سچی کہانی:اسباب

170

وہ گیارہ، بارہ سال کی بچی تھی، چہرے پر معصوم مسکراہٹ ثبت تھی۔ فرشتوں جیسے کپڑے بھی سفید تھے۔ کوئی خون کا نشان تھا نہ ہی زخم۔ جب ڈیوٹی آفسیر کا تھانے سے بلاوا آیا کہ آکر انسپکشن کرلیں، غور سے دیکھ کر اس کے گلے میں گلا گھونٹنے کے ہلکے سے نشان ثبت نظر آئے۔ چند ناخن کے کھرونچے تھے اور بس… وہ بچی پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ کفن کی چادر میں چھپا دی گئی۔
وجہ صاف تھی کہ اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے، لیکن شناخت نہ تھی۔ چینل اور سوشل میڈیا میں ٹکر چلائے گئے، تصویر دکھائی گئی۔ تیسرے دن جا کر بچی کے چچا کی طرف سے فون آیا۔ تھانے میں بلایا گیا، پوچھ گچھ ہوئی تو پتا چلا اس کا باپ بھی ہے۔ باپ کو بلا کر معلوم کیا گیا کہ بچی گم ہوئی تو رپورٹ کیوں نہ لکھوائی؟
باپ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پایا۔ چچا سے مزید پوچھ گچھ پر پتا چلا کہ انہوں نے بھائی کو فون کیا تھا اور پوچھا تھا کہ بچی کہاں ہے؟
اس نے جواب دیا ’’اِدھر ہی سو رہی ہے۔‘‘ اسے بتایا کہ اس کی تصویر اور خبر چل رہی ہے، پولیس اسٹیشن سے بلا رہے ہیں۔ تب ہی باپ آیا تھا۔ باپ کے چہرے پر اطمینان کا اظہارتھا بلکہ کچھ زیادہ ہی پُرسکون تھا۔ بیٹھا ہوا سگریٹ کے کش لیتا جارہا تھا۔ کبھی کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتا۔ پولیس والے تو باڈی لینگویج کو پڑھتے ہیں۔ تفتیشی افسر اندر بیٹھا اس کی حرکات دیکھ رہا تھا۔
باپ پُرسکون رہنے کا بناوٹی اظہار کررہا تھا۔ تفتیشی افسر نے اپنے برابر بیٹھے حوالدار سے پوچھا ’’لڑکی کی ماں کہاں ہے؟‘‘
بتایا گیا کہ اس نے تو چھ سال پہلے طلاق لے لی تھی، کیوں کہ شوہر شک کرتا تھا اور کمرے میں تالا لگا کر بند رکھتا تھا۔ بچی کو ماں کے حوالے نہیں کیا تھا۔ طلاق کے بعد بچی شروع میں دادی اور چچا کے ساتھ رہتی تھی، ابھی دو سال پہلے باپ اپنے پاس لے آیا تھا جب دادی کا انتقال ہوا تھا۔
’’وجہ وہی شک شبہ تھا۔ گھر میں چچازاد بھائی تھے۔ لڑ جھگڑ کر بیٹی کو لے کر چلا گیا تھا‘‘۔ لڑکی کے چچا نے بتایا۔ وہ چہرے سے افسردہ تھا، فکرمند تھا، کم از کم باپ کے مقابلے میں زیادہ غمگین تھا۔
’’عریشہ میری بیٹی کے برابر تھی۔ ہم اس کو روک نہیں سکتے تھے۔ باپ ہے… پتا نہیں کیا معاملہ ہے؟‘‘ ایک آنسو آنکھ سے ٹپکا جو ہاتھ کی پشت سے اس نے رگڑ ڈالا۔
باپ کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا تھا۔ وہ تو اپنے آپ کو بے فکر اور پُرسکون ظاہر کرنے کی کوشش میں ہی تھا۔
’’میں اپنی بیٹی کی میت لے جائوں؟‘‘ اس نے سگریٹ کا آدھا پیا ہوا ٹکڑا فرش پر مسل کر بجھایا۔
’’نہیں، ابھی نہیں… کچھ قانونی کارروائی باقی ہے۔‘‘
’’اچھا…! کب تک ہوجائے گی؟‘‘
’’کل تک امکان ہے۔‘‘
’’اچھا… میں چلتا ہوں۔‘‘
وہ مزید مطمئن ہوکر دروازے کی طرف بڑھا۔
’’نہیں تم ابھی نہیں جاسکتے۔‘‘ تفتیشی افسر نے سپاہی کو اشارہ کیا، وہ اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
’’کیوں بھئی، میں کیوں نہیں جاسکتا؟‘‘ اس نے ذرا مزید بہادری سے افسر کو گھورا۔
’’اس لیے کہ ابھی تم پر ہی سب سے زیادہ شک ہے۔ اسے لاک اَپ میں لے جائو۔‘‘ اسی افسر نے سپاہی کو اشارہ کیا۔
بچی کے باپ نے ایک دن لاک اَپ میں رہ کر دوسرے دن مان لیا اور بھری عدالت کے روبرو اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا باقاعدہ اعتراف بھی کرلیا۔ شواہد بھی موجود تھے۔ اُسی برانڈ کی سگریٹ کے ٹوٹے جو وہ پیتا تھا، جائے وقوع پر موجود تھے۔ پھر اس کے جوتوں کے نشانات… لیکن یہ سب ایسے نہیں تھے کہ قاتل کی نشاندہی کرپاتے۔ بہرحال اب تو قاتل اپنے منہ سے اعتراف کررہا تھا… ساتھ مطمئن بھی تھا۔
عدالت نے وکیل کو اگلی پیشی کا کہا اور اگلی پیشی پر مکمل معلومات کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی، یعنی باپ نے کیوں قتل کیا؟
اگلی پیشی پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجرم نے اسے وجہ بتادی ہے، اگر عدالت کی اجازت ہو تو پیش کرے۔
جج صاحب نے وکیل کو دیکھا، پھرکٹہرے میں کھڑے مجرم کو غور سے دیکھا۔ انہوں نے پچھلے کئی دن اسی سوچ میں گزارے تھے کہ ایک باپ اپنی معصوم چھوٹی بچی کو کیونکر قتل کرسکتا ہے؟ کن وجوہات کی بنا پر قتل کرسکتا ہے؟ لیکن وجہ کوئی بھی ان کے دل کو نہیں لگ رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مجرم خود بتائے کہ اس نے اپنی معصوم بیٹی کوکیوں قتل کیا؟
بچی کا باپ… پتا نہیں اسے باپ کہنا بھی چاہیے یا نہیں… یہ سن کر پریشان ہوا۔ وکیل اس کے پاس آکر کھڑا ہوا، تھوڑی سی کچھ بات کی۔ باپ کی گردن نفی میں ہلی۔ وکیل دوبارہ جج کے روسٹرم کے پاس آیا اور بولا ’’جج صاحب میرے موکل کی اس سلسلے میں ہمت نہیں ہورہی بات کرنے کی، براہِ کرم آپ مجھ کو بات کرنے کی اجازت دیں۔‘‘
جج کی نظریں ابھی تک غور سے مجرم کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اس کے چہرے پر شرمندگی یا پشیمانی ڈھونڈنے کی کوشش کی، جو کہیں نہیں تھی۔ البتہ گھبراہٹ اور خوف کی لہریں موجود تھیں۔ جج نے وکیل کو اجازت کا اشارہ کیا اور وکیل نے روسٹرم کے قریب آکر بات شروع کی:
’’جج صاحب میرا موکل خوف اور شک و شبہ کا شکار ہے، یعنی ایک طرح کا نفسیاتی مریض ہے، اسی وجہ سے اس کی ازدواجی زندگی متاثر ہوئی۔ بیوی چھوڑ کر چلی گئی، لیکن اس کے چلے جانے سے اس کے خوف اور شک و شبہ میں مزید اضافہ ہوگیا، اس کو ماحول اور معاشرے پر اعتماد نہ رہا، ہر رشتہ اسے ناقابلِ اعتبار لگا، خاص طور سے عورت… خواہ بیوی ہو، بیٹی ہو یا بہن، اس کی عزت کے لٹنے کا خطرہ ہر لمحہ محسوس ہوا، اسی وجہ سے وہ کہیں جم کر کام نہ کرسکا۔ اس کو اپنی بیوی اور بیٹی کی فکر رہتی۔ ہر لمحہ وہ ذہنی طور پر منتشر رہتا، ایک خوف کا شکار رہتا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ اسی ذہنی دبائو نے اس کو شکی بنادیا جس کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو تالا لگا کر رکھنے لگا، جس کے باعث اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ بات یہ ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ بیوی اس طرح کیسے ساتھ رہتی! اس کا چھوڑ کر جانا بنتا تھا، لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا عمل تھا جس نے میرے موکل کو اس قدر شکی مزاج بنایا، اس قدر شدت پر آمادہ کیا کہ وہ رشتوں پر اعتماد نہ کرسکا، انہیں نبھانے کے بجائے ان کو ختم کرنا اسے بہتر محسوس ہوا۔
جناب جج صاحب! میں اپنے موکل کے کسی عمل کا دفاع نہیں کررہا ہوں، کیوں کہ اس کے عمل کا دفاع ممکن ہی نہیں ہے، کہ اس نے خود اس کا اعتراف کیا ہے، لیکن اس کو مجرم بننے کے عوامل پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے جوتے میں پائوں رکھ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں آج ریاست کے اہم ترین ستون کی جانب سے رشتوں پر کاری ضرب لگائی جارہی ہے، ہمارے میڈیا پر دن رات ایسے ڈرامے چل رہے ہیں جو دلوںمیں شکوک و شبہات کی فصلیں لگا رہے ہیں اور پھر ان کو پانی دے کر بارآور بنا رہے ہیں۔
میرے موکل کی بیٹی معصوم عریشہ بھی دلوں میں پیدا کیے گئے شکوک کی نذر ہوئی ہے، اور نہ معلوم کتنی معصوم کلیاں یا تو مسل دی جاتی ہیں یا پھر یوں محافظوں کے ہاتھوں ہی دوسری دنیا روانہ کردی جاتی ہیں۔
محترم جج صاحب! روز ہی اخبار ان خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ کشمور کی علی شاہ اور نواب شاہ کی نورین… کیا ان کو مسل دینے والوں کو سزا مل سکی ہے؟ ہاں البتہ مظلوموں کے خاندان اس کی سزا بھگتتے ہیں اور مجرم مونچھوں کو تائو دیتے معاشرے میں آزاد پھرتے ہیں۔
ڈراموں اور اشتہارات میں رشتوں کا تقدس پامال ہوتے دکھانا معمول بن گیا ہے۔ خواتین کی عزت یوں اچھالی جاتی ہے جیسے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جناب جج صاحب! ہمارا معاشرہ ایسا تو نہ تھا، ایسا تو اسے بنایا جارہا ہے اور بڑی محنت اور تگ دو سے بنایا جارہا ہے۔
محترم جج صاحب! کیا آپ فیصلہ لکھتے وقت ایسے بڑے مجرموں کو نظرانداز کردیں گے، انہیں سزا نہیں دیں گے جو ہماری قوم اور معاشرے کو بدل رہے ہیں؟ انہیں مجرم بننے پر اکسا رہے ہیں؟ محترم جج صاحب! اگر انہیں نہ روکا گیا تو کل کسی کی بیٹی محفوظ نہیں ہوگی۔ محترم جج صاحب! آپ کی بھی نہیں۔‘‘ وکیل نے اپنی بات ختم کرکے جج کو گہری نظروں سے دیکھا۔
جج صاحب نے وکیل سے کہا ’’آپ کا کہنا درست ہے، لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ باپ نے بچی کو کیوں قتل کیا؟‘‘
’’جناب جج صاحب! وجہ وہی شک تھی۔‘‘
وکیل،جو اب تک روسٹرم پر کھڑا غور سے جج کودیکھ کر باتیں کر رہا ہے اس کی نگاہیں کٹہرے میں کھڑے باپ پر مرکوز تھیں۔

حصہ