چیونٹی

257

ردا نے چھوٹے بھائى روحان کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیا تو وہ زور زور سے چیخ کر رونے لگا۔
’’کیا ہوا؟ کیا کررہی ہو ردا؟‘‘امی نے چاول چنتے چنتے روحان کو روتا دیکھ کر پوچھا۔
’’امی روحان نے ہاتھ پیر، کپڑے ، سب مٹی میں گھٹنوں کے بل چل چل کر خراب کرلیے ہیں، اس کو اٹھانے کی کوشش کی ، تو یہ رونے لگا‘‘ ردا نے بتایا۔
امی نےاٹھ کردیکھا تو زمین پر چیونٹیوں کی لائن لگی تھی اور روحان انہیں بغور دیکھتا ہوا ان کے ساتھ ساتھ رینگ رہا تھا۔
’’ارے میرےبیٹے‘‘ امی نے روحان کو گود میں اٹھا کر اس کےکپڑے جھاڑے۔
’’امی یہ چیونٹیاں لائن بنا کر آخر کیا کررہی ہیں؟‘‘ ردا نے دلچسپی سے ان کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا-
’’بیٹا سردیاں آنے والی ہیں تو یہ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کھانے کا ذخیرہ لے کر زیر زمین اپنی رہائش گاہ میں جمع کررہی ہیں‘‘ امی نے روحان کو کھلونا دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب ؟‘‘ اپنی نئ چھرے والی پستول سے کھیلتے ہوئے آیان نے بھی چیونٹیوں میں دلچسپی لیتے ہوئے قریب آکر امی سے پوچھا۔
’’امی ان چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کا آخر کیا فائدہ ہے ؟ سارا دن اِدھر اُدھر دوڑتی پھرتی ہیں – اللہ میاں نے انہیں بس ایسے ہی بنادیا ہے۔‘‘
’’ارے نہیں بیٹا اللہ نے کوئی چیز بیکار نہیں بنائى ، اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے‘‘ امی نے دوبارہ چاول چنتے ہوئے سمجھایا۔
’’لیکن امی ان چیونٹیوں اور ان جیسے چھوٹے کیڑے مکوڑوں سے آخر کیا فائدہ پہنچتا ہے‘‘،ردا نے سوال کیا۔
امی نے بتایا’’تم لوگوں نے اکثر دیکھا ہوگا کہ چیونٹیاں جہاں اپنا گھر بناتی ہیں ، وہاں مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیر بنا ہوتا ہے- یہ زمین کی زرخیز مٹی ہوتی ہے جو چیونٹیوں کی وجہ سے اوپر آجاتی ہے یہ پودوں کےلیے بہت مفید ہے اور ان کی بہتر نشوونما میں مدد دیتی ہے.آپ کو پتا ہے چیونٹیاں بہت سے ایسے کیڑے مکوڑوں کو بھی کھا جاتی ہیں جو پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
’’امی چیونٹی کو عربی میں نمل کہتے ہیں نا؟‘‘ آیان نے پوچھا۔
’’جی ماشااللہ با لکل درست، آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ امی نے خوش ہوکر پوچھا۔
’’آج قرآن پاک پڑھتے ہوئے میں نے سورہ نمل پڑھی تو قاری صاحب نے بتایا‘‘ آیان نے کھلونا پستول جیب میں رکھتے ہوئے امی کو بتایا۔
’’جی بالکل، سورہ نمل ہی میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیاں سمجھنے کا علم انعام کے طور پر دیا تھا۔ ایک بار حضرت سلیمان کا گزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں چیونٹیاں آباد تھیں انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی نے سب کو خبردار کیا کہ وہ بچیں ,کہیں حضرت سلیمان کے لشکر سے کچل نہ دیے جائیں ، حضرت سلیمان نے یہ سنا تو مسکرا دیئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ انہیں یہ معجزہ عطا کیا گیا ہے۔‘‘
امی کے بتانے پر ردا نے حیرت سے پوچھا ’’کیا چیونٹیوں کی بھی بستی ہوتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں چیونٹیاں تو بہت منظم طریقے سے رہتی ہیں جو انسانوں کے رہن سہن سے بہت حد تک مشابہہ ہے۔‘‘ امی نے بچوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے مزید کہا ۔ ’’یہ بہت محنتی جانور ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ اپنے وزن سے کئى گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہے‘‘۔
’’ ایک اچھی بات میں بھی بتاؤں‘‘ آیان نے اپنا ہاتھ کھڑا کرکے کہا ، جیسے بچے ٹیچر سے کسی بات کی اجازت لیتے ہوئے کرتے ہیں۔
’’جی بتائیے ‘‘ امی آیان کی معلومات سے مرعوب نظر آئیں۔
’’جو کیڑے مکوڑے اور جاندار مر جاتے ہیں ، چیونٹیاں انہیں کھاکر ختم کردیتی ہیں – میں نے ایک کاکروچ مرا دیکھا تھا جسے چیونٹیوں نے مل کر ٹکرے ٹکرے کر کےکھا کر ختم کردیا تھا‘‘، آیان نے بروقت اپنی یاداشت کا استعمال کیا۔
ردا کو بھی یاد اگیا کہ کس طرح آیان اسے مرے ہوئے کاکروچ کو دکھا کر ڈرا رہا تھا مگر تھوڑی ہی دیر میں چیونٹیوں نے اس کا صفایا کردیا تھا۔
’’ہاں بالکل ایسے ہی کسی کھانے کے ذروں کے گرد چیونٹیاں جمع ہوکر اس کا صفایا کردیتی ہیں‘‘، ردا نے بھی اپنی علمیت جھاڑی۔
’’جی، آپ دونوں درست کہہ رہےہیں‘‘۔ امی نے بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور ان سے تائید چاہی۔
’’ اب تو آپ کو اندازہ ہوگیا کہ اللہ میاں کی بنائی ہوئ چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی بے مقصد نہیں بلکہ سب کو اللہ نے ان کا مقصد زندگی دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ بہت سے کیڑے مکوڑے جیسے مکھی، مکڑی، شہد کی مکھی،تتلی، کچوے وغیرہ جنھیں ہم نقصان دہ سمجھتے ہیں، ان کے بھی کئی فوائد ہیں جو میں آپ کو پھر کسی دن بتاؤں گی۔‘‘
’’اچھا!‘‘بچوں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’چلیں اب آ پ لوگ جا کر ہوم ورک کریں‘‘ امی نے روحان کو سلاتے ہوئے کہا۔
آیان نے جاتے جاتے ردا کو ستانے کے لیے اپنی پستول سے اس کا نشانہ لیا اور اس کو چلانے ہی والا تھا کہ ایک دم سے چلایا۔
’’آؤچ‘‘۔
’’کیا ہوا؟‘‘ امی گھبرا گئیں۔
چیونٹی نے اتنے زور سے کاٹ لیا،آیان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، بہت اچھی طرح سمجھ آگیا کہ چھوٹی سی چیونٹی بھی واقعی بڑے کام کی چیز ہے۔‘‘ ردا نے ہنستے ہوئے کہا تو امی بھی مسکرا دیں۔

حصہ