا خشک میوہ جات ضرور کھایا کرو، یہ تمہاری صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔“
نوید بھائی تو اپنی محبت میں مشورہ دے گئے، لیکن حقیقت کچھ اور ہے، میرا مطلب ہے مہنگائی کے اِس دور میں… جب دو وقت کی روٹی کھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے…خشک میوہ جات جیسی نعمت سے لطف اندوز ہونا کسی غریب کے بس کی بات نہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں مختلف اقسام کے پھلوں اور خشک میوہ جات کی تصاویر دیکھ کر ہی جسم میں وٹامنز کی کمی پوری ہوجایا کرے گی۔

حصہ