گفتگو

157

باصلاحیت کم عمر مقرر عزیز احمد سے گفتگو۔ فائزہ مشتاق
کہا جاتا ہے کہ قوموں کی ترقی اگلی نسل میں پہناں ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے بہت سے ستارے ہیں جو آسمان پر گمند ڈالے ہوئے ہیں اور کم عمری میں ہی اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کوشاں اور قدم بہ قدم کامیابی کے زینے چڑھ رہے ہیں۔ عزیز احمد بھی مقرر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہم نے ان سے گفتگو کی، جو پیش کی جارہی ہے۔

سنڈے میگزین : اپنے متعلق کچھ بتائیے؟
عزیز احمد: میری عمر سولہ سال ہے۔ حافظ قرآن ہوں حال ہی میں میٹرک کے امتحانات دیئے ہیں۔
سنڈے میگزین : فنِ تقریر کا شوق کب اور کیسے ہوا؟ اس سفر میں کس کس کا ساتھ حاصل رہا؟
عزیز احمد: مجھے شروع سے ہی مطالعے کا شوق تھا، اردو سے لگائو بڑھا تو حادثاتی طور پر فن تقریر کی جانب چلا گیا۔پہلی مرتبہ آٹھ برس کی عمر میں علاقے کی سطح پر تقریر کی۔ ابتداء میں والدہ ہی تقریر لکھ کر دیتیں۔ پھر اساتذہ کرام کی رہنمائی میسر آئی۔ والدین کے تعاون اور نانا ابو کے قدم بہ قدم ساتھ نے حوصلہ بڑھایا۔
سنڈے میگزین : باقاعدہ تقاریر کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟ اب تک کن پلیٹ فارمز پر تقریر کرنے کا موقع ملا؟
عزیزاحمد: مجھے باقاعدہ تقریر کرتے ہوئے تقریباً پانچ سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ الحمدللہ مختلف ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے تحت مواقع ملے۔
بزم ساقی، برمِ علم ادب، کل پاکستان اسکول کے تحت منعقد تقریری مقابلوں میں ناصرف حصہ لیا بلکہ انعامات بھی جیتے۔ اس کے علاوہ مختلف نجی چینلز پر تقاریر کا موقع ملا۔ ’’شانِ رمضان‘‘ میں اعزازی تقریر کی رواں سال نجی چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں حصہ لیا اور انعام بھی پایا۔
سنڈے میگزین : موضوعات کا چنائو کیسے کرتے ہیں؟ کس طرح کے موضوعات پر تقریر کرنا اچھا لگتا ہے؟
عزیزاحمد: یہ بڑا مشکل کام ہے۔ جتنے بھی مواقعے ملے، سب میں موضوع دیئے گئے۔موضوعات جن میں بولنے کے لیےمواد ہو یا اشعار کے مصرعوں پر تقریر کرنا قدرے آسان ہوتا ہے۔ تقاریر کے دوران اگر منظر نگاری بھی کرنی ہو، مشکل ہو جاتا ہے مگر مزہ بھی اسی میں آتا ہے۔
سنڈے میگزین : تقریر آپ کی ہی تحریر کردہ ہوتی ہے؟ یا لکھنے میں کوئی مدد کرتا ہے؟
عزیز احمد: کچھ برسوںسے میں تقریر خود لکھتا ہوں۔مطالعہ نے مجھے، بہت مدد دی، الفاظ اور معلومات کا ذخیرہ بنتا چلا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تقریر لکھنے میں مشکل در پیش نہیں آئی۔ البتہ والدہ چیک کر لیتی ہیں۔
سنڈے میگزین : مطالعے کا شوق کیسے ہوا؟
عزیزاحمد: گھر میں مطالعے کا موحول ہمیشہ سےرہا، پوری لائبریری آباد ہے۔ جب بھی کتاب مانگی، والدین نے لا کر دی۔ ہر طرح کی کتاب پڑھی۔ بچوں کے رسائل، ناول، دینی کتابیں، حالات حاضرہ اور تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھنا اچھا لگتا ہے۔
سنڈے میگزین : صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لیےکیا کرتے ہیں؟
عزیزاحمد: مجھے اس سفر میں ایسے سینئر مقررین ملے، جو بولتے بھی اچھا ہیں اور رہنمائی میں بھی پیش پیش رہےمجھے مخلص تنقید کرنے والے بھی میسر آئے۔ جنہوں نے اپنے تجربے کے مطابق ہمیشہ اصلاح کی۔
سنڈے میگزین : مقرر بننے کے شوقین قارئین کو کیا کہیں گے؟
عزیز احمد: ہر انسان کے اندر خداداد صلاحیت ہوتی ہے، جس پر اگر وہ کام کرے تو بہت آگے بڑھ جا تے ہیں۔ والدین کے سپورٹ بھی بہت اہم ہے۔ جو تقاریر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں،انہیں چاہیے کہ سب سے پہلے اسکول کے تحت مقابلوں میں حصہ لیں۔ ایسے بہت سے ادارے موجود ہیں۔ مستقل لگے رہنے سے، مختلف ایونٹ میں مواقع بھی ملتے رہتے ہیں اور مزید رہنمائی بھی ملتی رہتی ہے۔
سنڈے میگزین : تقریر کے علاوہ کیا مشاغل ہیں؟
عزیز احمد: کل چونکہ امتحانات کے بعد فراغت ہے،تو آن لائن گرافک ڈیزائننگ میں فری لانسنگ کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ کھیلنے اور مطالعے میں دلچسپی ہے۔
سنڈے میگزین : مستقبل میں کیا ارادے ہیں؟
عزیزاحمد: پڑھائی کے ساتھ تقریری شوق کو بھی جاری رکھنا اولین ترجیح ہے۔ کوشش ہے کہ ایسی فیلڈ کا انتخاب کرو جو میرے شوق کو آگے بڑھانے میں مددگار ہو سکے۔ شکریہ

حصہ