ہم کیوں مسلمان ہوئے

279

موہنی (پاکستان)
یہ ایک ہندو جوڑے کے قبولِ اسلام کی سچی اور واقعاتی کہانی ہے جسے تنویر احمد خان صاحب نے سیارہ ڈائجسٹ کے ’’قرآن نمبر‘‘ کے لیے رقم فرمایا۔ اس کہانی پر مصنف کو انعامی مقابلے کا دوسرا انعام ملا تھا۔
…٭…
یہ اس زمانے کی بات ہے جب تقسیمِ ہند کا فیصلہ ہو گیا تھا اور ہندوستان سے مسلمان اور پاکستان سے غیر مسلم نقلِ مکانی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ قصہ سندھ کے ایک قصبے کا ہے جہاں صرف میاں بیوی پر مشتمل ایک ہندو گھرانہ رہتا تھا۔ ان کے پڑوسی مسلمان تھے‘ دونوں خاندان آپس میں بڑے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔
فرقہ وارانہ فسادات کی شدت بڑھنے لگی تو ایک روز ہندو گھرانے کے سربراہ نند لعل نے اپنے مسلمان پڑوسی احمد سے کہا ’’بھائی! میرا ارادہ ہے اب ہمیں ہندوستران چلے جانا چاہیے۔ اگرچہ دل تو نہیں چاہتا کہ اس جگہ کو چھوڑیں جہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں‘ مگر اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ حالات بہت بگڑ گئے ہیں‘ کہیں ایسا نہ ہو ہمارا نقصان ہو جائے۔‘‘
احمد نے کہا ’’نند! کیسی باتیں کرتے ہو۔ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ مگر نند لعل کا دل خوف و ہراس کی شدید لپیٹ میں آچکا تھا۔ وہ احمد کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا‘ اس نے گھر میں اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ہم موقع ملتے ہی بھارت چلے جائیں گے‘ تم تیاری مکمل رکھنا۔
اس گفتگو کو کئی روز گزر گئے۔ ایک دن نند لعل کے برادر نسبتی کا خط آیا کہ ہم لوگ بھارت جا رہے ہیں‘ آپ لوگوں کا کیا ارادہ ہے؟ اگر تیار ہوں تو اکٹھے چلیں گے۔ نند لعل کا برادرِ نسبتی خاصی دور رہتا تھا۔ نند لعل نے اس کا خط اپنے پڑوسی احمد کو بھی دکھایا‘ اس سے رائے طلب کی کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ احمد نے مشورہ دیا کہ تم لوگ گھر میں مکمل تیاری رکھو اور خود سالے کے پاس جا کر صلاح مشورہ کر آئو۔ پھر جو پروگرام بنے اس پر عمل کرو۔تو نند لعل نے یہ تجویز پسند کی اور بیوی کو بالکل تیار رہنے کا حکم دے کر خود اپنے سالے سے ملنے چلا گیا۔
نند لعل کی بیوی بہت خوب صورت تھی۔ عمر اس کی پچیس چھبیس سال کی تھی مگر اولاد نہ ہونے اور صحت اچھی ہونے کی وجہ سے سولہ‘ سترہ سال کی لگتی تھی۔ احمد ایک عرصے سے اس پر نگاہ رکھتا تھا مگر اس سے کوئی ایسی ویسی بات کرنے کی کبھی جرأت نہ کرسکا تھا۔ اب اسے ایک موقع مل گیا۔ نند لعل اپنے سالے سے ملنے چلا گیا اور اپنی بیوی کو تیار رہنے کے لیے کہہ گیا تو احمد نے فائدہ حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس نے ایک تانگہ لیا اور شام کو ہانپتا کانپتا نند لعل کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اندر سے نند لعل کی بیوی موہنی نے پوچھا ’’بھائی کون ہو‘ کیا کام ہے؟‘‘
’’میں احمد ہوں بھابھی۔‘‘ احمد نے جواب دیا۔ ’’بھائی نند لعل آٹھ بجے والی گاڑی سے آرہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی آپ کے بھائی بھی ہیں‘ ان کا ارادہ سیدھے کھوکھرا پار جانے کا ہے‘ وہ یہاں نہیں رکیں گے۔ انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا ہے کہ میں آپ کو ریلوے اسٹیشن پر پہنچا دوں۔ آپ ضروری چیزیں‘ زیورت‘ نقدی اور کپڑے لے لیں اور تیار ہو کر فوراً باہر آجائیں۔‘‘
موہنی احمد کو ایک عرصے سے جانتی تھی۔ دونوں پڑوسی تھے اور انکے باہمی تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ پھر بھارت جانے کی باتیں بھی روز ہی ہوتی تھیں۔ اس نے احمد کی باتوں کو سچ جانا اور ضروری تیاری کے بعد باہر آکر تانگے پر بیٹھ گئی۔
ریلوے اسٹیشن زیادہ دور نہیں تھا مگر تانگہ بہت دیر سے چل رہا تھا۔ اس سے موہنی کو کچھ شکر گزرا۔ اس نے منہ سے پلو اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو راستہ ہی بدلا ہوا پایا۔ اس نے احمد سے پوچھا ’’بھائی ہم کدھر جارہے ہیں۔ یہ تو اسٹیشن کا راستہ نہیں ہے۔‘‘
’’گھبرائو نہیں بھابی!‘‘ احمد نے عیاری سے جواب دیا ’’ہم نے جان بوجھ کر جنگل کا راستہ اختیار کیا ہے تاکہ عام سڑک پر سے لوگ ہمیں دیکھ نہ سکیں اور کوئی آپ کو پریشان نہ کرسکے‘ ہم تھوڑی دیر میں اسٹیشن پہنچنے والے ہیں۔‘‘
موہنی یہ سن کر خاموش ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد تانگہ اچانک رک گیا۔ احمد نے ہوس ناک لہجے کہا ’’پیاری! اب اتر بھی آئو‘ کب تک دل تڑپاتی رہو گی‘ تم نہیں جانتیں ارمان اس وقت کا کتنے سالوں سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ موہنی نے گھبرا کر دیکھا۔ چاروں طرف خوف ناک جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔ وہ سارے معاملے کو سمجھ گئی اور لجاجت سے بولی’’احمد میں نے تمہیں بھائی اور تم نے مجھے بہن بنایا ہوا ہے‘ کچھ شرم کرو اور اس مقدس رشتے کی کچھ لاج رکھو۔‘‘
مگر احمد پر شیطان سوار تھا۔ اس نے جھٹکے کے ساتھ موہنی کو کھینچ کر تانگے سے اتارا اور دست درازی شروع کردی۔ موہنی نے اس کے چنگل سے بچنے کی بہت کوشش کی اور پورے عزم کے ساتھ اپنی عزت کو بچانے کی تگ و دو کرنے لگی۔ اس نے رحم طلب نگاہوں سے تانگے والے کی طرف دیکھا مگر اس کی نگاہوں میں بھی ہوس کے شعلے ناچ رہے تھے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر احمد سے درخواست کی ’’احمد! خدا کے واسطے مجھے برباد نہ کرو‘ میں کہیں ہیں کی نہ رہوں گی‘ تمہیں تمہارے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا واسطہ‘ میری عزت نہ لوٹو۔ میرے زیورات لے لو‘ مگر مجھے چھوڑ دو۔‘‘
لیکن احمد ہوس کی مستی کا شکار تھا۔ اس نے موہنی کی درخوست پر کان نہ دھرے اور اسے وحشیانہ انداز میں اٹھا کر ایک ٹیلے کے پیچھے لے چلا۔ موہنی نے بہتیرے ہاتھ پائوں مارے‘ مگر احمد کے طاقت ور بازوئوں کے سامنے اس کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخری چارۂ کار کے طور پر اس نے احمد کے کندھے میں اپنے دانت گاڑ دیے۔ وہ بلبلا اٹھا اور اس کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی موہنی ایک طرف کو بھاگ اٹھی۔ احمد نے تھوڑی دیر توقف کیا‘ مگر پھر زخمی بھیڑیے کی مانند نئے جوش کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا اور تھوڑی دور جا کر اسے دوبارہ دبوچ لیا اور وحشیانہ انداز میں اس کے کپڑے پھاڑنے لگا۔ مگر عزت بچانے کا احساس اب تک اس میں زندہ تھا‘ اچانک اس نے اپنی گردن میں ہاتھ ڈالا اور ایک تعویذ نوچ کر احمد کے سامنے کر دیا۔ ’’احمد اس میں تمہاری پاک کتاب قرآن مجید کی آیتیں لکھی ہوئی ہیں‘ یہ تمہارا قرآن ہے‘ اسی کے صدقے میں مجھے معاف کر دو۔ میری عزت نہ لوٹو۔ میری عصمت برباد نہ کرو۔‘‘
مگر احمد نے وہ تعویذ موہنی کے ہاتھ سے چھین کر دور پھینک دیا اور لپک کر موہنی کو پکڑ لیا اور قریب تھا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی صورت دے ڈالے کہ اچانک اس کی چیخیں نکل گئیں‘ اس کے جسم میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی اور موہنی کے جسم پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔
موہنی آزاد تھی‘ اس نے حیرت اور اچنبھے کے ساتھ دیکھا کہ احمد کا بدن ایک طرف کو ڈھلک رہاہے۔ اس کی نظروں کے سامنے ایک لمبا سیاہ ناگ احمد کی ٹانگ سے لپٹا ہوا تھا اور اس کی پنڈلی سے خون بہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں احمد تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ سانپ اپنا کام ختم کرکے جا چکا تھا۔
یہ منظر تانگے والے نے بھی دیکھا۔ وہ بھاگتا ہوا آیا اور تعویذ اٹھا کر چھومنے لگا‘ پھر اس نے اپنی چادر موہنی کے جسم پر ڈال دی۔ اس سے رو رو کر معافی مانگی اور اسے تانگے پر بٹھا کر واپس شہر کی طرف چل دیا۔
راستے میں موہنی نے بتایا کہ سات سال سے میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی‘ میری ایک مسلمان سہیلی نے یہ تعویذ لا کر دیا تھا اور اس نے بتایا کہ اس میں سورۃ یاسین اور پانچ اور آیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ موہنی عقیدت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی کہ اسے قرآن کی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ قرآن عزتوں کا محافظ ہے۔ یہ اس وقت دستگیری کرتا ہے جب سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں۔
اتفاق سے آٹھ بجے والی ٹرین سے نند لعل واپس آگیا۔ وہ بڑا پریشان تھا کہ موہنی کہاں گئی؟ اسے یہ پتا چل گیا تھا کہ احمد اسے تانگے پر بٹھا کر کہیں لے گیا ہے مگر پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ اسی جستجو میں رات خاصی گزر گئی حتیٰ کہ موہنی واپس گھر پہنچی اور اپنے خاوند کو ساری کہانی سنائی۔
دوسرے ہی دن نند لعل اور موہنی نے ہندوستان جانے کا خیال ترک کر دیا۔ انہوں نے قرآن کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے اور ان کے اسلامی نام محمد علی اور عائشہ رکھے گئے۔ اب ان کے چار بچے ہیں اور وہ بڑی ہی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔

حصہ