پب جی وڈیو گیم یا غارت گری؟

330

اگر زندگی بامعنی نہ ہو، اگر انسان کے پاس اسکا کوئی وژن یا سوچ نہ ہو تو جو تباہی پھیلتی ہے وہ آج کھل کر ہمارے سامنے ہے۔زندگی کیوں ملی ہے، اس کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ با معنی کیسے ہوسکتی ہے، پھر خوشی کیا ہے ، غم کیا ہے ، اس کے کیا پیمانے ہیں ؟ زندگی ایک رولر کوسٹر کی مانند بن جاتی ہے ، مانند جانوروں کی سطح تک گر جاتا ہے یوں وہ انسان اپنی تمام تر صلاحیتیں زیادہ سے زیادہ کمانے ، خریدنے اور پھر خرچ کرنے میں لگ جاتا ہے ۔زندگی کا جب کوئی بڑا تصور نہ ہو تو انسان مادہ پرستی کی اس پست کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔لوگ اپنی انفرادی زندگی میں ایسے مگن ہو جاتے ہیں کہ پورا معاشرہ سکڑ کر رہ جاتا ہے ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان باتوں کا سوشل میڈیا سے کیا تعلق ہے؟ لیکن ٹھہریے ،میں سچ بتا رہا ہوں کہ اس کابڑا گہرا تعلق ہے۔یہ جو آج آپ کو ہر عمر کے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل یا آئی پیڈ یا دیگر اسکرین سے لگاؤ نظر آتا ہے یہ اوپربتائے گئے اہم مسئلہ کی نشان دہی مطلب علامت ظاہر کرتا ہے ۔معاشرے میں جرائم کی وارداتوں کی خبریں بھی ایک اہم پیمانہ ہےمعاشرے کی نبض کو جانچنے کا ۔جو، جس طرح کے جرائم آج کے دور میں ہو رہے ہیں ان کو دیکھ کر تو واقعی ’انسانیت‘ بھی شرما جائے ۔مادہ پرست معاشرے میں سب سے پہلے رشتوں کی تقدیس و اہمیت پر ضرب پڑتی ہے اور انکا مقام ایک وڈیو گیم کی حد تک پست ہو جاتا ہے ۔
آج جس موضوع پر میں بات کر رہا ہوں ابھی تک وہ ٹرینڈ لسٹ میں نہیں آیا ، عین ممکن ہے کل تک آجائے جب لوگوں کا سماجی میڈیا والا ضمیر جاگ جائے۔ یہ وہ ضمیر ہے جو سوشل میڈیا پر اپنے تئیں ’خیر ‘ یا ’اقدار‘ کے فروغ کے لیے اچانک کسی واقعہ کی پشت پر جاگ جاتا ہے ۔ عموما ً خواتین، بچیوں یا کسی غریب سے ظلم وزیادتی کے موقعوں پرانصاف دلانے کے لیے ۔مگر لاہور میں ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا کہ اس کو موضوع بنانا پڑ گیا۔میرے مستقل قاری جانتے ہوں گے کہ میں نے کئی بار وڈیو گیمز کے فتنہ کے بارے میں توجہ دلائی ہے ، کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو ہر ممکن انداز سے وڈیو گیمز خصوصاً ’پب جی ‘ کے لیے تو الگ سے متوجہ کیا ہے ۔اب دوبارہ ایک دلخراش واقعہ اسی گیم کے اثرات کی وجہ سے لاہور میں پیش آیا ہے۔پولیس کے مطابق لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک ہفتہ قبل خاندان کے 4افراد کا لرزہ خیز قتل ہوا۔14سالہ زین نامی قاتل لڑکے نے پب جی گیم کھیلنے کے بعد اپنی ماں ،ایک بھائی اور2بہنوں کو قتل کر دیا۔لڑکے کی والدہ لیڈی ہیلتھ ورکر تھیں۔گو کسی رپورٹ میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ لڑکے کے پاس ہتھیار کیسے ، کہاں سے آئے اور گیم کا کیا واسطہ ہے اس قتل کی واردات سے ۔ ہو سکتا ہے کہ پولیس کی تمام رپورٹ غلط ہوں، مگر خبروں سے جو بات میڈیا پر پیش کی جا رہی ہے وہ یہی سمجھا رہی ہے کہ قتل کا ایک محرک ’پب جی‘ گیم کی ’لت ‘کا تھا ۔ یہ واقعہ پہلا نہیں تھا، 9 ماہ قبل بلال نامی شخص ایسے ہی جرم میں گرفتار ہو اجس میں اس نے اپنی ماں، بھابھی، پڑوسی کو فائرنگ کر کے مار ڈالا جبکہ بھائی اور بہن شدید زخمی ہوگئے ۔بلال کے واقعے کی تو وڈیو بھی جاری ہوئی سی سی ٹی وی کی مدد سے پورا کیس سامنے آگیا۔دونوں گرفتار ہونے والوں میں ’پب جی‘ اور ’آئس ‘ نشے کی لت کی یکسانیت پائی گئی ۔ ملزمان نے دونوں کیسز میں یہی کہا کہ مجھے معلوم نہیں ، کیسے ہوگیا کہ وہ حالت نشہ میں تھے۔ اس واقعہ کے بعد پب جی گیم کے نوجوان نسل پر خونی اثرات کی بندش کے متعلق قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی گئی۔ پب جی گیم نے نوجوان نسل کی ذہنی سطح کو بڑی طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کئی حادثات ہو چکے ہیں ۔نئی نسل پر پب جی گیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں، فرضی دنیا میں وہ خود کو گیم کا کردار سمجھنے لگتے ہیں اور کچھ بھی کر جاتے ہیں، پھر ساتھ ہی نشہ کی لت لگ جائے تو وہ ہر حد سے باہر نکل آتے ہیں۔بھارت میں تو پچھلے ہفتہ پانچ ملزمان نے اپنے ہی ایک 23سالہ ساتھی کو اغوا کیا اور اس کے والد سے 10ہزار روپے لیے۔ یہ تمام یعنی گرفتار و اغوا ہونے والا 20-25سال کی عمر کے لوگ تھے ۔ٹوئٹر پر صارفین کا کہنا ہے کہ پب جی گیم کے ذریعے تشدد کا رحجان ، نفسیاتی عوارض بڑھ ر ہےہیں، مگر آپ نوٹ کریں کہ ملزم نے پولیس کی آمد پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جو کہانی سنائی تھی وہ اسے کوئی ذہنی مریض نہیں محسوس ہوتی ۔پولیس بیان کے مطابق ایک اور بات جو دونوں واقعات میں یکساں تھی وہ یہ تھی کہ دونوں افراد کو ان کے قریبی لوگوں نے متذکرہ گیم کھیلنے سے منع کیا ۔ اب کتنا منع کیا ، کس طرح منع کیا کہ ان کو قتل کرنا پڑ گیا یہ حقیقت فوری کھولنا مشکل ہے ۔یہ دوسروں کو مارنے ہی نہیں خود بھی مارنے تک بات پہنچ گئی ہے۔ایس ایچ او تھانہ فیکٹری ایریا لیاقت علی کا کہنا تھا کہ پنجاب سوسائٹی کی حدود میں بیس سالہ نوجوان نے پب جی میں ہارنے کی وجہ سے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کی۔
انسان اپنی زندگی کو جب مال وہ بھی زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے بے وقعت مقصد سے جوڑ لیتے ہیں تو اس کا اثر ہماری پوری زندگی کی معاشرت پر پڑتا ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ والدین کا اولاد کو دینے کا وقت کس حد تک سکڑ کر اسکرینوں کی جانب جا تا دکھائی دے رہا ہے ، چاہے آ پ چاہیں نہ چاہیں معاشرے کا جبر اس جانب لے جاتا ہے ۔ ایسے میں تو اور سخت ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ ہم اس خطرے کو سمجھ کر اس کے اثرات بد سے اپنے اہل خانہ کو بچائیں۔ خشیت ، ایمان، تقویٰ پر اگر ہماری زندگی کھڑی ہوگی تو مقابلہ کرنا راہیں کھولنا آسان ہوگا۔بچوں کو ہم اگر اپنا کوالٹی ٹائم دیں گے تو ہی آپ کی بات کے اثرات ہوںگے۔اس کے ساتھ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم خود اسکرینوں کو کتنا ٹائم دیتے ہیں ، اگر ہماری زندگی میں ہمارے بچے ہمیں خود اتنا اسکرین سے جڑا دیکھیں گے تولا محالہ وہ بھی اس کی ایسے ہی اثرات لیں گے ، یہ بات سمجھانے کےبجائے مکالمہ سے حل ہوگی۔
سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ چھائے رہے۔آج کی ٹرینڈ لسٹ پر نظر ڈالی تو ایک جانب #ArrestmuftiTarqiMasood کا ٹرینڈ نظر آیا ،اہل تشیع کی جانب سے ازخود مفتی طارق مسعود کی ایک 3سالہ پرانی وڈیو کو بنیاد بنا کران کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔حسن اتفاق تھا کہ متذکرہ کلپ میں کئی ماہ قبل بھی دیکھ چکا تھا۔سوشل میڈیا پر منصوبہ بندی کے تحت مفتی طارق مسعود کے خلاف گستاخ، لعین و کفر کے فتوؤں کی بہار تھی، گو کہ مفتی صاحب نے جوابی وڈیو بنائی تھی مگر بات دراصل یہ تھی ہی نہیں۔اصل واقعہ پچھلے ہفتہ کراچی کے ایک علاقے میں ہونے والی مجلس میں پیش آیا جہاں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی شان میں گستاخی کی گئی ۔ مقامی علمائ نے احتجاج کیا تو تھانہ میں ایف آئی آر درج ہوئی ۔ اہل سنت والجماعت کے تمام مکتبہ فکر نے اس عمل پر تشویش کااظہار کیا مگر اہل تشیع نے ایسے کسی موقع کے لیے شاید اس واقعہ کو سنبھال کر رکھا ہو اتھا، جسے اب ظاہرکر دیا گیا۔وڈیو دیکھنے کےبعد صاف محسوس ہو گیاکہ مفتی طارق مسعود پر جھوٹا الزام لگایا گیاہے ، تاہم سوشل میڈیا کے اپنے نارم ہوتے ہیں باجود اس کے کہ جھوٹی وڈیو تھی اس کو خوب وائرل کیا گیا۔اس کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے یوم وفات کو بھی اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ منایا گیا۔
افضل الخلق بعدالرسل۔ شہر میں تعطیل کے مطالباتی بینرز لگائے گئے۔ مجھے صاف محسوس ہوتاہے کہ متذکرہ ایشوز میں رد عمل کا کوئی نہ کوئی باہمی تعلق ہے۔
بلدیاتی قانون کے خلاف کراچی میں جماعت اسلامی کا دھرنا اس ہفتہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ایم کیو ایم نے اس دوران ایک دن زبردستی کا احتجاج کر کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کیا۔پیپلز پارٹی نے قریب میں موجودپی ایس ایل کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کی وجہ سے سخت رد عمل دیا اور ایم کیو ایم نے مظلوم کے روپ میں سامنے آنے کی کوشش کی۔ پی ایس ایل کا جوش سوشل میڈیا پر مستقل برقرار نظر آیا ، تھیم سانگ سے لے کر مقابلوں تک سب کو ٹرینڈ لسٹ میں جگہ ملی۔ اپوزیشن کی جانب سے عمران خان پر تنقید کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا۔وزیر اعظم نے اس ہفتہ عوام سے خطاب میں اپنی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے پھر ایسے ذو معنی جملے بول دیئے جو خود انکے گلے میں اٹک گئے۔ان میں ’’اگر مجھے نکالا‘ سب سے زیادہ مقبول رہا کیونکہ اس سے پہلے نواز شریف کہہ چکے تھے کہ ’’ مجھے کیوں نکا لا‘‘۔

حصہ