بھارت کا حجاب کے خلاف سوشل میڈیا پر شور

261

پچھلا ہفتہ مری اور اس ہفتہ لاہور بم دھماکے میں ہونے والا جانی نقصان انتہائی افسوس ناک رہا۔ سوشل میڈیا پر بلوچ نیشنل آرمی کی جانب سے ذمے داری قبول کرنے کا اشارہ نمودار ہوا تو سب نے فوراً توپوں کا رُخ بھارت کی جانب کرلیا۔ یہ ایسا اس لیےبھی ہواکہ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات کے پھیلاؤکا ذمہ دار بھارت ہی ہے۔بھارت کی مشہور نیوز ویب سائٹ و چینل این ڈی ٹی وی کی جانب سے اس خبر کا جو ٹوئیٹ تھا اس کی تفصیلی خبر میں انہوںنے صاف لکھاکہ ’’انار کلی مارکیٹ میں دھماکہ ہوا جہاں بھارتی مصنوعات فروخت ہوتی تھیں،‘ ‘اس سوچ کو مزید تقویت یوں بھی ملی جب اس رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان کا نام لیا گیا۔اس حوالے سے سب جانتے ہیں کہ حکومت تحریک طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں مذاکرات کے مرحلے میں ہے ۔ٹوئٹر پر لاہور بلاسٹ کا ٹرینڈ بنا، اس کے ذیل میں ہی اپ ڈیٹ کرنے کے سب معاملات چلتے رہے۔زخمیوں کی تصاویر، وڈیوز شیئر ہوتی رہیں، ایک موٹرسائیکل میں ٹائم بم نصب کر کے انارکلی مارکیٹ میں دھماکہ کیا گیا تھا۔ساتھ ہی پنجاب حکومت پر لعن طعن کا معاملہ بھی شروع ہو گیا ۔
پڑوسی ملک بھارت میں ویسے تو ایشوز کی بھرمار رہتی ہے اس لیے اگر کوئی ٹاپ ٹرینڈ بن جائے تو وہ واقعی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مسلم کشی جاری ہے تو اس کی دوسری شکل بھارت کے اپنے اندر بھی مستقل جاری ہے ۔اس ہفتہ نریندر مودی نے تازہ تقریر میںبھنڈ مار دیا۔بچیوں اور خواتین میں نام نہاد رفاہی خدمات ، معاشرے میں انکی عزت بڑھانے کے لیے ملک گیر سرکاری مہم ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ شروع کی ہوئی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں اس کو غلطی سے ’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پَٹاؤ‘ کہہ دیا ۔انکا متذکرہ 9سیکنڈ کاوڈیو کلپ وائرل ہو گیا اوراتنی میم بنیں کہ betibachaobetipataoکا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن گیا۔اس کا پس منظر بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والے بڑھتے ہوئے بے حرمتی کے واقعات بھی ہیں۔انڈیا میں مسلمان خواتین کی ہراسانی کے لیے کم ظرفی کی تمام حدیں پار ہوتی نظر آتی ہیں،جیسے مسلم خواتین تو کسی گنتی ہی میں نہیں ، جولائی میں بھارت میں باقاعدہ ایک موبائل ایپلیکیشن اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ، جسے بعد ازاں شکایات پر ختم کر دیاگیا۔اس کے بعد ایک چیٹ ایپ کلب ہاؤس کے نام سے بنا کر اسی مقصد کے لیے استعمال کی گئی۔کلب ہاؤس چیٹ ایپ میں ایک ساتھ متعدد افراد آڈیو کے ذریعے بات چیت کر سکتے ہیں اور اسی طرح کے ایک گروپ میں بہت سے لوگوں نے معروف مسلم خواتین کے خلاف فحش تبصرے کیے، جسے بعض افراد نے ریکارڈ کر لیا اور پھر اسے دیگر سوشل میڈیا گروپ پر بھی شیئر کر دیا گيا۔اسکے بعد رواں ماہ نئی دہلی میں ہندو قوم پرستی کے متشدد نظریے کے حامل ایک کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں نے ’بلی بائی‘ موبائل ایپ بناکرزیادہ تر مسلم خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کیں اور انہیں ’نیلام‘ کے لیے پوسٹ کیا۔
اب بھارت کی ایک اہم جنوبی ریاست کرناٹک خبروں میں آئی ہوئی ہے۔ یہ پہلے بھی آتی رہی ہے کیونکہ جب چھ ماہ قبل ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقامی حکومتوں نے اپنی تین ریاستوں اترپردیش، آسام اور کرناٹک میں آبادی پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیاتو خاصا رد عمل آیا۔ کرناٹک میں بھارتی نچلی ذات کے دلت کی آبادی (سوا کروڑ )سب سے زیادہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر وہاں مسلمان آبادی ہے جو کہ کوئی 90لاکھ بتائی جاتی ہے ۔اس کے باوجود مسلمانوں کا موقف رہا ہے کہ جان بوجھ کر مسلمانوں کی آباد ی کم بتائی جاتی ہے۔اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی اقدام کرنے کے لیے قوم پرست ،متعصب ہندو ذہنیت والی بی جے پی کے لیے کتنا کھلا میدان ہے ۔ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، پہلے ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر اڈوپی میں ایک سرکاری کالج کی چار مسلمان طالبات اپنی کلاس کے باہر بیٹھ کر پڑھ رہی تھیں۔تفصیل یہ سامنے آئی کہ کالج پرنسپل کی جانب سے انہیں کلاس میں حجاب پہن کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی ۔ طالبات نے حجا ب اتارنا گوارا نہ کیا او ر باہر بیٹھنے کی سزا قبو ل کرلی۔ طالبات کا موقف ہے کہ خواتین کے کالج میں مرد لیکچرار کی موجودگی میں ان کو مشکلات ہوتی ہیں اس لیے وہ حجاب کرنا چاہتی ہیں ، اگر خاتون استاد ہو تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔اسی ریاست کرناٹک کے ایک اور قصبے میں مسلم طالبات کے ساتھ ان دنوں میں یہی معاملہ ہوا۔پھر وہی بات کہ اگر معاملہ کالج کی سیڑھیوں تک رہتا ، یا لوکل رہتا تو وہیں اٹکا رہتا ، مگر جونہی سوشل میڈیا پر تصاویر آئیں ، یکایک وائرل ہو گئیں کیونکہ سب کو زبان مل گئی تھی تبصرے کرنے کے لیے ۔سیکولر انڈیا ، مساوی حقوق، انسانی حقوق کے لالی پاپ نعروں کا خوب پوسٹ مارٹم کیا گیا۔اس میں ہندو بھی شامل تھے ، بی جے پی مخالف بھی، مقامی مسلمان اور دنیا بھر کے مسلمان بھی شامل ہوتے چلے گئے ۔کرناٹک وزیر تعلیم کے موقف پر مبنی وڈیو کلپ بھی آیا جس میں وہ کہتا ہے کہ کلاس میں کسی کے مذہبی افعال کی آزادی نہیں دی جاسکتی، نہ ہی اسکول کالج مذہب پر عمل کرنے کی کوئی جگہ ہے۔ اس بیان نے مزید احتجاج کو ہوا دی ۔کوئی20دن سے طالبات کو کلاسز سے روکا جا رہا ہے۔ اس پر احتجاج بھی شروع ہو چکا ہے ، وزیر کا کہنا ہے کہ پورے کالج میں100میں سے 8طالبات کو حجاب کے معاملے پر شکایت ہوئی ہے باقی کسی کو نہیں ۔ ایک سرکاری کالج میں حجاب پر پابندی کے معاملے نے اتنا طول پکڑ لیا ہے کہ منگل کی رات یہ معاملہ انڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں کئی گھنٹے شامل رہا۔انڈیا کے معروف اخبار دی ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک لڑکی نے کہا کہ وہ روزانہ اس امید پر کالج چلی جاتی ہے کہ شاید آج کلاس میں داخل ہونے دیا جائے ۔ان کے والدین نے کئی بار کالج پرنسپل سے درخواست کی ، لیکن اس کے باوجود ان کو سارا دن کلاس سے باہر گزارنا پڑتا ہے اور اپنی ہم جماعت سے نوٹ بک لے کر اسے کاپی کرتی ہیں۔اخبار کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف حجاب پہننے کی اجازت چاہتی ہیں، جو ہمارے جذبات، ہماری شناخت اور ہمارے بنیادی حقوق سے جُڑا ہے۔‘اس حوالے سے کالج نے طالبات کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ تو صرف سر ڈھانپے والے حجاب پر بھی راضی نہ ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر HijabisOurRightکے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں رہا ۔ اس کی چند ٹوئیٹ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے،’اگر آپ شارٹس پہننے کے حق میں ہیں تو آپ کو حجاب پہننے کے حق میں بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں پسند کے معاملات ہیں اور اس کا فیصلہ صرف خواتین کو کرنا ہے۔‘پورے ہیش ٹیگ میں یہ بیانیہ ہی غالب رہا ، اب اسکو غور سے دیکھیں کہ یہ ہوتا ہے معاملہ جب آپ مغربی ڈسکورس یعنی اظہار آزادی کے گراؤنڈ میں جا کر کھیلتے ہیں ۔جب آپ پسند کی بات کرتے ہیں، اختیار اور آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا انجام یوں خراب ہوتا ہے کہ دوسرا بھی پھر اپنی مرضی کی بات کرتا ہے ،مطلب یہ کہ لوگوں نے یہ جواب بھی دیا کہ اگر سعودیہ عرب یا افغانستان میں خواتین کپڑے اتار کر رہنا چاہیں تو کیا آپ ان کے اظہار آزادی کی حمایت کروگے ؟ ایک اور ٹوئیٹ دیکھیں، ’’لباس، کھانا اور مذہب وغیرہ کسی فرد کی ذاتی آزادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب تک کہ کسی کالج میں لباس کا سخت کوڈ نافذ نہ ہو کوئی کالج لڑکیوں کو حجاب پہننے سے نہیں روک سکتا۔ او ڈی پی کا کالج غیر ضروری طور پر لڑکیوں کے حقوق میں مداخلت کر رہا ہے۔ ان لڑکیوں کو سلام جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔‘‘ہو سکتا ہے پڑھنے میں اچھی لگے مگر آپ نوٹ کریں کہ یہ بھی حقوق ، اظہار آزادی کے مغربی ڈسکورس میں ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ اگر یہ بھی نہ بولیں تو کیا بولیں۔ بات بولنے نہیں سمجھنے کی ہے پہلے ۔میں آپ کو یاد دلاؤں قیام پاکستان کی تحریک کے دنوںمیں اسی برصغیر میں ہندو مسلم کشمکش کس حد تک گئی تھی کہ الگ ملک بنانا پڑا۔ آپ کویاد رکھنا ہوگا کہ ’اسلام مکمل ضابطہ حیات ‘ ہے ، زندگی کے ہر دائرے میں اپنا نفوذ بھی چاہتا ہے اور اپنی فرماں روائی بھی چاہتا ہے ۔مسلمان خاتون کے لیے نامحرم سے پردہ کرنا کوئی اخلاقی ، آزادی یا صرف تہذیبی معاملہ نہیں سیدھا صاف اللہ کا حکم ہے جس کی پابندی لازمی ہے ،اب کوئی اس کو کسی اور عنوان میں ڈالتا ہے تو پھر آگے چل کر رستے بند ہو جاتے ہیںاور مغربی ڈسکورس اسکو اپنے چنگل میں لے لیتا ہے، بہرحال یہ الگ گفتگو و موضوع ہے۔وہاں بھی یہی ہوا کہ یہ اہم معاملہ آزادی سے ہوتا ہوا کالج کے ڈریس کوڈ کی جانب چلا گیا۔یہاں تک کہ ایک متاثرہ طالبہ کو یہ تک کہنا پڑا کہ ’ہمیں صرف بال ڈھکنے دیئے جائیں ، پہچان کے لیے ہم چہرہ کھلا رکھیں گےـ‘۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ 18فیصد مسلمان کس جبر میں بھارت میں زندگی گزار رہے ہیں ، بے شمار الزامات و دباؤاُن پر ہوتے ہیں ایسے میں میرے نزدیک ان کا یہ بیانیہ بھی ہمت والا ہے۔حجاب کے بارے میں بھارتی عدلیہ و آئین کی جانب سے کھلی اجازت موجود ہے ، یہ پہلا واقعہ نہیں ہے 2016میں کیرالہ میں ایسے ہی کیس پر عدلیہ حجاب پہننے کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے ۔اب دیکھتے ہیں کہ معاملہ مزید کہاں تک جاتا ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی جاری نسل کشی ، جنگی جرائم اور بربریت کے خلاف اسٹاک وائٹ برطانوی لا فرم نے 8اعلیٰ بھارتی فوجی عہدیدار ، وزیر داخلہ اور بھارتی آرمی چیف کی گرفتاری کے لیے جنگی جرائم یونٹ لندن محکمہ پولیس میں ایک درخواست جمع کرائی گئی ۔اس درخواست میں 2020-21کے درمیان دو ہزار کے قریب جنگی جرائم کے اہم ثبوت و شواہد شامل کیے گئے ہیں۔لندن پولیس کو یہ درخواست عالمی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت دی گئی ہے جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔درخواست کے بعد پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا رہا۔ arrestindianarmychiefکے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہوا ، جس میں دنیا بھر سے مسلمانوں نے حصہ ملایا اور بھارتی جارحیت کو تصاویر، وڈیوز اور رد عمل والے جملوں سے نمایاں کیا۔حالیہ دنوں بھارتی آرمی چیف بپن راوت ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہلاک ہوا تھا، اب بھارتی آرمی چیف پر یہ قانونی وار ہو اہے ۔
کراچی میں عوام کے حقوق کے لیے جاری جماعت اسلامی کے احتجاجی دھرنے کو سندھ اسمبلی کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں پھیلا دیا گیا۔سوشل میڈیا پر مستقل 23دن سے جاری دھرنے کی گونج نظر آتی ہے اس میں دن بھر میں دھرنے کی دلچسپ سرگرمیاں، لائیو نشریات، تصاویر، وڈیو جھلکیاں، نیوز کوریج، ترانے، مختلف وفود، تقاریر، پریس کانفرنس، تجزیے تبصرے سب ملا کر اتنا کچھ ہوتا ہے کہ ہر طرف یہی نظر آتا ہے ۔جماعت اسلامی کی میڈیا ٹیم فیس بک پر طویل ترین لائیو کوریج نشریات کے ساتھ ایک ریکارڈ بنا چکی ہے ۔اتوار کو شاہراہ فیصل پر ہونے والے مارچ پھر وہیں دھرنے کا بھی سوشل میڈیا پر خاصا اثر نظر آیا، الیکٹرانک میڈیاپر مستقل اس ایشو کو اٹھایا جا رہا ہے۔پیٹرول و دیگر اشیا کی بڑھتی قیمتوں پر عوام کا حکومت کے خلاف رد عمل سوشل میڈیا پر بدستور جاری رہا۔

حصہ