شعرو شاعری

405

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ طالبؔ
فطرت کی کانِ سنگ کا حاصل نہیں ہوں میں
پگھلوں نہ غم سے کیوں کہ ترا دل نہیں ہوں میں
دِل میں جو ہے خیال لگا ہے وہ جاں کے ساتھ
ہر فکرِ نو رسیدہ کی منزل نہیں ہوں میں
یہ عزم ہے کہ میں رُخ دریا کو پھیر دوں
اس رَو پہ بہنے والوں میں شامل نہیں ہوں میں
انجام کوہکن سے ڈرانا مجھے عبث
جینے پہ جان دینے کا قائل نہیں ہوں میں
سچ ہے کہ مجھ میں خوئے گدائی کی بو نہیں
ہاں تیرے التفات کے قابل نہیں ہوں میں
آساں ہے ہجر بھی مجھے توہین عشق سے
طالبؔ تو ہوں ضرور پہ سائل نہیں ہوں میں
…٭…
بہزاد لکھنوی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
…٭…
ثاقب لکھنوی
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
آئیے حال دل مجروح سنیے دیکھیے
کیا کہا زخموں نے کیوں ٹانکے صدا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دل مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
سننے والے رو دئیے سن کر مریض غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
جز زمین کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
آئنہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزہ ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
سینۂ سوزاں میں ثاقبؔ گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اف کروں تو آگ دنیا کی ہوا دینے لگے
…٭…
پروین شاکر
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں ذرا اپنا ستارہ دیکھنا
کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
جب بنامِ دل گواہی سر کی مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا
جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
آئنے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لیے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
محمد دین تاثیر
میری وفائیں یاد کرو گے
روؤ گے ، فریاد کرو گے
مجھ کو تو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
ہم بھی ہنسیں گے تم پر اک دن
تم بھی کبھی فریاد کرو گے
محفل کی محفل ہے غمگیں
کس کس کا دل شاد کرو گے
دشمن تک کو بھول گئے ہو
مجھ کو تم کیا یاد کرو گے
ختم ہوئی دشنام طرازی
یا کچھ اور ارشاد کرو گے
جا کر بھی ناشاد کیا تھا
آ کر بھی ناشاد کرو گے
چھوڑو بھی تاثیر کی باتیں
کب تک اس کو یاد کرو گے
…٭…
تابش کانپوری
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے
عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی اتنا تو آ کر بتا دے مجھے جب تری یاد آئے تو میں کیا کروں

میں نے خاکِ نشیمن کو بوسے دیے
اور یہ کہہ کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ بنانا مرا کام تھا
کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں

میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا
میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا
اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہ تھا
ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو
وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں

حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے
پر انہیں دونوں پہ میرا ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں
اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں

چشمِ ساقی سے پینے کو میں جو گیا
پارسائی کا میری بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا
ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں
…٭…

قابل اجمیری کے اہم اشعار
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

حصہ