سراج منیر کا انٹریو قسط (3)

276

طاہر مسعود: ہماری جو تنقید ہے اس کو بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہے؟
سراج منیر: ہماری تنقید… دیکھیے جناب تنقید کے سلسلے میں، میں بہت تنگ نظر آدمی ہوں۔ تنگ نظر ان معنوں میں کہ ہر وہ آدمی جس کے بعض خیالات پر مشتمل کوئی کتاب چھپ چکی ہے، میں اسے نقاد نہیں مانتا۔ نقاد کے معنی ہیں وہ آدمی جو ادب اور تہذیب کے باطن کی تفتیش اور اس کی تشخیص کرے۔ جو لوگ عام طور سے ہمارے ادب کی تنقید کے نام پر کچھ لکھ رہے ہیں وہ زیادہ تر بعض نظریوں، بعض علوم مثلاً نفسیات اور سوشیالوجی کی Binding، بعض معاشی تصورات مثلاً مارکسزم کی اور بعض ادبی گروہ بندیوں کی سرپرستی کے مترادف ہے۔ تنقید کا ہمارے ہاں بہت Crisis ہے۔ اچھا جناب! اب آپ تنقید پہ آئیے تو چند نام آپ کو ملیں گے۔ اوّل تو میرے دیکھنے کا ایک تصور بھی ہے کہ… کم لوگوں نے تنقید ہمارے ہاں اس اعتبار سے لکھی ہے۔ اس پر آپ مجھے معاف کردیجیے گا۔ اس لیے کہ بہت سے نام ہمارے ہاں تنقید میں جو بڑے سمجھے جاتے ہیں لیکن ان معنوں میں وہ اپنے منصب کو Justify نہیں کرتے۔ ایک تو گروہ نقادوں کا وہ ہے جو تنقید سے پہلے پیدا ہوا، یعنی ہمارے ہاں اردو میں باقاعدہ تنقید کی ایجاد سے پہلے موجود تھا، مثلاً میں میر کو بہت بڑا نقاد کہتا ہوں۔ خود حالی کی تنقید پیدا ہوئی چند بنیادی سوالوں کی تفتیش سے، جو ادب اور معاشرے میں پیدا ہوئے۔ حالی کا جواب چاہے کچھ ہو لیکن محض اس کے سوال کا Genunine ہونا جو ہے وہ اسے بہت بڑا آدمی ثابت کرتا ہے۔ حالی کے ضمن میں بہت سوالات، عموماً اعتراضات بہت واقع ہوئے ہیں۔ حالی پر، ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ پر… تو اصل میں تنقید میں Validity اس بات کی نہیں کہ جواب کیا ہے؟ جواب تو بدل جائے گا۔ اصل Validity اس بات کی ہے کہ سوال کیا ہے اور انسانی نفسیات یا اجتماعی نفسیات کی کس گہری سطح پر واقع ہے تو حالی نے جب سوال اٹھایا تھا وہ اس کی تہذیب کے باطن میں کہیں بہت دور واقع تھا۔ حالی بہت Important آدمی تھا۔ شاعری کے اعتبار سے عموماً فراق صاحب کا نام بہت لیا جاتا ہے۔ لیکن میں فراق صاحب کو کوئی بڑا نقاد نہیں سمجھتا۔ اس طرح ایک عجیب نام میں لوں گا۔ میں ادب کا بہت بڑا نقاد اقبال کو سمجھتا ہوں۔ تنقید کے اعتبار سے اور اس کے لیے نہ صرف یہ کہ ان کے شعری کلام میں بہت وضاحت سے چیزیں موجود ہیں بلکہ جو نثر انہوں نے لکھی ہے اس میں بھی اتنا مواد موجود ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اس لیے کہ ایک Second rate کارروائی یعنی نقاد کا Lable اقبال نے اپنے اوپر نہیں لگایا تھا۔ اس کے بعد دو آدمی جو میری نظر میں آتے ہیں، وہ ہیں حسن عسکری اور سلیم احمد۔ حسن عسکری نے وہ سوال پوچھے ہیں جو مشرق کی روح میں بہت گہرائی میں پیدا ہوئے ہیں اور سلیم احمد کا دائرہ کار حسن عسکری سے بہت زیادہ ہے، کیوں کہ ایک تو سلیم احمد کی نطر انسانی فطرت کو Approach کرتی تھی، تجربے کے ذریعے، لہٰذا ایک ایسا زندہ تجربہ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ان کی تنقید میں جس کی Validity کو ہم کسی طرح چیلنج نہیں کرسکتے اور اس سے ایک ایسا تصور ہمارے ہاں پیدا ہوا ہے جو ہماری پوری تاریخ تنقید میں Unparalleled ہے اور وہ کسری آدمی کا تصور جو ہے۔ اگر اس پر تفصیل سے کام کیا جائے تو سلیم احمد کو زیادہ موقع نہیں ملا اس پر کام کرنے کا، لیکن بنیادی طور پر ان کے تصورات میں یہ چیز شامل ہے اور اس اعتبار سے بالکل صحیح تشخص کی تہذیب کی Fragmentation کی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ تو باقی نقادوں کا معاملہ، اور زیادہ تر ہم بھی جو کچھ اگر کبھی تنقید کے نام پر لکھتے ہیں تو زیادہ تر وہ عموماً موجودہ ادبی صورت حال پر فوری Reaction سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور ان چیزوں سے شاید کوئی بہت بڑی چیز پیدا نہیں ہوتی۔
طاہر مسعود: عسکری صاحب نے فرانس کے نو مسلم رینے گینوں کو متعارف کرایا۔ اس کے بعد بڑی بحث چلی اور اب آپ اور آپ کے حلقہ خیال کے جو لوگ ہیں انہوں نے باقاعدہ اس سارے مکتب فکر کے جو لوگ تھے ان کی Transformation شروع کی ہے۔ ان کی کتابیں شائع کررہے ہیں اور اس حوالے سے بہت سی بحثیںبھی ہمارے ہاں چل رہی ہیں… تو آپ یہ بتائیں کہ وہ کون سی چیزیں تھیں جن کی بنا پر آپ نے یا آپ کے مکتبہ خیال کے لوگوں نے ان نو مسلم مفکرین کو اہمیت دی اور اب آپ باقاعدہ ایک مکتبہ خیال کو تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کچھ اس پس منظر پر روشنی ڈالیں۔
سراج منیر: یہ بہت اہم بات ہے۔ خصوصاً آج کل جو بحثیں اس سلسلے میں ہورہی ہیں۔ اصل میں اس کا ایک بڑا لمبا چوڑا قصہ ہے۔ اگر تو بات یہاں تک ہو کہ عسکری نے رینے گینوں کو متعارف کرایا تو عسکری نے تو جناب اردو ادب میں بودلیئر کو بھی متعارف کرایا اور عسکری نے راں بو کو بھی متعارف کرایا اور West کی پوری موومنٹ کو متعارف کرایا اور عسکری کا ایک کمال یہ تھا کہ عسکری نے جس آدمی کا نام لے دیا عالمی ادب سے وہ آدمی اردو ادب میں متعارف ہوگیا۔ جیمز جوئس کو متعارف کرایا عسکری نے، تو اس پر کبھی شور وغوغا نہیں ہوا لیکن رینے گینوں کو متعارف کرانے سے بہت شور پڑا اس مسئلے پر۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ بودلیئر اور راں بو اور جوئس اور لارنس وہ لوگ جنہیں عسکری نے اردو میں متعارف کرایا وہ ہماری روح کے ان زخموں کو اس طرح نہیں چھیڑتے کہ جس سے کوئی بڑی تکلیف ہو بلکہ شاید انہوں نے ایک رول کسی درجے میں سکوں آور چیزوں کا ادا کیا ہے۔ لہٰذا عسکری کی Popularity میں اس کا بھی ایک حصہ رہا۔ مگر جب رینے گینوں تک معاملہ آیا تو رینے گینوں کے بارے میں عسکری نے خود لکھا ہے اور لوگوں کے علم میں بھی یہ بات ہے کہ اس زمانے میں جو مغرب کا سب سے بڑا آدمی سمجھا جاتا تھا (آندرے) ژید، اس نے یہ کہا تھا کہ گینوں جو باتیں کہہ رہے ہیں وہ حقائق ہیں اور سچائیاں ہیں لیکن جس طرح میرا بوڑھا جسم یوگا کے آنسوں کو قبول نہیں کرسکتا اسی طرح میری بوڑھی روح ان حقائق کو قبول کرنے سے قاصر ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ حقائق ہیں… تو جناب رینے گینوں کا معاملہ اس لیے بہت زیادہ متنازع بنا کہ کچھ ایسی باتیں رینے گینوں کے حوالے سے عسکری صاحب نے بیان کیں جو عہد جدید کے اس معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ جہاں تک عسکری صاحب کا تعلق ہے، ان کی کوئی بڑی دینی اہمیت نہیں ہے۔ وہ ایک ادیب تھے۔ دانش ور تھے لیکن دینی سند وہ نہیں تھے مگر مشرق کی ان سندوں میں بھی ایک بہت بڑی دینی سند رینے گینوں کے بارے میں ہے اور وہ ہے شیخ عبدالحلیم شیخ الازہر… یعنی ہمیں عام طور پر یہ بات جاننی چاہیے کہ الازہر کے شیخ کی عالم اسلام میں دینی حیثیت عموماً کیا ہوتی ہے… تو وہ لوگ جو مفتی عبدہ پر بہت جان دیتے ہیں، وہ یہاں آکر عبدالحلیم محمود پر بدک جاتے ہیں، جب عبدالحلیم محمود یہ کہتے ہیں کہ رینے گینوں کی فکری حیثیت غیر مسلموں کے درمیان افلاطون اور مسلمانوں کے درمیان غزالی کے برابر ہے اور ان کی کتاب موجود ہے۔ نمبر دو یہ کہ اگر آپ دیکھیں بیروت کا وہ ایڈیشن… جو غزالی کی کتاب ہے بہت مشہور اور بنیادی تو اس کی جو شرح کی ہے اور اس کو جس طرح ایڈیٹ کیا ہے، شیخ عبدالحلیم محمود نے رینے گینوں کی تحریروں کی روشنی میں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ فکری طور پر رینے گینوں کی حیثیت جدید مسلم فکریات میں کیا ہے۔ جہاں تک اعتراضات کا وقوع ہے تو اعتراضات کا وقوع رینے گینوں پر جتنا ہوتا ہے اس سے دس ہزار گناہ زیادہ امام اعظم ابوحنیفہ پر ہوتا ہے اور اس سے ایک لاکھ گنا زیادہ حضرت ابن العربی پہ ہوتا ہے… تو اعتراضات کے وقوع سے کسی آدمی کی عظمت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکری یا پھر ان سے روشنی پا کر دوسرے لوگ مغرب کی طرف کیوں جارہے ہیں؟ کیا مسلمانوں کی اتنی بڑی اسلامی دنیا میں انہیں فکر کی روشنی نہیں ملتی؟ اہم سوال یہ ہے نا! تو آپ کو یاد ہے کہ عسکری نے رینے گینوں کے ساتھ ایک اور نام بھی بہت لکھا ہے، جس پر ہر حلقے میں ان کی بڑی تضحیک کی گئی ہے اور وہ ہے مولانا اشرف علی تھانوی… تو یہ اعتراض بھی ساقط ہوا اس اعتبار سے کہ عسکری کے Sources میں مغرب کے ساتھ انتہائی (Source) Authentic مشرق میں بھی موجود ہے۔ کیوں کہ مولانا اشرف علی تھانوی پر ہزار طرح کے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کی Authenticity کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا… تو جب لوگوں نے، میں آپ کو تحریریں دکھا سکتا ہوں جن میں لوگوں نے عسکری کا مذاق اڑایا ہے اس بات پر کہ وہ مولانا اشرف علی تھانوی سے استناد کرتے ہیں تو ایک طرف ان لوگوں کی اخلاقی دیانت کا عالم یہ ہے کہ بنا پڑھے لکھے، سوچے سمجھے، صرف اس بنیاد پر کہ اشرف علی تھانوی ایک مولوی کا نام ہے اور ایک ادیب اور دانش ور اور محقق کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مولوی سے استناد کرے اور دوسری طرف رینے گینوں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، پہلی بات یہ ہے کہ ایک طرف اگر ہم اسلامی آفاقیت کا نام لیں اور دوسری بات یہ کہیں کہ کسی آدمی کے افکار اس لیے قابل قبول نہیں ہیں کہ وہ مغرب میں پیدا ہوا تھا تو یہ کتنا برا تضاد ہے آپ کی فکر کا۔ تیسری ایک بات اور کہ ایک تو اسلام کے اپنے حقائق ہیں اور ایک وہ انسانی نفسیات ہے جو زمانی اور مکانی عنصر سے تشکیل پاتی ہے اور زمانی اور مکانی عنصر سے تشکیل پاتی ہوئی نفسیات اور اسلام کے حقائق کے ملنے سے تہذیبی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ عرب کی جاہلی کی شدت کا تقاضا یہ تھا کہ وہاں دنیا کا سب سے بڑا رسول مبعوث ہو، یعنی عرب کی جاہلیت کی شدت جو تھی وہ اتنی بڑی پرابلم تھی کہ اس کے لیے ایک بڑی قوت درکار تھی۔ اسی طرح اسلام جب عرب کے دائرے سے باہر نکلا تو عجمی نفسیات سے جو مسائل پیدا ہوئے ان کا حل عرب کے پیدا کیے ہوئے علوم نے نہیں دیا بلکہ علم الکلام کی بنیادیں جو ہیں وہ زیادہ تر دائرہ عجم میں استوار ہیں۔ اسی طرح اسلام جب ہندوستان میں آیا تو آپ دیکھیے حضرت مجدد الف ثانی کی شکل میں ایک نئی معرفت و حدت الشہود کی ہندوستان میں پیدا ہوئی۔ اسی طرح جب مغرب اور اسلامی دنیا کے تصادم سے ایک تہذیبی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا لازمہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو مغربی نفسیات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور اس کے پورے تجربے سے گزرے ہیں وہ اور ان کے ساتھ کے ایسے لوگ جو ان حقائق کو جانتے ہیں جو اس نفسیات کے مسائل کو حل کرسکیں اور اس کے ڈیڈ لاک کو توڑ سکیں، ان دونوں کا اجتماع ہو۔ چناں چہ رینے گینوں اور مغرب کی پوری مسلم موومنٹ جس کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ میرا یقین ہے کہ مغرب کے ذہن جدید کو کوئی رازی متاثر نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے ایک ابن العربی چاہیے۔ اگر Crisis روحانی ہے، اگر بحران روحانی ہے تو بحران کا حل بھی تو روحانی ہوگا۔ اگر بحران عقلی ہوتا ہے اور کلامی ہوتا ہے تو اس بحران کا حل عقلی اور کلامی ہونا چاہیے تو مغرب جدید کی نفسیات سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتوں کو سمجھنے کے اہل وہ لوگ زیادہ ہیں جو مغرب جدید کے اس پورے Process سے گزر چکے ہیں اور انہوں نے اسلام کے حقائق کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ اس کی Relevance اور اس Relevance کی Validity ہندوستان میں پیدا ہونے والی معرفت اور ایران میں پیدا ہونے والی معرفت اور نارتھ افریقہ میں پیدا ہونے والی معرفت… یہ ساری معرفتوں کے مختلف النوع نظام جو ہیں، اس عمل کی تاریخی Validity کو Support کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ