ہم کیوں مسلمان ہوئے

338

ڈاکٹر عبدالکریم جرمانوس (ہنگری)
الحاج ڈاکٹر عبدالکریم جرمانوس ہنگری کے مستشرق اور بین الاقوامی علمی شہرت کے مالک تھے۔ وہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیان ہندوستان آئے تھے۔ کچھ عرصے ڈاکٹر ٹیگور کے شانتی نکیتن میں گزار کر جامعہ ملیہ دہلی گئے جہاں انہوں نے انشراحِ صدر کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صاحبِ موصوف کئی زبانوں کے ماہر تھے خصوصاً ترکی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ مشرقی علوم کا مطالعہ اسلام کی طرف ان کی رہنمائی کا سبب ہوا تھا۔ موصوف کے یہ تاثرات اردو ڈائجسٹ 1964ء سے ماخوذ ہیں۔
…٭…
جوانی کا زمانہ تھا۔ میں برسات کی ایک خوش گوار اورخوبصورت سہ پہر کو ایک مصور رسالہ پڑھ رہا تھا۔ اس کے صفحات پر عصرِ حاضر کے مباحث کے ساتھ ساتھ دل چسپ افسانے اور دور دراز ملکوں کے حالات پھیلے ہوئے تھے۔ میں رسالے کے ورق الٹ پلٹ رہا تھا کہ نگاہ ایک تصویر پر جم کر رہ گئی۔ یہ تصویر کچھ چھت دار مکانوں کی تھی‘ جا بجا گنبد اور مینار آسمان کی طرف بلند ہو رہے تھے اور بہت سے لوگ زرق برق لباس پہنے سیدھی صفوں میں دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ تصویر کا منظر ہمارے مغربی مناظر سے بالکل مختلف تھا۔ اس لیے میری توجہ اس میں جذب ہو کر رہ گئی۔ ایک نامعلوم سی بے چینی ہوئی کہ اس تصویر کا اصل مفہوم معلوم کیا جائے۔
بعد میں تھوڑی سی کوشش سے پتا چل گیا کہ یہ تصویر مسلمانوں کی عبادت‘ نماز کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ مزید معلوم ہوا کہ مسلمان اپنا ایک الگ طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ تجسس تو تھاہی‘ میں نے ترکی زبان پڑھنا شروع کی۔ مجھے بہت جلد یہ معلوم ہو گیا کہ ترکی ادب میں اس کے اپنے الفاظ بہت کم ہیں۔ اس کی نثر میں فارسی اور نظم میں عربی کا اثر غالب ہے۔ اب میں نے ترکی کے ساتھ عربی اور فارسی کی تحصیل بھی شروع کر دی۔ مقصد محض یہ تھا کہ ان زبانوں کے ذریعے اپنے اپ کو اس روحانی دنیا میں داخل ہونے کے قابل بنا سکوں جس کی تابناکیوں نے انسانیت کی تقدیر کو جگمگا دیا ہے۔
خوش قسمتی سے ایک مرتبہ موسمِ گرما کی تعطیلات میں مجھے بوسینیا کے سفرکا اتفاق ہوا۔ یہ یورپی ملکوں میں ہمارا سب سے قریبی پڑوسی ہے۔ وہاں میں نے ایک ہوٹل میں قیام کیا اور جیتے جاگتے‘ چلتے پھرتے مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے لگا۔ رات کا وقت تھا۔ مدھم برقی روشنی سڑکوں پر پڑ رہی تھی۔ میں ایک کم حیثیت کیفے میں داخل ہوا۔ اندرمعمولی اسٹولوں پر بیٹھے دو بوسینی قہوے کا لطف اٹھا رہے تھے۔ وہ ترکوں کے روایتی گپھے دار پاجامے پہنے ہوئے تھے جو کمر پر سے پیٹیوں کے ذریعے بندھے ہوئے تھے۔ ہر ایک پیٹی میں ایک خنجر لٹکا ہوا تھا۔ پوشاک اور وضع قطع سے وہ فوجی معلوم ہوتے تھے۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ ان سے کچھ دور ایک اسٹول پر دبک کر بیٹھ گیا۔
دونوں نے میری طرف متجسس نگاہوں سے دیکھا۔ میری رگوںمیں خون منجمد ہو کر رہ گیا اوروہ تمام قصے ذہن میں تازہ ہو گئے جوکتابوں میں مسلمانوں کے متعصبانہ تشدد اور عدم رواداری کے بارے میں پڑھ چکا تھا۔ وہ دونوں آپس میں کچھ سرگوشیاں کر رہے تھے اور جہاں تک میں سمجھ سکا‘ موضوع سخن کیفے میں اس وقت میری غیر متوقع موجودگی تھی۔ مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔ اس خطرناک ماحول سے میں نے نکل جانے کا ارادہ کر لیا‘ لیکن مجھ میں اٹھنے کی سکت نہیں رہی تھی۔ میں اسی پریشانی میں مبتلا تھا کہ ہوٹل کے ملازم نے خوشبو دار قہوے کی ایک پیالی لا کر میرے سامنے رکھ دی اور ان خوف ناک آدمیوں کیطرف اشارہ کیا کہ انہوں نے بھیجی ہے۔ میں نے ان آدمیوں پر گہری نگاہ ڈالی۔ اس پر ان میں سے ایک نے متبسم چہرے کے ساتھ نرم اور شیریں آواز میں مجھے سلام کیا۔ میں نے بادلِ نخواستہ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔ میرے دونوں مفروضہ دشمن اپنی جگہ سے اٹھ کرمیرے قریب آگئے۔ مجھ کو یقین ہو گیا کہ وہ کم از کم مجھے کیفے سے نکال باہر کریں گے‘ لیکن انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ شیریں لہجے میں دوبارہ سلام کیا اور میری چھوٹی میز کے سامنے بیٹھ گئے۔ ایک نے تپاک کے ساتھ سگار پیش کیا۔ ان کے اس شریفانہ برتائو سے مجھے محسوس ہونے لگا کہ اس فوجی لباس کے اندر خلیق اور متواضع روح پوشیدہ ہے۔
انہوں نے سلسلۂ گفتگو شروع کیا۔ میں قدیم ترکی میں ان کی باتوں کا جواب دیتا رہا۔ یہ بات چیت بڑے کام کی ثابت ہوئی۔ انہوں نے بڑے خلوص سے مجھے اپنے یہاں مدعو کیا۔ مسلمانوں سے ذاتی طور پر یہ میری پہلی ملاقات تھی۔
دن‘ مہینے‘ برس گوناگوں واقعات و حادثات اپنے دامن میں لے کر آتے اور گزرگے گئے‘ علم کا ہر مسئلہ اور زمانے کا ہر واقعہ مجھے نئے تجربات سے دوچار کرتا رہا۔ میں نے یورپ کے تمام ملکوںکی سیاحت کی۔ قسطنطنیہ یونیورسٹی میں تعلیم پائی‘ ایشیائے کوچک اور شام کی تاریخی یادگاروں اور قدرتی مناظر کی رعنائی کا مشاہدہ کیا اور عربی‘ فارسی اور ترکی میں فارغ التحصیل ہو کر بوڈاپسٹ یونیورسٹی (ہنگری) میں شعبہ اسلامیات کا صدر مقرر ہو گیا۔
میں نے علم کے خشک و تر ذخیرے کا بڑا حصہ حاصل کر لیا جو صدیوں سے جمع ہوتا چلا آرہا تھا۔ ہزارہا کتابوں کی ورق گردانی کر ڈالی‘ لیکن کتابی معلومات کا یہ سرمایہ مجھے قلب کی تسکین کا سامان نہ دے سکا۔ دماغ سیراب تھا‘ مگر روح تشنہ تھی۔ میری دلی تمنا تھی کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے‘ اسے یکسر فراموش کرکے دل کی داخلی کیفیات میں کھو جائوں۔ میری روح مقدس مذہب کے سدا بہار چمن سے مشک بیز ہونا چاہتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جس طرح لوہار کچے لوہے کو آگ میں تپا کر فولاد کی شکل دے دیتا ہے‘ اسی طرح میرا علم روحانیت کے سوز سے زیادہ کارآمد اور بیش بہا بن جائے۔
میں ہندوستان میں تھا جب کہ ایک رات میں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپؐ کی ریش مبارک حنا شدہ تھی۔ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کا قدرتی رنگ حنا شدہ بالوں کی طرح تھا) لباس سادہ اور پاکیزہ تھا اور اس میں سے ایک عجیب روح پرور خوشبو مہک رہی تھی۔ آپؐ نے نہایت دلپذیر لہجے میں فرمایا:
’’تم اتنے پریشان کیوں ہو رہے ہو؟ سیدھا راستہ تمہارے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اٹھو اوریقین اور ایمان کی قوت سے اس پر گامزن ہو جائو۔‘‘
میں نے ہمت کرکے عرض کیا ’’آپؐ جیسی عظیم ہستی کے لیے یہ بات بہت آسان تھی‘ جسے خدا نے مافوق الفطرت طاقت عطا کی تھی‘ جس نے منصبِ نبوت پر فائز ہو کر تائید غیبی سے اپنے دشمنوں پر فتحِ کامل حاصل کی اور جس کی مساعی پر خدائے قدوس نے عظمت و جلال کا تاج رکھ دیا۔‘‘
آپ نے ذرا تیز نگاہ سے میری طرف دیکھا پھر کچھ تامل کے بعد فرمایا ’’کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا اور تم کو جوڑے کرکے پیدا نہیں کیا اور ہم ہی نے تمہارے سونے کو راحت کی چیز بنایا۔‘‘
آپؐ کی عربی اس قدر فصیح اور پرشکوہ تھی کہ اس کا ہر لفظ خوش گوار بانگِ درا کی مانند میرے کانوں میں پڑ رہا تھا۔ کلامِ الٰہی جو آپؐ کی پیغمبرانہ زبان سے ادا ہو رہا تھا وہ میرے سینے پر ایک بھاری بوجھ ڈالے جارہا تھا۔
اس کے بعد اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے کراہتے ہوئے کہا ’’اب مجھے نیند نہیں آسکتی۔ میں اس راز کو نہیں سمجھ سکتا جو ان پردوں میں پنہاں ہے۔‘‘ میرے منہ سے خوف ناک چیخ نکل گئی۔ بے چینی سے دیر تک کروٹیں بدلتا رہا۔ پیغمبر ِ خدا کی خشمگیں نگاہ سے دل پر ہیبت سی بیٹھتی جا رہی تھی۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے گہری نیند طاری ہو گئی ہے۔ میں اچانک جاگ اٹھا۔ رگوں میں دورانِ خون تیز ہو گیا۔ سارا جسم پسینے میں شرابو ہو رہا تھا۔ جوڑ جوڑ میں درد تھا۔ زبان گنگ ہو رہی تھی اور بے حد اضمحلال اور تنہائی کا احساس ہو رہا تھا۔
دوسرے جمعے کو جامع مسجد میں آنکھوں نے ایک نیا منظر دیکھا۔ بھورے بالوںاور زرد چہرے کا ایک اجنبی چند محترم شخصیتوں کے ساتھ مجمع میں سے اپنا راستہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ میں ہندوستانی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ سر پر رام پوری ٹوپی تھی۔ سینے پر سلاطینِ ترکی کے عطا کردہ نشاناتِ امتیاز آویزاں تھے۔ ایک مختصر سی جماعت مجھے اپنے ہمراہ لیے سیدھی منبر کے سامنے پہنچی۔ یہاں علما اور بزرگانِ ملت بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بلند آواز سے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر میرا استقبال کیا۔ میں منبر کے سامنے پہنچی۔ یہاں علما اور بزرگانِ ملت بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بلند آواز سے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر میرا استقبال کیا۔ میں منبر کے قریب بیٹھ گیا۔ میری آنکھیں بلا ارادہ اٹھ کر تھوڑی دیر کے لیے مسجد کی تعمیری صنعت کاری اور محراب و در کی زیب و زینت کی طرف جم گئیں۔ درمیان کی بلند محراب پر شہد کی مکھیوں نے چھتے لگارہی تھے۔ جن کے گرد وہ مجمع سے بے نیاز ہو کر چکر لگا رہی تھیں۔
یکایک اذان کی صدا بلند ہوئی‘ جسے دوسرے مکبّروں نے جو مناسب مقامات پر ایستادہ تھے‘ اپنی صدائوں سے مسجد کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ اس الٰہی حکم پر تقریباً چار ہزار مسلمان فوجی سپاہیوں کی طرح ایک دم کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے قریب قریب صفیں جما کر بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ یہ نظارہ بڑا پُرکیف اور روح پرور تھا۔ نماز پڑھنے والوں میں‘ میں بھی شامل تھا۔
نماز ختم ہونے کے بعد ایک صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے منبر کے قریب لے گئے۔ زینے پر میرے قدم رکھتے ہی مجمع میں ایک حرکت پیدا ہوئی۔ پگڑیوں سے آراستہ ہزاروں سر لہلہاتے چمن زار کی طرح جنبش میں آگئے۔سفید ریش علما نے میرے گرد حلقہ سا بنا لیا‘ ان کی پُرشوق نگاہیں اور شگفتہ نورانی چہرے ہر ساعت میری ہمت بڑھا رہے تھے۔ میرے اندر جرأت اور امنگ پیدا ہوگئی تھی۔ کسی جھجک کے بغیر میں نے منبر کے ساتویں زینے پر قدم رکھا۔ میں نے اچٹتی نگاہ سے ہجوم کا جائزہ لیا جو مسجد کے آخر سرے تک بحر مواج کی طرح نظر آتا تھا۔ پچھلی صفوں کے لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا انسانوں کے اس سمندر میں تلاطم برپا ہو گیا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بعض لوگوں کے منہ سے بے ساختہ ماشاء اللہ نکل گیا۔ میں نے اپنی تقریر عربی میں شروع کی:
’’میں ایک دور دراز ملک سے سفر کرکے یہاں اس علم کی طلب میں آیا ہوں جو مجھے وطن میں حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ میں آپ کے پاس روحانی فیضان حاصل کرنے آیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے اس سے مستفید فرمایا۔‘‘
اس کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آیا:
’’مسلمانوں میں یہ بات عام ہے کہ بس خدا ہی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہمارے عمل اور کیے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ ہم نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس نے خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کی ہو۔‘‘
میںنے آیت کی تفسیر کرکے اس کا مفہوم و منشا بیان کیا اور تقویٰ کی زندگی اور گناہ و طغیان کے خلاف جہاد کرنے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ تقریر کے دوران میں اللہ اکبر کے وجد آفرین نعروں سے فضا بار بار گونج اٹھتی رہی۔ بیان ختم کرکے میں وہی منبر پر بیٹھ گیا‘ میرے دل میں جذبات کا طوفان ان طرح موجزن تھا کہ اس وقت کی اور بات سوائے اس کے یاد نہیں رہی کہ ایک صاحب نے ہاتھ کے سہارے مجھے منبر سے اتارا اور مسجد سے باہر لے چلے۔
میں نے پوچھا کہ آخر اتنی جلدی کیوں ہے؟ لیکن ذرا سی دیر میں اس کا سبب معلوم ہو گیا‘ بے شمار لوگ بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحے اور معانقے کیے۔ ناتواں اور عمر رسیدہ لوگ جو مجھ تک نہ پہنچ سکتے تھے‘ بڑی محبت کی نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہے تھے۔ ہر شخص اپنے لیے دعا کا خواستگار اور میرے ہاتھوں اور سر کو بوسہ دینے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ میں نے پوری قوت سے گھٹی ہوئی آواز میں کہا ’’اے اللہ کے نیک بندو! آپ مجھے اپنے اوپر اتنی ترجیح کیوں دے رہے ہیں۔ بے شمار حشرات الارض میں میرا بھی شمار ہے۔ میری مثال ایک پتنگے کی سی ہے جو روشنی کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘
اپنے ساتھ اللہ کے ان مخلص بندوں کی عقیدت و محبت کو دیکھ کر میرادل عجز و ندامت سے پانی پانی ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ اسلام کی بدولت ہے۔ بے شک ہمارا سب سے بڑا اور پختہ رشتہ دین ہی کا ہے۔

حصہ