سوشل میڈیا کا تباہ کن دور

249

سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور اشتہارات کی دنیا میں تبدیلی رحجان کی مئوثر قوت بن کر ابھرا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی افادیت یوں بھی بڑھی ہے کہ یہ ’برانڈز‘ کو صارفین تک پہنچنے کے بے شمار طریقے پیش کرتا ہے۔ یہی نہیں اس نے ایک نئے کاروبار کی بھی بنیاد رکھی ہے جس میں ہوشیار مارکیٹرز مختلف سماجی پلیٹ فارمز پر سامنے یا بننے والے نئے عوامی رجحانات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ دوسروں سے پہلے اپنی ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں اِن کا فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر صارفین کی خواہشات اور پسند نا پسند کا مکمل اندازہ لگایا جاتا ہے اور اس کے مطابق ان کو خریداری کی راہیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بات سمجھانے کے لیے ایک فیس بک، واٹس ایپ پوسٹ خاصی مقبول رہی، اس پوسٹ کو بہت زبردست انداز سے ایک مکالمہ کی صورت ترتیب دیا گیا ہے، مزاح کا پہلو اپنی جگہ مگر اس کو اگر آپ بغور پڑھیں اور سمجھیں گے تو اس پورے چکر کو سمجھ سکیں گے۔ اس مکالماتی تحریر کی سرخی یوں ہے’’2032 میں آن لائن پیزا آرڈر کرنے کا انجام‘‘
کالر: کیا یہ پیزا ہَٹ ہے؟
گوگل: نہیں جناب، یہ گوگل پیزا ہے۔
کالر: معذرت، میں نے غلط نمبر ڈائل کیا ہوگا۔
گوگل: نہیں جناب! گوگل نے پیزاہَٹ کو پچھلے مہینے خرید لیاہے۔
کالر: اوہ۔ ٹھیک ہے۔ پھر میں ایک پیزا آرڈر کرنا چاہتا ہوں۔
گوگل: کیا آپ اپنا وہی پسندیدہ پیزا آرڈر کرنا چاہتے ہیں جناب؟
کالرحیرانی سے : میرا پسندیدہ پیزا! مگر تم کیسے جانتے ہو؟
گوگل: جناب! ہماری کالر آئی ڈی ڈیٹا شیٹ کے مطابق آپ نے پچھلی 12 مرتبہ ایک پتلی پرت والا، بیف، اسپائسی پیزا منگوایا۔
کالر(خوشی سے): ارے واہ! بہت خوب! میں یہی آرڈر کرنا چاہتا ہوں۔
گوگل: کیا میں تجویز کرسکتا ہوں کہ اس بار ویجیٹیبل پیزا منگوائیں؟
کالر: کیا؟ میں سبزی والا پیزا نہیں کھانا چاہتا!
گوگل: جناب آپ کا کولیسٹرول اچھا نہیں ہے۔
کالر: (حیرت سے) مگر یہ تم کس طرح جانتےہو؟
گوگل: جناب آپ کے میڈیکل ریکارڈ سے ہمارے پاس پچھلے 7 سال کا آپ کے خون ٹیسٹ کا نتیجہ سامنے ہے۔
کالر: اوہ! ٹھیک ہے، لیکن میں یہ سبزی والا پیزا نہیں چاہتا! تم بیف والا ہی بھیجو ، میں اپنی کولیسٹرول کی دوائی لے لوں گا۔
گوگل: معاف کیجیے جناب! لیکن آپ نے باقاعدگی سے اپنی دوائیں بھی نہیں لیں۔ ہمارے ڈیٹا بیس کے مطابق آپ نے 4 مہینے پہلے بووٹس فارمیسی سے ایک بار 30 کولیسٹرول کی گولیوں کا ایک باکس خریدا تھا۔
کالر (جھلاہٹ سے): مگر میں نے ایک اور فارمیسی سے مزید خریداری کی تھی۔
گوگل:جناب مگر یہ خریداری آپ کے کریڈٹ کارڈ کے ریکارڈ پر ظاہر نہیں ہو رہی۔
کالر: (جھلاہٹ کے ساتھ) ارے میں نے نقد رقم ادا کی۔
گوگل: لیکن آپ نے اپنی بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق کبھی ایسی رقم نہیں نکلوائی۔
کالر: ( تنگ آکر) ارے میرے پاس نقد رقم کے دوسرے ذرائع ہیں۔ یہ باتیں چھوڑو پیزا لاؤ۔
گوگل: مگر جناب! یہ ذرائع آپ کے حالیہ جمع شدہ ٹیکس گوشواروں پر ظاہر نہیں ہے، کیا آپ نے کسی غیر قانونی طریقے سے پیسہ کمایا تھا؟
کالر (غصہ سے): ارے! یہ کیا بکواس ہے! مجھے پیزا چاہیے، تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔
گوگل: مجھے افسوس ہے جناب! ہم ایسی معلومات صرف اور صرف آپ کی مدد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کالر: بس بہت ہو چکا! میں گوگل، فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور دیگر سے تنگ آ چکا ہوں۔ میں انٹرنیٹ، ٹی وی کے بغیر کسی جزیرے میں جا رہا ہوں۔ جہاں نہ فون کی سہولت ہے اور نہ ہی مجھ پر جاسوسی کرنے والا کوئی ہے۔
گوگل: (معصومیت سے) لیکن جناب آپ کو جانے سے پہلے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کی ضرورت ہے۔ اس کی میعاد 6 ہفتوں پہلے ختم ہو چکی ہے۔
کالر : (غصے سے) ارے بھاڑ میں جاؤ تم۔ یہ کیا چکر ہے (بیچ میں سے کسی اور سے بات کرتے ہوئے) ڈیئر ویٹ کرنا پڑے گا تھوڑا، مجھے لگتا ہے کہ پیزا لینے خود جانا پڑے گا۔
گوگل: سر! یہ ڈیئر کون سا ہے؟ ہمارے ریکارڈ کے مطابق آپ یہ لفظ 15 مختلف نمبرز پہ کال اور میسیجز میں استعمال کرتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی نمبر آپ کی اپنی لوکیشن سے قریب نہیں ہوتا، خاص کر رات کو۔
کالر: (لائن کاٹ دیتا ہے) اے میرے خدا! مجھے معاف کر۔
اس کو پڑھ کر مسکرائیے نہیں، اس جال میں ہم سب شکار ہونے جا رہے ہیں اگر ہمارے پاس اسمارٹ فون ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماہرین کے مطابق 2022 میں AR (آگمینٹیڈ ریئلٹی ) اور VR ( ورچوئل ریئلٹی)کو ٹیک آف کرتے ہوئے دیکھنے کی توقع ہے خاص طور پر صارفین یعنی گاہگوں کی مارکیٹ میں یہ ٹیکنالوجی صارفین کو اس بات کی ایک مجازی قسم کی جھلک دیں گی کہ ایک پروڈکٹ جسمانی ماحول میں کیسی نظر آئے گی اور ساتھ ہی گاہک کے تجربے اور مشغولیت کو بھی فروغ دے گی۔ورچوئل ریئلٹی (VR) اور آگمینٹڈ رئیلٹی (AR) گیمنگ، مارکیٹنگ، ای کامرس، تعلیم اور بہت سے دوسرے شعبوں میں بڑھوتری کے مستقبل میں امکانات رکھتی ہیں۔ امسال صرف امریکا کے لیے 209 بلین ڈالر کی مارکیٹ کا تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس کے ذیل میں سافٹ ویئر انجینئرنگ ڈویلپمنٹ، پراجیکٹ مینجمنٹ، سافٹ ویئر مینٹیننس، گرافک ڈیزائن و تھری ڈی اینیمیشن، ہارڈ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے ایریاز میں کام ہوگا۔ گیمنگ کی دنیا میں آپ نے شاید نوٹ کیا ہوگا کہ جس تیزی سے جدید ٹیکنالوجی و سہولیات والے گیجٹس (آلات) آ رہے ہیں وہ سب اسی جانب اشارہ دے رہے ہیں جس کا ذکر اوپر ہم نے کیا۔
اس جدید ٹیکنالوجی کے دوش پر سوار ترقی کے تباہ کن اثرات کے بارے میں ہمارے چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی سنجیدہ، اہل علم و فکر افراد کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’سفید فام امریکا پہنچے تو اُن کا سامنا اُن انسانوں سے ہوا جن کے پاس نہ بندوق تھی نہ توپ تھی۔ چناں چہ وہ چاہتے تو بہت کم طاقت استعمال کر کے امریکا پر قابض ہوسکتے تھے مگر مائیکل مان کی شہادت کے مطابق انہوں نے ’’Americas‘‘ میں آٹھ سے دس کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود پورا مغرب خود کو ’’پُرامن‘‘ بھی کہتا ہے اور ’’مہذب‘‘ بھی۔ وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کا بھی علمبردار ہے اور اسی کے سر پر ’’برتر علم‘‘ دستار فضیلت بھی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہمیں یقین ہے کہ اگر گدھے، گھوڑے اور اونٹ کی سواری سے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں ایک لاکھ افراد بھی ہلاک ہوگئے ہوتے تو جدید دنیا کہتی کہ عہد قدیم کی سواریاں تک ’’انسان دشمن‘‘ تھیں۔ مگر اب ایک سال میں 12 لاکھ افراد ٹریفک حادثوں میں ہلاک اور پانچ کروڑ چالیس لاکھ افراد زخمی اور معذور ہو جاتے ہیں اور کوئی اتنے بڑے جانی نقصان کا نوٹس بھی نہیں لیتا۔ کوئی موٹر سائیکلوں، کاروں اور بسوں کو نہ ’’انسان خور‘‘ سمجھتا ہے نہ کہتا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ بڑی بڑی جنگوں میں بھی 12 لاکھ افراد ہلاک اور 5 کروڑ 40 لاکھ افراد زخمی نہیں ہوتے اور ہوتے ہیں تو دنیا دہل کر رہ جاتی ہے۔ مگر ٹریفک حادثات سے ہونے والے جانی نقصان سے آج تک شہ سرخی تخلیق کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ یہی قصہ ایلوپیتھک ادویات کا ہے۔ جس طرح جدید مغرب نے روایتی مذہب، روایتی تہذبی، روایتی ادب، روایتی موسیقی کو ’’حقیر‘‘ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح جدید طب نے علاج کے تمام روایتی طریقوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اگر کسی طرح یہ ثابت ہو جاتا کہ طب یونانی، طب اسلامی یا ہومیو پیتھک دوائوں سے ہر سال 7 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں تو جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا اسے ایک بہت بڑا اسکینڈل بنا دیتی، مگر جدید ادویات ابھی سال میں 7 لاکھ انسان ہلاک کر رہی ہیں اور 2050 تک وہ ایک کروڑ افراد کو ہلاک کرے گی۔ تاہم یہ بات تاحال کوئی بڑی خبر نہیں بن سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جسم پرستی مغرب میں ایک ’’آرٹ‘‘ تھی مگر مغرب نے اسے اب ایک ’’مذہب‘‘ بنا دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ عریانیت یا ’’پورنو گرافی‘‘ کی صرف ایک ویب سائٹ کو ایک سال میں تقریباً 29 ارب بار Visit کیا جاتا ہے۔ ایک عریاں ویب سائٹ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسی سیکڑوں ویب سائٹس سے ’’استفادہ‘‘ کرنے والوں کی تعداد کیا ہوگی؟ بدقسمتی سے جدیدیت نے اس ’’تحفے‘‘ کو بھی زندگی کا ’’معمول‘‘ بنادیا ہے۔
کوئٹہ کے جنوب میں واقع شہر نوشکی اور پنجگور میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے افسوس ناک واقعات نے پورے ملک پر اثرات ڈالے۔ سوشل میڈیا پر نوشکی سے متعلق خبروں کا سلسلہ بدھ سے جاری رہا۔ پاک فوج کے متعلقہ شعبہ سے جاری کردہ تفصیلات میں تو ایک افسر سمیت سات فوجی فرض منصبی ادا کرتے ہوئے قربان ہوئے جبکہ 13 حملہ آور فوج کے ہاتھوں مارے گئے ہیں جب کہ پنجگور میں چار سے پانچ حملہ آوروں کو محاصرے میں لے لیا گیا تھا اس لیے تادم تحریر مقابلہ جاری تھا۔ سوشل میڈیا پر متعلقہ واقعہ میں قربان ہونے والے افسر و دیگر فوجی شہدا کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ نوشکی اور پنجگور میں پہلے بھی دھماکے ہوتے رہے ہیں مگر بدھ کو ہونے والے دھماکوں کی شدت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ لوگ اس ہیش ٹیگ تلے دھماکوں کی تفصیلات مع تصاویر و وڈیوز بھی ڈال کر بتاتے رہے کہ صرف دھماکے سے ان کے گھروں کو کیا نقصانات پہنچے۔ ایک ٹوئیٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’نوشکی میں زور دار دھماکے سے شہر لرز اٹھا۔ ایف سی کیمپ سے متصل سول اسپتال سمیت کئی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکے کے بعد شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔‘‘ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اس واقعہ پر ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’بلوچستان میں امن و امان کی خراب ہوتی صورت حال اور فورسز پر بڑھتے حملے پوری قوم کے لیے تشویش ناک اور حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ پنجگور اور نوشکی میں حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ شہدا کے جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات، لواحقین کے لیے صبر جمیل اور زخمی جوانوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘ اس حملے کے پیچھے بھی بھارت نواز بلوچ لبریشن آرمی کا نام سامنے آیا ہے، اس کے ساتھ ہی سندھی قوم پرست جماعتوں اور خود بلوچستان میں تعصب پسند قوم پرستوں نے زہریلا پروپیگنڈہ بھی شروع کیا۔ بی ایل اے کے دہشت گردوں کی قبل از موت کی تصاویر فاتحانہ انداز میں اسلحہ کی نمائش کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شیئر کی جاتی رہیں جیسا کہ وہ بڑی خدمت کر رہے تھے۔ بات صرف یہاں تک نہیں تھی بلکہ ساتھ ساتھ ایک اور ہیش ٹیگ بھی چل رہا تھا، StateAttackedPTM ۔ یہ PTMبھی دوبارہ ایک حکومتی حملے کی زد میں آکر موضوع بنی ہوئی تھی جسے موقع کے ساتھ ساتھ نوشکی واقعہ سے بھی جوڑا جا رہا تھا۔ بلوچستان ہی میں قلعہ سیف اللہ کے مقام پرمظاہرے کےبعد ایک جانب ( پشتون پروٹیکشن موومنٹ) کے سربراہ منظور پشتین پر حملہ و گرفتاری تو دوسری جانب نوشکی و پنجگور میں دھماکے۔ معروف صحافی سلیم صافی اس طرز عمل پر لکھتے ہیں کہ ’’منظور پشتین کے قافلے پر فائرنگ قابل مذمت ہے۔ اللہ نور باچا کو صحت دے۔ منظور پشتین کو فوری رہا کیا جائے تاکہ مزید انتشار نہ پھیلے۔ فائرنگ کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ارمان لونی کی برسی پر جانا منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنمائوں کاجمہوری حق ہے ،جس سے انہیں محروم رکھنا فسطائیت ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ریاست، وفاق مخالف تمام قوم پرست جماعتوں کو پاکستان دشمن ممالک کی مکمل مالی معاونت حاصل ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتوں نے اپنی نااہلی کی وجہ سے ازخود یہ مواقع فراہم کیے ہیں کہ یہ لوگ جمع ہو سکیں اور اپنے حقوق کے نام پر سیاست کریں۔ بلوچستان، سندھ سمیت ملک کے دیگر حصوں سے لاپتا افراد کے اہل خانہ وقتاً فوقتاً احتجاجی مظاہروں سے ایسے نفرت آمیز موقف جاری کرتے ہیں جن سے پاکستان کی داخلی سلامتی پر سوال اٹھ جاتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول سب سکھ چین ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر جب مسئلہ ہوگا تو نہ ان کو بتا کر ہوگا نہ ان کے قابو میں رہے گا وہ یہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ سینیٹر علی محمد خان نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بلوچستان دشمنان پاکستان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ چاہے لاکھ کوشش کر لیں یہ دہشت گرد پاکستانFlag of Pakistan کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ نوشکی اور پنجگور میں حملے کو پسپا کرنے اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پہ اپنی پاک افواج اور ایف سی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ شہیدوں کی مغفرت کی دعا ہے۔‘‘ مگر دوسری جانب حقوق کو ’’ترقی‘‘ کی عینک لگا کر دیکھنے والے عوام علی محمد خان کو یہ جواب دیتے نظر آئے ’’بلوچستان کو کبھی پاکستان کا حصہ سمجھا ہی نہیں گیا‘ صرف سونے کا انڈا دینے والی مرغی اور ٹیسٹنگ لیبارٹری ہے وسائل لوٹتے جاؤ بس، نہ لوگوں کو حقوق ملے نہ پینے کا صاف پانی، نہ تعلیم، نہ موٹر وے، بس وہی انگریز سامراجی کالونی، انگریزوں نے تو پھر بھی بلوچستان میں بہت ترقیاتی کام کیے ہیں۔

حصہ