قیصروکسریٰ قسط (34)

281

لڑکی نے ماں کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے تھکی ہوئی نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔ ’’اگر وہ ہمیں پکڑ کر لے جائیں تو آپ دمشق پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہمارا مکان شہر کے مشرقی دروازے کے بالکل قریب ہے اور میرے نانا کا نام تھیوڈوسیس ہے۔ جب آپ انہیں یہ بتائیں گے کہ آپ کی فسطینہ گرفتار ہونے سے پہلے بارش کے طوفان میں یروشلم سے نکلی تھی اور پھر اُس نے اتنا لمبا سفر طے کیا تھا تو آپ دیکھیں گے کہ وہ یروشلم کے گورنر کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور آپ میرے باپ کے متعلق بھی نہیں جانتے۔ اماں جان آپ انہیں بتائیے کہ میرا باپ کون ہے۔ پھر انہیں یقین آجائے گا کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور ہم دمشق تک اطمینان سے سفر کرسکتے ہیں‘‘۔
فسطینہ کی ماں اور عاصم اضطراب وپریشانی کی حالت میں اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور تھوڑی ہی دیر میں فسطینہ آنکھیں بند کیے گہری نیند میں بڑبڑا رہی تھی۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ بھی تھوڑی دیر آرام کرلیجیے‘‘۔
فسطینہ کی ماں نے زمین پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کرلیں اور تھوڑی دیر بعد اپنی بیٹی کی طرح وہ بھی گہری نیند سو رہی تھی۔
عاصم دیر تک فسطینہ کی طرف دیکھتا رہا۔ اُس کا حسین چہرہ اُسے بیک وقت معصوم، شوخ اور مغرور دکھائی دیتا تھا۔ اُسے گزشتہ چند گھنٹوں کے تمام واقعات ایک خواب معلوم ہوتے تھے۔ اور یہ خواب جس قدر دلچسپ اور دلفریب تھا اُسی قدر مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر رات کے وقت یروشلم کے دروازے بند نہ ہوتے اور مجھے بارش سے پناہ لینے کے لیے فرمس کی سرائے کا رُخ نہ کرنا پڑتا تو ان سے میری ملاقات بھی نہ ہوتی۔ میں دنیا سے تمام رشتے توڑ کر سکون کی تلاش میں نکلا تھا۔ مجھے اپنے سفر میں کسی کی رفاقت کی تمنا نہ تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قدرت نے تین مصیبت زدہ افراد کو مختلف سمتوں سے دھکیل کر ایک راستے پر ڈال دیا ہے؟ کیا قدرت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اس وقت فسطینہ کے بجائے سمیرا میرے پاس ہوتی… اُس سے میری پہلی ملاقات جن حالات میں ہوئی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ غیر متوقع اور ناقابل یقین تھے۔ اور میں نے ان غیر متوقع حالات کو قدرت کا معجزہ سمجھ کر یہ یقین کرلیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کرسکتی۔ سمیرا کی رفاقت کے بغیر میرے ذہن میں اپنے مستقبل کا کوئی تصور نہ تھا۔ لیکن اب وہ مرچکی ہے۔ میں اُسے دوبارہ نہیں دیکھوں گا۔ منات جس کی مورتی کے سامنے میں نے منتیں مانی تھیں صرف یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے راستے سے بھٹک کر سمیرا کے گھر پہنچ جائوں۔ اُس نے عمیر کو بے بسی کے عالم میں میرے راستے میں ڈال دیا تھا۔ اُسی نے میرے دل میں عدی کے خاندان کے لیے دوستی اور محبت کے جذبات بیدار کردیے تھے اور مجھے اِس بات کا قطعاً احساس نہ تھا کہ میں اپنے قبیلے سے بدعہدی کررہا ہوں۔ کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ میں نے اُن پر موت کے دروازے کھول دیے ہیں، میں جسے نیکی سمجھتا تھا وہ میری زندگی کا سب سے بڑا جرم بن جائے گا اور میں جن پھولوں کو ہاتھ لگائوں گا وہ خاکستر بن کر رہ جائیں گے۔
عاصم نے کرب کی حالت میں آنکھیں بند کرلیں اور اپنے دل میں کہا۔ ’’قدرت کی بے رحم قوتو! اب تم مجھ سے مذاق نہیں کرسکتیں۔ اب میں نئے سپنے نہیں دیکھوں گا۔ اب مجھے کسی خواب کی تعبیر پریشان نہیں کرے گی۔ اب پھولوں کی جستجو مجھے انگاروں میں ہاتھ ڈالنے پر آمادہ نہیں کرے گی۔ تم میرے خالی ہاتھوں سے کچھ نہیں چھین سکو گے۔ دمشق پہنچنے کے بعد مجھے ان لوگوں سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ وہاں سے ہمارے راستے مختلف ہوجائیں گے‘‘۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب وہ دوبارہ فسطینہ کی طرف دیکھ رہا تھا تو اُس کے دل میں اس قسم کے سوالات اُبھر رہے تھے۔ ’’کیا دمشق سے آگے اپنی زندگی کے ویران راستوں پر قدم رکھتے ہوئے مجھے کسی ہم سفر کی احتیاج محسوس نہیں ہوگی؟۔ کیا مجھے اِس عارضی رفاقت کا تصور پریشان نہیں کرے گا‘‘۔
عاصم کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ جتنا فسطینہ کی طرف دیکھتا اتنی ہی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتا کہ مستقبل کے تاریک خلا میں یہ تابناک چہرہ مدتوں اُس کا تعاقب کرتا رہے گا۔ تاہم اُسے یہ اطمینان تھا کہ اگر مجبوری نہ ہوتی تو یہ مغرور لڑکی ایک غریب الدیار عرب کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہ کرتی اور جب وہ دمشق پہنچ جائیں گے تو ان کے راستے خودبخود ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے۔ اچانک اُسے کسی کے پائوں کی آہٹ سنائی دی اور وہ چونک کر پیچھے دیکھنے لگا۔ ایک عمر رسیدہ آدمی آہستہ آہستہ ٹیلے پر چڑھ رہا تھا۔ عاصم اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ بوڑھے نے قریب پہنچ کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور کہا۔ ’’جب آپ سڑک سے اُتر کر اِس طرف آرہے تھے تو میں نے آپ کو دیکھا تھا۔ میں سمجھا شاید آپ آگے کسی گائوں کی طرف جارہے ہیں۔ لیکن ابھی میں اپنے کھیتوں کی طرف جارہا تھا آپ یہاں بیٹھے دکھائی دیے۔ اگر آپ سڑک سے اُتر کر اس طرف نہ آتے تو تھوڑی دور آگے آپ ایک سرائے میں قیام کرسکتے تھے۔ اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے گھر تشریف لے چلیں، میں بستی کے باہر اُس باغ کے پیچھے رہتا ہوں۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ کا شکریہ! لیکن اب ہم تھوڑی دیر میں یہاں سے روانہ ہوجائیں گے‘‘۔
’’تو میں آپ کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘
’’آپ بہت نیک دل معلوم ہوتے ہیں ورنہ رومیوں کے گھوڑے اگر بھوکے ہوں تو وہ انہیں ہماری فصلوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ میں ابھی چارے کا انتظام کردیتا ہوں‘‘۔ بوڑھا یہ کہہ کر واپس چل دیا۔
O
کچھ دیر بعد گھوڑے چارا کھارہے تھے اور بورھا کسان اور اُس کا ایک نوجوان بیٹا عاصم کے پاس بیٹھے تھے۔
کسان نے کہا۔ ’’جناب! اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’کہیے!‘‘۔
’’میرا بڑا بیٹا فوج میں ملازم ہے۔ پچھلے مہینے اُس نے مجھے غزہ سے اطلاع دی تھی کہ ہمارے دستے دمشق جارہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد سے اُس کا کوئی خط یا پیام نہیں آیا۔ اگر آپ اُسے گھر آنے کے لیے کچھ دن کی رخصت دلواسکیں تو میں آپ کا بے حد ممنون ہوں گا۔ میری بیوی بیمار ہے اور اُسے بہت یاد کرتی ہے۔ اُسے رخصت نہ مل سکے تو بھی ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ خیریت سے ہے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں اُسے دمشق میں تلاش کروں گا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں کسی سپاہی کو چھٹی نہیں مل سکتی۔ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اُس کی خیریت کی اطلاع مل جائے‘‘۔
’’آپ بہت نیک دل ہیں۔ ورنہ رومی افسر کسی شامی سے ہمکلام ہونا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں، آج چند رومی ہمارے گائوں سے گزرے تھے اور میں نے یہی التجا اُن کے افسر سے کی تھی۔ لیکن اُس نے جواب دینے کے بجائے مجھے چابک رسید کردیا۔ اگر گائوں کا ایک آدمی مجھے دھکا دے کر ایک طرف نہ ہٹاتا تو اُس نے مجھے اپنی رتھ کے نیچے کچل ہی دیا ہوتا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’وہ کوئی بددماغ آدمی ہوگا‘‘۔
نوجوان نے کہا۔ ’’جناب! اگر میں وہاں ہوتا تو یہ ضرور پوچھتا کہ اگر تم انطاکیہ اور حمص سے شکستیں کھا کر بھاگے ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے‘‘۔
بوڑھے نے خوفزدہ ہو کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’جناب! یہ لڑکا بہت بیوقوف ہے آپ اس کی بات کا کوئی خیال نہ کریں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ ایک غیرت مند بیٹا اپنے باپ کے ساتھ بدسلوکی برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر یہ نوجوان اُس رومی افسر کے منہ پر تھپڑ رسید کردیتا تو بھی میں اسے حق بجانب سمجھتا‘‘۔
بورھے کسان کا خوف اب پریشانی اور حیرت میں تبدیل ہورہا تھا۔ ’’جناب! ہم لوگ تصور میں بھی ایسی گستاخی نہیں کرسکتے۔ آپ جیسے نیک دل انسان کو ہماری وفاداری پر شبہ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے آپ کی وفاداری پر کوئی شبہ نہیں اور میں اس بات پر نادم ہوں کہ رومی فوج کا ایک افسر آپ سے اس قدر بدسلوکی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ میں دمشق پہنچتے ہی آپ کے بیٹے کا پتا چلائوں گا، اُس کا نام کیا ہے؟‘‘
’’اُس کا نام یوسف ہے اور اُس کے خدوخال میرے اس چھوٹے لڑکے سے اِس قدر مشابہت رکھتے ہیں کہ آپ اُسے دیکھتے ہی پہچان لیں گے‘‘۔
عاصم نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ دمشق کے حالات مجھے کتنی دیر وہاں ٹھہرنے کی اجازت دیں گے۔ لیکن اگر مجھے موقع ملا تو میں اُسے تلاش کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’جناب! آپ کے خیال میں دمشق کے حالات بہت زیادہ مخدوش تو نہیں ہیں؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’دمشق کو خطرہ ضرور ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ایرانی اس شہر کو فتح نہیں کرسکتے‘‘۔
’’جناب مجھے بھی یقین ہے کہ فوکاس جیسے ظالم حکمران سے نجات حاصل کرنے کے بعد قسطنطنیہ کے حالات بدل چکے ہیں اور ہمارا نیا شہنشاہ میدان میں آتے ہی ایرانیوں کا منہ پھیر دے گا‘‘۔
عاصم کو روم اور ایران کی جنگوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُسے اس بات سے بھی کوئی سروکار نہ تھا کہ فوکاس کس قدر ظالم تھا اور نئے قیصر کے عزائم کیا ہیں، وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ یہ سادہ دل کسان اُس کو ایک رومی افسر سمجھ رہا ہے اور وہ اُسے یہ نہیں بتا سکتا کہ میرا ظاہری لباس تمہیں دھوکا دے رہا ہے۔ تاہم یہ تصنع اُس کے بدوی مزاج کے خلاف تھا اور ندامت کے احساس سے اُس کی گردن جھکی جارہی تھی۔
بوڑھے کو اس بات کی خوشی تھی کہ رومی فوج کا ایک بڑا عہدہ دار اُس سے ہمکلام ہے۔ وہ مشرق و مغرب کے تازہ ترین حالات معلوم کرنے کے لیے بیتاب تھا اور عاصم اپنے دل پر جبر کرکے اُس کے ہر اُلٹے سیدھے سوال کا جواب دینے کی کوشش کررہا تھا۔ جب درختوں کے سائے طویل ہونے لگے تو اُس نے فسطینہ کی ماں کا بازو ہلا کر اُسے جگایا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور پریشانی کی حالت میں بوڑھے کسان اور اُس کے بیٹے کی طرف دیکھنے لگی۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ خاصی دیر سوچکی ہیں، اب ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے گھوڑے بھی تازہ دم ہوچکے ہیں۔ یہ شریف آدمی اُن کے لیے چارا لے آیا تھا‘‘۔
ماں نے کسی توقف کے بغیر فسطینہ کو جگادیا۔اور تھوڑی دیر بعد یہ لوگ اپنے گھوڑوں پر سوار ہورہے تھے۔
بوڑھے کسان نے کہا۔ ’’جناب! اب تو شام ہونے والی ہے اگر آپ آج رات میرے ہاں ٹھہر سکتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی‘‘۔
’’نہیں! ہمارے لیے بلاتاخیر دمشق پہنچنا ضروری ہے۔ اگر میں دوبارہ اس راستے سے گزرا تو آپ کے پاس ضرور ٹھہروں گا۔ ہاں! دیکھے، اگر گائوں کے باہر سے کوئی راستہ سڑک سے ملتا ہے تو ہمیں اُس پر ڈال دیجیے۔ اس وقت مجھے گائوں میں سے گزرنا پسند نہیں۔ میں راستے میں جتنے آدمیوں سے ملا ہوں وہ مجھ سے عجیب و غریب سوال کرتے ہیں۔ اور مجھے ان کی باتوں سے بہت اُلجھن ہوتی ہے‘‘۔
’’ٹھیک جناب! ان دنوں ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث چاروں طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور عام لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ ملک کے حالات رومیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لیکن آپ کو گائوں میں جانے کی ضرورت نہیں، اگر آپ ندی کے اِسی کنارے چلتے رہیں تو تھوڑی دور آگے جا کر آپ کو ایک پگڈنڈی ملے گی جو گائوں سے باہر دمشق کی سڑک سے جاملتی ہے۔ اگر آپ حکم دیں تو میں اپنے لڑکے کو آپ کے ساتھ کردیتا ہوں‘‘۔
’’نہیں! اسے تکلیف دینے کی ضرورت نہیں‘‘۔
فسطینہ کی ماں نے سونے کا ایک سکہ بوڑھے کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’لو! یہ تمہارا انعام ہے‘‘۔
کسان زمین سے سکہ اُٹھانے کے بجائے سراپا احتجاج بن کر عاصم کی طرف دیکھنے لگا… عاصم گھوڑے سے کودکر آگے بڑھا اور اُس نے زمین پر پڑا سکہ اٹھا کر اُس کے بیٹے کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیجیے یہ صرف انعام ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ