کراچی میں سجا کتابوں کا میلہ

262

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے؟
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی؟
سعود عثمانی کے اس شعر کو دیکھتے ہوئے تو بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے ہمارے معاشرے میں کتابوں کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت ہی کم لوگ ہیں جن کو کتابوں سے عشق ہے کیوں کہ یہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ہر کتاب اب کمپیوٹر و موبائل پر پی ڈی ایف کی صورت باآسانی دستیاب ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے آنے والے دور میں ہماری آنے والی نسل کو کتابوں سے کوئی خاص شغف نہیں ہوگا مگر یہ سب مفروضات اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب ہم نے ایکسپو سینٹر انٹرنیشنل کتب میلہ کا دورہ کیا جو کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی 30 دسمبر 2021 بروز جمعرات سے شروع ہوکر اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت 3 جنوری 2022 ءبروز پیر کو اختتام پذیر ہوا۔
ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد یہ دوبارہ لگنا نصیب ہوا۔ پچھلے سال لاک ڈاؤن اور کووڈ کے باعث ایکسپو سینٹر میں کتب میلہ نہ لگ سکا۔ اس لیے کتابوں سے محبت رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کتب میلہ لگنا کسی عید سے کم نہ تھا، اس کتب میلے میں تقریباً چارسو کے قریب اسٹال لگائے گئے جہاں پر مختلف پبلی کیشنز اپنی کتابیں رعایتی قیمتوں میں فروخت کر رہے تھے، اس کتب میلے میں لگ بھگ اسلامی موضوعات سے لے کر تجارتی و معاشرتی و ادبی موضوعات پر مشتمل کتابیں موجود تھیں۔ ساتھ ہی بچوں کے لیے بھی ان کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے بھی کتابوںکا وافر خزانہ موجود تھا۔ ادھر جاکر ایسا لگا کہ اب بھی لوگوں میں کتب بینی کا رجحان موجود ہے اب بھی اہل علم موجود ہیں جن کو کتابوں سے خاص شغف ہے وہاں لوگ صرف کتابیں دیکھ ہی نہیں رہے تھے بلکہ کافی تعداد میں خرید بھی رہے تھے ،اس کتب میلے میں اسکولز کے بچوں سے لے کر ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ کیا امیر کیا غریب ، تقریباً ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ اس کتب میلے کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ چاہے کتنا ہی ٹیکنالوجی کا دور کیوں نہ ہو، کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ قائم و دائم رہے گی اور لوگوں میں مطالعے کا رجحان ہمیشہ قائم رہے گا کیوںکہ مطالعہ ہر فرد کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ مطالعے کے ذریعے ہی ایک انسان کی سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس کے نظریے کو نیا زاویہ ملتا ہے۔
ویسے تو کتابوں کی وجہ سے کتب میلہ اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے مگر اس کتب میلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پہلی بار اس کتب میلے میں ملک کے مشہور و معروف انگلش و عربی کے ماہر خطاط، خطاطی کو فروغ دینے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں پانچ روز تک موجود رہے۔ خطاطی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جو قومیں اپنے کلچر اور اپنے آرٹ کو تھام کر رکھتی ہیں وہ ہمیشہ ترقی کے منازل طے کرتی چلی جاتی ہیں اور ہر پاکستانی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کلچر کو آگے لے کر آئیں ،ان میں اپنا فن پیدا کریں۔خطاطی کو فروغ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کو چاہیے کہ خطاطی کی اہمیت کو اپنے بچوں میں اجاگر کریں تاکہ آنے والی نئی نسل اس فن پر کام کرسکیں اور ان کو معلوم ہو کہ اپنے کلچر کو کس طرح آگے لے کر جا سکتے ہیں اور اس کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ جن لوگوں کے خیال میں خطاطی محض ایک فن ہے اس کا تعلق قرآن مجید سے نہیں ہے تو بالکل ایسا نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید کی جتنی بھی پبلشنگ ہوئی اور اس کے جتنے بھی فونٹ ہیں سب کے سب پہلے خطاط نے ہی لکھے تب کہیں جاکر مختلف فونٹ وجود میں آئے۔
ہمارے ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے تہہ دل سے کراچی والوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ کراچی والوں سے ان کو محبت و پذیرائی ملی۔ دنیا بھر سے ان کے طلبہ و طالبات ان سے ملنے آیا۔ کوئی ان کے لیے گفٹ لایا تو کوئی ان کے لیے کچھ کھانے کا بناکر لے کر آئے، اس محبت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ ان کی کوشش ہوگی کہ کراچی کے لوگوں میں خطاطی کا جذبہ دیکھتے ہوئے وہ کراچی والوں کے لیے کراچی ہی میںخطاطی کے حوالے سے ادارہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ساتھ میں انہوں نے ہمارا نام بھی بھی خط ثلث میں لکھ کر دیا۔ اس کتب میلے میں لوگوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ یہ آخری صدی نہیں ہے کتابوں سے عشق کی۔اگر اسی طرح کتب میلے منعقد کیے جاتے رہے تو کتابوں کی اہمیت کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہے گی اور لوگوں میں مطالعے کی جستجو ہمیشہ قائم رہے گی بلاشبہ کتاب ایک بہترین دوست و رہنما ہے۔کیونکہ کتابوں کا مطالعہ انسان کی زندگی میں آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔بقول ایک مفکر کے ’’اگر مجھے بادشاہ بنا دیا جائے اور کتاب پڑھنے کی اجازت نہ ہو تو میں ایسی بادشاہت ہرگز قبول نہیں کروں گا۔‘‘

حصہ