انٹرنیٹ طلسم ہوش ربا

330

الف لیلہ کی داستانِ طلسمِ ہوش ربا پڑھ کر انسانی عقل چکرا جاتی ہے اور زمانہ قدیم کی انسانی ترقی اور جادوئی کمالات ہر خاص و عام کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔ اب تو ہالی وڈ اور بالی وڈ نے اس پر فلمیں بھی بنادی ہیں۔ امریکا میں ایک تحقیقی ادارہ Thousands Miracle of the ancient days کے عنوان سے اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ فراعنہ مصر کے اہرام، بابل کا جھولتا باغ، الیکسر سٹی کے ائیرکنڈیشنڈ مکانات، عاد و ثمود کی بستیاں اور موئن جو دڑو کے کھنڈرات ایک طرف انسانی عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہیں، تو دوسری جانب اسبابِ تباہی بھی تاریخ اور قرآنی قصص میں موجود ہیں۔
مگر دورِ جدید کے لاسلکی آلات اور ہوائی پیغام رسانی ایک طرف انسان کی مسخرانہ صلاحیتوں کو ظاہر کررہے ہیں، تو دوسری جانب اس کی ہوش ربا سرعت پذیر تباہی کی نوید بھی سنا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا فرد اس آلہ ابلاغ کے ذریعے دنیا کی خوف ناک تباہی اور بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ جدید لاسلکی ترقی فرد کو بالادست اور معاشرے کو پست کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ اس فکر کو مدنظر رکھ کر چند سوالات قارئین تک پہنچانے کی کوشش اس مضمون میں کی ہے۔
عام آدمی کی دسترس میں سوشل میڈیا ہے اور دنیا کی اکثریتی ابادی اس کو استعمال کررہی ہے، تو کیا سوشل میڈیا کے ذریعے انقلاب برپا ہوسکتا ہے؟ کیا ریاستی حکمرانوں کے ذریعے پیدا کردہ مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ کیا سیلاب کی طرح پھیلتی ہوئی برائی، فحاشی، عریانی کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا آن لائن تعلیم اسکول، کالج اور جامعات کی پڑھائی کا متبادل ہوسکتی ہے؟ جس سوشل میڈیا نے خاندانی نظام اور شوہر بیوی کے تعلقات کو مشکوک بناکر رشتوں کو پامال کردیا ہے اس کو روکا جا سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے مقدس ہستیوں کی تذلیل کی جا رہی ہے، اس پر قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ آج کے سوشل میڈیا نے ایک بڑے بلیک میلر کا روپ دھار لیا ہے، کیا اس سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟
سوشل میڈیا دورِ جدید کی ایسی ابلاغی ایجاد ہے جس نے دنیا کو لوگوں کی مٹھی میں بند کردیا ہے۔ اب 4G.. 5G کے بعد پلک جھپکتے ہر بات کی عالمی تشہیر ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود حکومتیں جب چاہتی ہیں پورے ملک یا محدود علاقوں میں اسے بند کردیتی ہیں، اس لیے کہ ان تمام تر ابلاغی ذرائع کا تعلق فضائی کنٹرول سے مشروط ہے۔ شمالی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے سوشل میڈیا کی ناک میں نکیل ڈال رکھی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تمام ملکوں میں سائبر کرائم کے سدباب کا شعبہ موجود ہے اور ان کرائم کو قابو کرنے میں کامیاب ہے۔ اب دنیا Digital War کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چین، روس، امریکا اور یورپی ممالک تیزی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سرعت پذیر ایجادات کے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ ہوانا سنڈروم کے ذریعے امریکی سفارت کاروں کو دنیا کے مختلف حصوں میں اعصابی مریض بنایا جارہا ہے۔ چین الیکٹرو میگنٹب ویب کے ذریعے لداخ میں انڈین فوجیوں کو گرمی سے ہلاک کررہا ہے۔ زمین کی محوری بلندی پر ہزاروں مصنوعی سیارچے اسٹار وار کی تیاری میں مصروف ہیں۔
اس سب کے باوجود سوشل میڈیا کا ہدف اخلاقی زوال کے تابوت میں کیل ٹھونکنا ہے تاکہ قہر خداوندی جوش میں آئے۔
اخلاقی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، ذہنی امراض اور مختلف گیمز کے ذریعے خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے فلاحِ انسانیت کی سوچ رکھنے والے زعماء کو پریشان کردیا ہے۔ افسوس تو اکثر دینی تحریکوں اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کے رویوں پر ہے جو اس تباہ کن، انسانیت کُش اور خدا بیزار جارحیت کا سدباب کرنے کے بجائے فروعی، مسلکی اور جماعتی مفادات سے ہٹ کر سوچنے کی رودار نہیں۔ انسانی اخلاق اور سیرت کی تعمیر کا بنیادی کردار ادا کرنے والے اساتذہ اب تعلیم کی بروکری میں لگے ہوئے ہیں، اور نتیجتاً ایک ایسی انسانی نسل اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تیار ہورہی ہے جو نہ صرف معاشی بھیڑیے بن رہے ہیں بلکہ جنسی درندوں کے روپ میں حیوانیت کو شرمسار کررہے ہیں، جس کو عالمی طاغوت حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں کے نام پر قانونی چھتری فراہم کررہا ہے۔ حتیٰ کہ سرزمینِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس بھی پامال ہورہا ہے۔ خدشہ ہے کہ چند سالوں میں دورِ جاہلیت کی تمام خرافات لوٹ آئیں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حج اور عمرہ میں سیٹیاں بجائی جائیں، جبکہ نامحرم عورتوں کو تنہا حج وعمرہ کرنے اور ہوٹلوں میں ٹھیرنے کی اجازت مل چکی ہے۔ یہ سب جدیدیت اور سوشل میڈیا کا کردار ہے۔ یہ تمام خرافات اور شیطانی عمل ریاست کی سرپرستی میں انجام پارہے ہیں، کیونکہ عالمی طاغوت نے پوری دنیا کی قیادت اور حکمرانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم پہلے ماں بنتی ہے پھر شادی کرتی ہے اور معروف و مقبول بھی ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
خ
زندگی تجھ کو پانے کے لیے
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
جیتے ہیں آرزو میں جینے کی
زندگی ملتی ہے پر نہیں ملتی
آخر میں یہ کہنا ہے کہ:
اے دلِ زندہ کہیں تُو نہ مر جائے
یہ زندگی عبادت ہے تیرے جینے سے
زندگی اور کتنا ستائے گی مجھے
میں تو تیرے لیے اپنے رب کو بھلا بیٹھا ہوں

حصہ