ہم کیوں مسلمان ہوئے

298

پروفیسر غازی احمد (پاکستان) سابق کرشن لال
پروفیسر غازی احمد‘ ایم اے عربی (گولڈ میڈلسٹ) ایم اے علوم اسلامیہ (گولڈ میڈلسٹ) ایم او ایل (عربی) آنرز عربی (میڈلسٹ) فاضل درسِ نظامی‘ بی ایڈ‘ سابق لیکچرار شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی‘ سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں ضلع جہلم۔ آج کل اپنے آپ کو تبلیغ دین کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ حال ہی میں انہوںنے اپنے قبولِ اسلام کے مفصل حالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے جو تاثر سے بھرپور اور بڑی ایمان افروز ہے۔
…٭…
میں 1922ء میں ضلع جہلم کے ایک دور افتادہ گائوں میانی میں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوا۔ والدین نے نام کرشن لال رکھا۔ میرے خاندان کے تمام افراد سناتن دھرمی عقائد کے مالک تھے۔ شروع میں‘ میں بھی انہیں نظریات کا پابند تھا لیکن آٹھویں جماعت میں پہنچا تو میرا رجحان خود بخود دینِ اسلام کی طرف ہونے لگا۔ اسی زمانے میں میری ملاقات بوچھال کلاں کے ایک عالمِ دین مولانا عبدالرئوف صاحب سے ہوئی۔ انہوں نے متعدد نشستوں میں مجھ پر اسلام کی حقانیت واضح کی۔ میں ان کے مواعظ سے بہت متاثر ہوا لیکن ابھی زمانہ بچپن کا تھا۔چنانچہ جب بھی اسلام قبول کرنے کا سوال آتا‘ دل میں والدہ اور بھائیوں کی محبت کا بہائو تیز تر ہوجاتا۔ بچپن کی ناپختگی اور ناتجربہ کاری آڑے آتی اور میں کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچ پاتا۔
یکم مارچ 1938ء کی رات تھی جب میں نے ایک سہانا اور مبارک خواب دیکھا۔ میں مکہ معظمہ میں بیت اللہ کے عین سامنے کھڑا ہوں۔ سید الاوّلین واالآخرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ رومی و ابی و امی) دیوارِ کعبہ سے تکیہ لگائے میرے سامنے جلوہ افروز ہیں۔ اردگرد صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف فرما ہیں۔ میں والہانہ جذب و شوق کے عالم میں صحابۂ کرامؓ کے درمیان سے گزرتا ہوا سید الانبیا کی بارگاہِ اقدس میں پہنچتا ہوں۔ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر میرا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ میرے بدن کے رگ و ریشے میں مسرت و شادمانی کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں ’’کہو کیسے آئے ہو؟‘‘
’’مشرف بہ اسلام ہونے کے لیے۔‘‘ میں عرض کرتا ہوں۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور وفور مسرت سے چمک اٹھتا ہے۔ آپ میرا ہاتھ اپنے مقدس ہاتھوں میں تھام کر کچھ پڑھتے ہیں جسے میں نہیں سمجھ سکا۔ پھر فرماتے ہیں ’’بس اب تم دولتِ اسلام سے بہرور ہو گئے ہو۔‘‘
حسبِ معمول صبح آنکھ کھلی تو میرا دل خوشی کے بے پایاں جذبات سے معمور تھا۔ چنانچہ جب والدہ محترمہ کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے لگاتو انہوں نے مجھ سے خلاف معمول اس قدر خوش خوش نظر آنے کی وجہ پوچھی۔ میں بات کو ٹال گیا۔
…٭…
مدرسہ کے اوقات میں مولانا عبدالرئوف صاحب سے مل کر انہیں جب رات کا پُر لطف خواب سنایا تو انہوں نے فرمایا روزانہ سوتے وقت اللہ سے راہِ ہدایت کی دعا کیا کرو۔ میں ایسا ہی کرنے لگا۔ دو ہی دن گزرے تھے کہ 3 مارچ 1938ء کی شب کو میں سو رہا تھا کہ خواب میں یوں محسوس ہوا جیسے مدرسہ بند ہونے پر میں میانی کے دیگر طلبہ کے ساتھ گھر آرہا ہوں۔ راستے میں ایک قوی ہیکل‘ دیو قامت اور کریہہ المنظر شخص کھڑا ہے جسے دیکھ کر ہم سب پر لرزہ طاری ہوگیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ دجال ہے۔ ہم جس سے بھی یہ پوچھتے کہ تم کس کے بندے ہو تو یہی جواب دے کہ میں خدا کا بندہ ہوں۔ پھر وہ میرے ساتھیوں سے فرداً فرداً سوال کرنے لگا جو طالب علم اس کی مرضی کے مطابق جواب دیتا اسے قسم قسم کے پھل‘ کھانے اور کھلونے دیتا اور جو اس کی بات نہ مانتا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔
آخر میں جب میری باری آئی تو اس نے پوچھا ’’کس کے بندے ہو؟‘‘
’’اللہ تعالیٰ کا بندہ۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
یہ سنتے ہی اس نے مجھے اس زور کا گھونسا رسید کیاکہ میں کئی گز دور جا گرا اور رونے لگا۔ دجال نے تحکمانہ لہجے میں آواز دے کر کہا ’’اِدھر آئو۔‘‘ میں ڈرتا کانپتا اُدھر چلا ہی تھا کہ میرے کانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرور آواز آئی ’’پہلے میرے پاس آئو۔‘‘ آپؐ کو دیکھ مجھے تعجب ہوا کہ ابھی کل ہی تو میں نے انہیں مکہ مکرمہ میں دیکھا تھا۔ آج یہاں کیسے تشریف لے آئے۔ میں دجال کی سخت مار کی وجہ سے روتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالی میں پہنچا۔ آپؐ نے میری کمر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا ’’دیکھو! میں صرف تمہاری خاطر یہاں آیا ہوں۔ دجال کی بات ہرگز نہ ماننا۔ میں تمہارے لیے دعا کر رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم ناکامی کا منہ نہیں دیکھو گے۔‘‘ یہ ارشاد فرما کر آپؐ تشریف لے گئے تو میں دجال کے پاس پہنچا۔ اس نے پھر وہی سوال دہرایا۔ میں نے بھی حسب سابق وہی جواب دے دیا۔ اس پر وہ مارے غصے کے لال پیلا ہو گیا اور جھلا کر جب اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو مارے دہشت کے میری چیخ نکل گئی اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی‘ پھر میں صبح تک نہ سو سکا۔
…٭…
میں نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ آج بوچھال پہنچ کر قبولِ اسلام کا اعلان کر دوں گا۔ والدہ محترمہ نے حسبِ معمول جب صبح کو کھانا تیار کیا اور میں ان کے پاس بیٹھ کر کھانے لگا۔ جذبات میں تلاطم برپا تھا۔ جانتا تھا کہ آج آخری مرتبہ ماں کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہوں اور والدین اور بھائیوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہا ہوں۔میں نے بہانے سے بھائیوں کے سر پر آخری مرتبہ ہاتھ پھیرا اور شفقت و محبت کا اظہار کیا۔ اسی طرح حیلے بہانے سے پیاری ماں کے قدم چھو کر ہدیۂ عقیدت و احترم پیش کیا اور بستہ اٹھا کر اپنے گھر پر‘ تینوں بھائیوں پر اور ماں پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور پُرنم آنکھوں سے شہر کی راہ لی۔ 4 مارچ 1938ء کو جمعہ کا مبارک دن تھا اور محرم کی پہلی تاریخ جب میں نے غسل کیا اور سیدھا مسجد میں جا کر مولانا عبدالرئوف صاحب کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ میرا اسلامی نام غازی احمد تجویز ہوا۔
…٭…
میرے اسلام لانے کی اطلاع جب گھر پہنچی تو کہرام سا مچ گیا۔ چنانچہ تین چار دن کے اندر ہی اندر میرے والد اور رشتے داروں نے مولانا عبدالرئوف اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر ملک محمد طفیل پر مقدمہ دائر کر دیا کہ انہوں نے ہمارے نابالغ بچے کو ورغلا کر زبردستی مسلمان بنا لیا ہے۔ ایس ڈی ایم کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ ایک طرف والد محترم اور متعدد ہندو رشتے دار تھے۔ دوسری طرف میں خود اور ہزاروں مسلمان۔ عدالت میں میرے بیان ہوئے‘ میں نے بتایا کہ برضا و رغبت مسلمان ہوا ہوں۔ میرے قبول اسلام میں کسی فرد بشر کا ہاتھ نہیں۔ میں مسلمانوں کے پاس ہی رہوں گا۔ والدین کے پاس مجھے جان کا خطرہ ہے۔ عدالت نے فیصلہ میرے حق میں دے دیا۔ مسلمان خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ میں شاداں و فرحان ان کے ساتھ واپس آگیا۔
میرے والد نے سیشن جج جہلم کی طرف رجوع کیا۔ وہاں پیشی ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ جج صاحب کا روّیہ میرے خلاف ہے۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا اور مجھے دوسری پیشی تک والدین کے حوالے کر دیا گیا۔ میں نے جانے سے انکار کر دیا‘ مگر مجھے زبردستی کار میں بٹھا دیا گیا اور دریا کے کنارے ایک مندر میں لایا گیا۔ والدہ بھی وہیں آگئیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر میں اپنی روش سے باز نہ آیا تو وہ دریا میں کود کر جان گنوا دوں گی۔ دوسرے ہندو بھی طرح طرح کے لالچ دیتے تھے۔
دراصل والد صاحب نے مل ملا کر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر جہلم سے میرے نابالغ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا تھا اور اسی کی بنیاد پر سیشن جج نے میرے والد کے حق میں فیصلہ دے کر مجھے ان کے حوالے کر دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ جج مسلمان تھا۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے جج کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کرایا تھا۔
…٭…
فیصلے کے دن ہی والد صاحب مجھے ساتھ لے کر کشمیر روانہ ہو گئے۔ راستے میں جموں اور بٹوت ٹھہرتے ہوئے چوتھے دن ہم بھدرواہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے دوسرے ہی دن والد صاحب مجھے ایک پنڈت کی معیت میں گائوں سے باہر ایک بلند پہاڑی پر لے گئے اور رو رو کر مجھے ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کی کوشش کرنے لگے۔ انہوں نے کہا ’’میں اس مقدمے پر دس ہزار روپیہ خرچ کر چکا ہوں۔ میری عزت خاک میں مل گئی ہے۔ میں خاندان میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا وغیرہ۔ میرا دل پسچ گیامگر رحمتِ ایزدی نے سہارا دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے تمام تر مناظر میری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ میں نے ادب سے جواب دیا:
’’مجھے آپ کی ساری پریشانی کا خوب احساس ہے‘ مگر میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ میں اب ترکِ اسلام کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اگر آپ مجھے اسلام پر قائم رہنے کی بخوشی اجازت دے دیں تو میں زندگی بھر آپ کا غلام رہوں گا۔‘‘
یہ سنتے ہی والد صاحب غصے میں آگئے۔ انہوں نے چھڑی اٹھا لی اور مجھے نہایت بے رحمی سے پیٹنے لگے۔ یہ مار اتنی شدید تھی کہ بدن کے ہر حصے سے خون بہنے لگا۔ میں تڑپ تڑپ جاتا مگر والد کو رحم نہ آتا تھا۔ وہ پورے زور سے بے تحاشا مجھے ضربیں لگا رہے تھے۔ بالآخر تھک گئے تو پنڈت سے کہنے لگے ’’کیوں نہ میں اسے دریامیں دھکیل دوں شاید اس طرح کلنک کا ٹیکا میرے ماتھے سے اتر جائے۔‘‘ پہاڑی کے دامن میں بھپرتا ہوا دریا میرے سامنے تھا۔ موت کے خوف سے میں لرز گیا۔ مگر لاکھ لاکھ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ میرے قدموں میں لغزش نہ آنے دی۔ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ والد نے مجھے دریا میں پھینکا تو میں اپنے پیارے نبیؐ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کروںگا۔ میرے آقا! آپؐ نے مجھے اسلام کی جو دولت بخشی میں اس کو صحیح و سالم لے کر حاضر ہو گیا ہوں۔
…٭…
چھڑی کی مار اور بوٹوں کی ان گنت ٹھوکروں سے جسم کا رواں رواں زخمی تھا۔ حتیٰ کہ ناک‘ منہ اور آنکھیں بھی متورم تھیں۔ تقریباً ہفتہ بھر بستر ہی پر دراز رہا۔ والد خود ہی مرہم پٹی کرتے رہے۔ حالت کچھ سنبھلی تو انہوں نے مجھے بھدرواہ ہائی اسکول میں داخل کرا دیا۔ یہ اسکول میرے لیے جہنم سے کم اذیت ناک نہ تھا۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں نے ایک مسلمان لڑکے محمد سے تعلقات بڑھائے اور اس کے توسط سے مولانا عبدالرئوف کو خط لکھا۔ خط ملتے ہی مولانا نے قصبے کے لوگوں کو جمع کیا اور پوچھا ’’کوئی ہے جو جان پر کھیل کر ایک مسلمان کو کافروں کے چنگل سے چھٹکارا دلائے۔‘‘ اس پر ایک غریب لیکن باغیرت شخص اٹھا اور اس نے اپنی خدمات پیش کر دیں‘ اس کا نام جان محمد تھا۔
پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جان محمد صاحب ایک روز اسکول کے اوقات ہی میں بھدرواہ پہنچ گئے۔ دوست محمد نے مجھے آگاہ کیا تو میں تفریح کے بعد روتا روتا اپنے ماسٹر صاحب پاس پہنچا اور شدید پیٹ درد کا بہانہ کیا۔ ماسٹر صاحب نے مجھے چھٹی دے دی۔ میں نے بستہ سنبھالا اور آنکھ بچا کر اسکول سے نکل گیا۔
جان محمد صاحب نے ایک مقامی مسلمان راہبر کو ساتھ لیا اور ہم بھدرواہ سے بھاگ کر راتوں رات کشمیرکی سرحد پار کرکے ریاست چنبہ میں آگئے۔ مسلمان راہبر واپس چلا گیا اور ہم دونوں تقریباً ساٹھ میل کا سفر طے کرکے تیسرے دن ڈلہوزی پہنچے۔ سفر سے برا حال تھا۔ پائوں متورم تھے اور کپڑے میلے چیکٹ۔
شام کو ہم براستہ کوٹ امرتسر پہنچے۔ میں نے لباس تبدیل کیا اور کھیوڑہ کی راہ بوچھال کلاں پہنچ گیا۔ لاری اڈے پر ایک ہجوم پذیرائی کے لیے موجود تھا۔
…٭…
1941ء میں میٹرک کا امتحان میں اسکول میں اوّل رہ کر امتیازی حیثیت سے پاس کر لیا۔ اس کے بعد میں نے علوم دینیہ کی طرف توجہ دی چنانچہ 1943ء سے 1948ء تک میں نے مدرسہ خادمِ الشرعیہ پنڈی گھیپ‘ مدرسہ عربیہ اشاعت القرآن گجرات اور دارالعلوم دیو بند سے دینی علوم کی تکمیل کی۔ 1948ء میں مولوی فاضل کا امتحان دیا اور صوبے بھر میں اوّل رہا اس کے بعد میں نے بتدریج ایف اے‘ بی اے‘ بی ایڈ اور ایم اے کیا۔ اللہ کے فضل سے ہر امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات میں تو صوبے بھر میں اوّل رہا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ ساری کامرانیاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہیں۔ 1947ء میں میرے والدین اور بھائی ہندوستان چلے گئے تو میں اپنے آبائی مکان میں منتقل ہو گیا۔ 1948ء سے محکمۂ تعلیم میں ملازمت کی ابتدا ہوئی۔ 1958ء میں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں لیکچرار بنا۔ 1962ء میں شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی میں کام کرتا رہا اور اب گورنمنٹ کالج بوچھال کالاں ضلع جہلم میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہوں۔
اسلام کے سایۂ عاطفت میں آنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دینی و دنیاوی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر عملی طور پر یوں محسوس کیا ہے کہ آج تک کسی امر میں مجھے ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آپ کی دعا میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ان شاء اللہ قیامت کے دن بھی یہی دعا میری نجات کا باعث بنے گی۔
…٭…
جب یہ مضمون تحریر کیا تو موصوف محترم اس کالج میں لیکچرار تھے‘ پھر ترقی پا کر یہیں پرنسپل ہوئے اور 1980ء میں ریٹائر ہوگئے۔

حصہ