سراج منیر کا انٹریو

491

سراج منیر (1990-1951) کے گھرانے کا تعلق غازی پور، یوپی (بھارت) سے تھا۔ ایف اے راج شاہی بورڈ اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ 1976ء میں اسی کالج سے ایم اے انگریزی کی سند لی۔ تین سال درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ پھر 1979ء میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر ’’سعودی ریویو‘‘ کے شعبہ تحقیق سے منسلک ہو کے سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں المروۃ اشتہاری ایجنسی میں اشتہار نویسی اور اشاعتی منصوبہ بندی کی ذمہ داری اٹھائی۔ 1981ء میں واپس آکے اردو ڈائجسٹ کے شریک مدیر اور پھر نوائے وقت میں سینئر ایڈیٹر ہوگئے۔ 1982ء میں انگلستان کی اسلامک پریس ایجنسی سے بطور محقق صحافی وابستہ ہوگئے۔ انگریزی کے ماہانہ جریدے ’’عربیہ‘‘ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ ان کے جلد جلد ملازمت چھوڑنے کی اطلاعات پر ایک دن میں نے سلیم بھائی (سلیم احمد) سے زچ ہو کر شکایت کی کہ ’’یہ سراج صاحب تو کہیں ٹک کر کام ہی نہیں کرتے۔ مسئلہ کیا ہے؟‘‘ سلیم بھائی نے اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ کا بھرپور کش لے کر راکھ جھاڑی اور فرمایا: ’’مسئلہ کیا ہوگا، اس کے لیے نوکری کوئی مسئلہ ہی نہیں‘‘۔
میری اُلجھن رفع ہوگئی۔ اس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ اب جو نوکری ملے گی وہ آخری ہوگی۔ اور یہ تھی ادارئہ ثقافت اسلامیہ کی ڈائریکٹر شپ! تب ادارہ زندہ ہوگیا تھا ساتھ ہی معترضین کی زبانیں بھی دراز ہوگئی تھیں۔ آج وہی ادارہ ہے اس کا کوئی ڈائریکٹر بھی ہے۔ دونوں ہی باتیں کتنی غیر متعلق سی اور ناقابل تذکرہ ہوگئی ہیں۔
سراج منیر ایک شعلہ جسے شعلہ آشام کہیے، شعلہ آواز، شعلہ زن، شعلہ رُخ، شعلہ دروں یا شعلہ مستعجل جو بھڑکا، جس کی روشنی سے نگاہیں خیرہ ہوئیں اور پھر ایک جھماکے کے ساتھ بجھ گیا جو اس شعلہ دروں کے جذب و سوز سے واقف تھے اور اس حقیقت سے بھی آشنا کہ اس نابغہ علم و ادب میں کتنے بے پناہ امکانات پوشیدہ تھے، شبہ کچھ یوں ہوتا تھا جیسے مبداء فیض نے وقتِ عطا ایسی سخاوت اور دریا دلی دکھائی کہ عقل آج بھی محو حیرت ہے کہ علوم و فنون کا کون سا شعبہ اور گوشہ ایسا تھا جس میں اس جینس کو درک حاصل نہ تھا۔ جسے اتنا کچھ، اتنا زیادہ ملے اور بن مانگے ملے اس کا دماغ تو فرش سے عرش پر بھی پہنچ جائے تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔ یہاں معاملہ برعکس تھا، خاکساری، فروتنی، دوست نوازی اور شکر گزاری کا پیکر، کیا تحریر و تقریر، کیا گفتگو اور مکالمہ، ادب سے سیاست اور سیاست و صحافت سے اشتہاری دنیا، یہاں تک کہ حکمت و طب، دست شناسی، زائچہ و تقویم العمر، علم ظاہر و علم مخفی کا کوئی کونا تو چھوڑا ہوتا۔ ان سب باتوں کے علاوہ جس میں حیرت کے ہزار پہلو ہیں، جس چیز نے جس سوال نے آج تک مجھے ششدر و گنگ کررکھا ہے، وہ اس کی موت، ناگہانی موت ہے۔ لاکھ سوچتا ہوں، سر پٹختا ہوں مگر یہ راز کھلتا اور یہ معما حل ہوتا ہی نہیں کہ جب آب و تاب سے چمکنا ہی نہیں تھا تو یہ سورج طلوع ہی کیوں ہوا۔ جب سارے امکانات کو جوبن پر آنا اور خلق خدا کو فیض یاب ہونا ہی نہ تھا تو وقتِ عطا اس سخاوت و دریا دلی کی بھی کوئی ضرورت تھی؟ کوئی نہ کوئی وجہ تو یقیناً رہی ہوگی جس سے ہم ظاہر بیں وقت مرگ بھی لاعلم تھے اور شاید آئندہ بھی رہیں گے۔ ایسے ہی وقتوں کے لیے ہمارے بڑے بوڑھوں نے تسلی کے لیے اور سربستہ و سربند رازوں کے سامنے ہتھیار پھینک کر عاجزی و لاچاری اختیار کرنے کے لیے یہ اعتراف نامہ وضع کر رکھا ہے کہ
’’اللہ کی مصلحت اللہ ہی جانے!‘‘
سراج منیر سے پہلے اس خاکسار کی واقفیت ان کے والد ماجد مولانا متین ہاشمی سے ہوئی۔ مگر فاصلے سے، دور سے… وہ یوں کہ مولانا سابق مشرقی پاکستان کے شہر سیدپور میں قیام پذیر تھے، جہاں سراج منیر نے آنکھ کھولی، اس شہر سے ذرا دور میرا شہر راج شاہی تھا، جہاں مولانا ایک مرتبہ بہ غرض تقریر مدعو کیے گئے۔ کیوں کہ مولانا متین ہاشمی اپنی علمیت سے بھرپور متاثر کن خطابت کی وجہ سے پورے مشرقی پاکستان میں مشہور تھے اور خاص خاص موقعوں پر بلائے بھی جاتے تھے۔ تو جب مولانا ہاشمی راج شاہی مدعو کیے گئے تو ایک بہت بڑے مذہبی اجتماع میں ان کی تقریر سننے کے لیے یہ نو عمر طالب علم بھی موجود تھا۔ یہ نیکر پہننے گلی کوچے میں کھیلنے کودنے کی عمر تھی، جس عمر کی اکثر باتیں بڑے ہو کر یادداشت سے محو ہوجاتی ہیں لیکن مولانا ہاشمی کی وہ تقریر، ان کا دورانِ خطابت آیات قرآنی کی تلاوت، پھر اس کا عام فہم ترجمہ، پھر اس کی تعبیر و تفسیر، ایسا سحر طاری تھا سننے والے پر کہ پھر ویسی خطابت اور ویسا اثر نہ دیکھا اور شاید آئندہ دیکھ بھی نہ سکوں کہ وہ سانچہ ہی ٹوٹ گیا جس میں ایسی ہستیاں اور ایسی شخصیتیں ڈھلا کرتی تھیں۔ پورا مجمع، ساری محفل مولانا کے آواز و انداز کے زیر و بم اور معنی و مطالب کی تاثیر سے سرشار تھی، جب چاہتے رلا دیتے اور جب چاہتے روتے ہوئوں کو ہنسا دیتے۔ ان روتے روتے ہنس پڑنے والوں میں یہ عمر طالب علم بھی شامل تھا جس کے لوح حافظہ پہ وہ منظر آج بھی روشن ہے۔
ہمارے گھر یا یوں کہیے کہ کتابوں کی دکان پر جو اخبارات انگریزی، اردو اور بنگالی زبانوں کے آتے تھے، ان ہی میں ڈھاکا کا ایک اردو اخبار ’’پاسبان‘‘ بھی تھا۔ سنا تھا کہ اس میں ایک نوجوان منجم ستاروں کی چال اور اس حوالے سے پوچھنے والے قارئین کی چال چلن اور مستقبل کی خبر بھی بتاتا ہے۔ یہ منجم، زائچہ بنانے کی مہارت رکھنے والا کوئی اور نہیں سراج منیر ہی تھے جن سے میری ملاقات کراچی میں ہوئی اور چوں کہ نوجوان ادبا و شعراء کا حلقہ ہمارا ایک ہی تھا تو بہت جلد یہ ملاقات محبت کی ڈور سے بندھ گئی۔ محبت کی اس ڈور میں کچھ احترام، کچھ عقیدت، کچھ رعب اور بہت زیادہ بے تکلفی، خوش مزاجی اور علم و ادب کی ہم ذوقی کے خوش رنگ دھاگے دمکتے تھے۔ یہی وجہ ہوئی کہ جب بھی وہ کراچی آتے یا جب بھی میں لاہور جاتا تو ان سے ملے بغیر آنے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ میں ان کا کم سے کم لفظوں میں کہوں تو تقریباً عاشق تھا اور اس کی وجہ سے ان کا علم جو میرے نزدیک بے پناہ‘ ان کے نظر جس میں گہرائی و وسعت اور ان کا حسن سلوک جس میں انکسار اور بے تکلفی ہی تھی‘ چناں چہ ان کی حاضر جوابی اور برجستگی اور اپنے ہی کسی ذہانت آمیز پر تفنّن فقرے پر ان کا قہقہہ مار کر ہنس پڑنا۔ وہ آواز ان کی آج بھی گوشۂ سماعت میں محفوظ ہے۔ لاہور میں ایسی ہی ایک بے تکلف ملاقات جس میں وہ مجھے اپنے ’’غریب خانے‘‘ پر لے گئے (دولت کدہ لکھنے کے بجائے ’’غریب خانہ‘‘ کا بے محل استعمال اس لیے کہ وہ واقعی غریب خانہ ہی تھا جہاں مہمان کی تواضع کے لیے کوئی ڈائننگ میز تک نہ تھی اور انہوں نے پلنگ پر دستر خوان بچھا کر مجھے کھانا تناول کرنے کی دعوت دی۔ حالاں کہ تب تک ان کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک ہو چکی تھی اور وہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کیے جا چکے تھے۔) کھانا کھا کر ان کی پُر لطف صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جب گفتگو سنجیدگی اختیار کر چکی تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس ملاقات کو ایک انٹرویو کی شکل دے دی جائے۔ ان کی رفاقت و رہنمائی میں ان کے گھر جاتے ہوئے حاشیۂ خیال میں بھی انٹرویو کرنا شامل نہ تھا۔ نہ ارادہ اور نہ خواہش۔ مگر بہت سے کام ارادے اور خواہش کے ماتحت نہیں ہوتے۔ وہ ہو جاتے ہیں‘ خود بہ خود۔ ایسے جیسے کسی نے کرا دیا ہو‘ یا کسی نے وہ کام لے لیا ہو۔ اس کا سراغ تو بعد میں اور وہ بھی سوچنے پر لگتا ہے کہ اچھا تو یہ کام اتفاقاً نہیں ارادتاً ہی ہوا تھا‘ یہ الگ بات کہ ارادہ اس کا نہ ہو جس کو کام کا وسیلہ بنایا گیا ہو۔ تو یوں یہ گفتگو ٹیپ ریکارڈ پر محفوظ ہو گئی اور برسوں تک محفوظ ہی رہی۔ کئی بار خیال آیا کہ اسے نقل کر لوں اور اشاعت کے لیے کہیں دے دوں۔ مگر خیال اور عمل کے بیچ وہ جو ایک غیر مرئی سی دیوار ہوتی ہے جو آڑ بن جاتی ہے اور خیال کو عمل میں ڈھلنے ہی نہیں دیتی تو ایسا ہی ہوا اور اسے میں فیتے سے کاغذ پر منتقل ہی نہ کرسکا۔ اس عرصے میں سراج منیر ناگہانی طور پر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس کی تفصیل میں اب کیا جانا کہ ان دل گرفتہ احساسات کو دو ایک کالموں میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ ایک شخصی خاکہ بھی ان کا خاکوں کی کتاب ’’کوئے دلبراں‘‘ میں چھپ چکا ہے۔ البتہ اس انٹرویو کی اشاعت کی طرف توجہ پھر بھی نہ گئی۔
ہمارے دوست قیصر عالم جن پر گاہے گاہے اب بھی اردو اور انگریزی میں ادبی و علمی رسالہ نکالنے کا جنون طاری ہوتا رہتا ہے‘ بہت سال پہلے ان پر ایک ادبی رسالہ اردو میں نکالنے کا خیال مسلط ہو گیا۔ ہم چند دوستوں عابد‘ فراست رضوی کے سامنے انہوں نے اپنا یہ خیال پیش کیا۔ ہم تینوں نے اس کی تائید کی اور یوں رسالے کا نام ’’مکالمہ‘‘ تجویز ہوا اور قیصر چوں کہ عملی آدمی ہیں‘ جو کہتے ہیں کہ کر دکھاتے ہیں۔ چناں چہ رسالہ اشاعت کے لیے تیاری کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ قیصر عالم نے ایک خط کے ذریعے مجھے مطلع کیا کہ ’’مکالمہ‘‘ کی مجلس ادارت میں وہ اس خاکسار اور آصف فرخی کا نام شامل کر رہے ہیں۔ مجھے یا آصف کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ قیصر عالم جس ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں اہم عہدے پر فائز تھے‘ وہیں انہوں نے شاعر و نقاد جناب جمال پانی پتی کی سفارش پر لاہور سے آئے ہوئے جناب مبین مرزا کو ملازمت دلا دی تھی۔ مبین مرزا سے خاکسار کا تعارف قیصر عالم نے یہ کہہ کر کرایا کہ یہ سراج منیر کے عقیدت مندوں میں سے ہیں اور شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے ’’مکالمہ‘‘ میں مضامین وغیرہ جمع کرنے کی ذمہ داری مبین مرزا صاحب کے سپرد کر دی ہے۔ ایک دن ان کے دفتر گیا تو مبین مرزا صاحب نے یا قیصر عالم نے‘ ٹھیک سے یاد نہیں‘ پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی غیر مطبوعہ انٹرویو ہے جسے رسالے میں شائع کیا جاسکے۔ میں نے عرض کیا کہ سراج منیر مرحوم کا ایک انٹرویو ہے جسے میں اب تک Transcribe نہیں کرسکا اور شاید آئندہ بھی نہ کرسکوں۔ دل کی کیفیت ہی کچھ ایسی تھی۔ اس پر مبین مرزا صاحب نے جن کی اس وقت ادبی حیثیت کچھ بھی نہ تھی۔ یہ پیش کش کی کہ وہ یہ فریضہ بہ رضا و رغبت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چناں چہ میں نے کیسیٹ ان کے حوالے کر دیا تو یہ انٹرویو سراج منیر کا دراصل دن کی روشنی دیکھ سکا تو اس کی مشقت کا سارا کریڈٹ مبین مرزا صاحب ہی کو جاتا ہے جس پر یہ خاکسار ان کا ممنون ہے۔ انٹرویو کے ساتھ جو نوٹ میرا شائع ہوا اس میں مبین مرزا صاحب کا اس بار محبت (Love Labour) کا شکریہ ادا کر دیا گیا تھا لیکن انٹرویو چھپا تو شکریے کے یہ الفاظ غالباً اس مصلحت سے نکال دیے گئے کہ قیصر عالم مغل خاندان سے رشتہ و ناتارکتھے ہیں، عنایت خسروانہ سے مبین مرزا صاحب کا نام بہ طور مرتب رسالہ کے اندرونی سرورق پر درج کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ چناچہ پہلے شمارے میں مکالمہ کے جس میں سراج منیر کا یہ انٹرویو شائع ہوا مجلس ادارت میں اس خاکسار اور آصف کا نام بھی شامل رہا… پھر قیصر عالم کہ مغل مزاج رکھتے ہیں، پلٹ کر مکالمہ کی طرف دیکھا تک نہیں اور اللہ سلامت رکھے مکالمہ اور مبین مرزا کو دونوں ہی دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
سراج منیر کے وداع دنیا کے بعد ایک بار لاہور جانا ہوا تو برادر مکرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ہمراہ تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوا۔ مولانا متین ہاشمی سے ملاقات ہوئی (ملاقات تو اس روز بھی ہوئی تھی جب سراج اپنے گھر لے گئے تھے، مولانا باہر سے آئے تھے، جب کونے میں اپنی چھڑی رکھ رہے تھے تو سراج نے میرا تعارف کرایا تھا، بہت جی چاہا کہ ان سے بچپن کی اپنی اولین یاد جس کا ذکر اوپر ہوا، آج کی زبان میں ان سے شیئر کروں مگر دیرینہ حجاب مانع آیا۔) مولانا اپنے لخت جگر کی رحلت سے ٹوٹے پھوٹے نظر آئے لیکن ساتھ ہی جس صبر و ضبط کا مظاہرہ فرمایا، وہ کوئی صاحب ایمان ہی کر سکتا ہے۔ سراج کی بچپن کی باتیں لے بیٹھے۔ کہنے لگے: ’’جب چھوٹا سا تھا تو ایک روز بستر پر اچھل پھاند کر رہا تھا‘‘۔کسی نے کہا: ’’یہ کیا تم ننگے پائوں بستر پر اچھل رہے ہو۔ برجستہ بولا: تو کیا جوتے پہن کر کر اچھلوں‘‘ یہ اور ایسی کتنی یادیں، کتنے ہی واقعات جن پر پوت کے پائوں پالنے میں نظر آنے والے محاورے کا اطلاع ہوتا تھا۔ جہاں تک معاملہ سراج کے سیاست میں دخل در معقولات کا ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش، ذی فہم انسان جسے سراج سے ذرا بھی خلوص ہوگا، محبت ہوگی وہ اس کی سیاست میں دخل اندازی کی تائید نہ کرے گا۔ میں بھی ان ہی لوگوں میں ہوں۔ لیکن معاملے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ سراج اگر سیاست میں گیا تو پہلی بات یہ کہ اس نے قرب اقتدار کے باوجود کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگر ادارہ ثقافت اسلامیہ کی ڈائریکٹری کو فائدہ اٹھانا سمجھا جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ فائدہ اس نے اٹھایا اور ڈائریکٹر بن کر ادارے کو وہ فائدہ پہنچایا کہ ایک مردہ ادارے کو زندہ کر دیا۔ اس کی تفصیل زیر نظر انٹرویو میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ سراج منیر بھی یہ سوچ کر ہی سیاست و حکومت کے قریب گیا کہ سیاسی معاملات کو بے مغز، کوتاہ نظر اور مفاد پرست عناصر پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس لیے کہ معاشرے کا سارا بگاڑ اسی طرح اوپر سے شروع ہوتا ہے جیسے مچھلی کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ سر کی طرف سے سڑنا شروع کرتی ہے۔ اور سراج کے پاس سر یعنی عقل، بصیرت، سوجھ بوجھ او معاملہ فہمی نیز علم کے خزانے کے سوا تھا کیا۔ تو اگر وہ مچھلی کو سر سے سڑنے سے بچانے کے لیے اور معاشرے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ اس کوچے کی طرف گیا تو اس کے فیصلے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ہے لیکن جو دلیل اسے اس طرف لے گئی اس دلیل کو بالکل بے وزن نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ آج زندگی کے تمام شعبے، جملہ امور معاملات سیاست و حکومت ہی کے تابع ہیں۔ اس کی اصلاح اور درستگی کے بغیر اگر معاملات کی اصلاح ممکن ہوتی تو ہمارے ملک کے بارے میں کم از کم یہ نہ کہا جاتا کہ قیادت کا بحران ہی ہمارا مسئلہ اول ہے۔ بہر کیف، اب ان بحثوں سے کیا حاصل، لیکن اتنا یقین مجھے ہے کہ اگر سراج کو قضائے نے مہلت دی ہوتی تو وہ سیاست کے میدان کو خیرباد کہہ کر دوبارہ علم و ادب کی دنیا میں لوٹ آتا۔ اس لیے کہ اس کا ذہن اور مزاج دیر تک سطحیت اور گھٹیا پن کو گوارا کرنے والے تھے ہی نہیں۔ علم اس کی گھٹی میں اور ادب و شعر اس کے رگ و پے میں سرایت کیے تھا، وہ اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کر سکتا تھا لیکن اپنے خمیر کا کیا کرتا جو اسے دوبارا ادھر ہی کھینج لاتا۔ مگر کیسے لاتا، موت ہی اسے ہری بھری دنیا سے جہاں اس کے لیے داد و تحسین کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ کھینج کر افق کے اس پار لے گئی، جہاں سے کوئی لوٹ کر آیا ہی نہیں۔ سراج کی بھی فقط یادیں ہیں، اس کی باتیں ہیں وہ تو میر کا طرف دار ہونے کے باوجود یہ تک کہہ کر نہ گیا جو میر نے کہا تھا کہ باتیں ہماری یاد رہیں گی۔ شاید اس لیے نہ کہا کہ وہ کہی جانے والی بات کو دہرانے کا عادی تھا ہی نہیں، ہمیشہ نئی بات کہتا تھا، نئی اور اپنی۔
(جاری ہے)
یہی نئی اور اپنی باتیں آپ آئندہ صفحات میں پڑھیں گے۔
ایک وضاحت: انٹرویو کو فیتے سے لفظ بہ لفظ نقل کرنے کی کوشش میں گفتگو جا بجا

حصہ