قیصر و کسریٰ قسط (33)

288

عاصم فرمس کے ساتھ چل دیا اور تھوڑی دیر بعد وہ اُس کے سکونتی مکان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا۔ فرمس نے جلدی سے ایک صندوق کھولا اور ایک رومی افسر کی وردی نکال کر عاصم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم ایک رومی افسر کے بھیس میں دمشق جارہے ہو۔ تمہارے لیے ایک عرب کے بجائے ایک رومی کی حیثیت سے ان عورتوں کی حفاظت کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ یہ میرے ایک دوست کی نشانی ہے۔ اُس نے فوج سے بھاگ کر یروشلم کی ایک خانقاہ میں پناہ لی تھی اور اپنی وردی میرے پاس چھوڑ گیا تھا۔ دو سال اس نے راہبانہ زندگی بسر کی اور آخر کار اس سے بیزار ہو کر وہ خانقاہ سے بھی فرار ہوگیا۔ اِس کے بعد اُس کا کہیں پتا نہ چلا۔ اُس کا قد بالکل تمہارے برابر تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ وردی تمہارے ٹھیک آئے گی۔ اب جلدی کرو‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’لیکن میں رومی زبان کے چند الفاظ ہی جانتا ہوں۔ اور میرا رنگ بھی کسی رومی کو دھوکا نہیں دے سکے گا…‘‘۔
’’تمہارا رنگ خاصا سفید ہے۔ اور روم و یونان کے وہ لوگ جو مدت سے شام میں آباد ہیں، یہاں کی زبان سیکھ گئے ہیں اور تم سریانی زبان میں روانی کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہو۔ پھر اگر کسی جگہ رومی زبان میں گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آگئی تو تھوڑی دیر کے لیے بہرے بن کر، ان خواتین کو آگے کردینا۔ وہ خاصی سمجھ دار معلوم ہوتی ہیں۔ جو لوگ تمہیں راستے میں ملیں گے وہ اِس لباس کو دیکھ کر ہی مرعوب ہوجائیں گے۔ تم پانی مانگو گے تو دودھ ملے گا۔ تمہیں صرف ان عورتوں کا پیچھا کرنے والوں سے کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جلد از جلد یہاں سے دور نکل جائو۔ یہ عورت دمشق کے کسی بااثر رومی کی بیٹی ہے اور مجھے اُمید ہے کہ یروشلم کے حاکم کے آدمی دوچار منزلوں سے زیادہ ان کا پیچھا کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ اس لباس کی بدولت تم بوقت ضرورت تازہ دم گھوڑے بھی حاصل کرسکو گے؟‘‘
عاصم وردی پہن چکا، تو فرمس نے صندوق سے تلوار نکال کر اُسے پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’خدا کی قسم اب اگر تم قیصر کے دربار میں جائو تو بھی تم پر کوئی شک نہیں کرے گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’نہیں مجھے تلوار کی ضرورت نہیں۔ میں نے عہد کیا تھا کہ باقی عمر تلوار کو ہاتھ نہیں لگائوں گا اور میں اس پر قائم رہنا چاہتا ہوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’عاصم! تم ایک بہادر آدمی ہو۔ اور راستے میں تمہیں ایسے حالات پیش آسکتے ہیں کہ تم بھاگنے کو پسند کرو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان بے بس عورتوں پر کسی نے حملہ کیا تو تم ان کی چیخیں برداشت نہ کرسکو گے۔
موجودہ حالات میں مجھے یہ توقع نہیں کہ یروشلم کا حاکم انہیں گرفتار کرنے کے لیے کوئی لشکر بھیجے گا، لیکن اگر دوچار آدمیوں نے تمہارا پیچھا کیا تو تم یقیناً تلوار کی ضرورت محسوس کرو گے۔ اگر مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ خطرے کے وقت تمہیں صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہوگی اور تم ان عورتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرسکو گے تو میں یہ تلوار تمہیں پیش نہ کرتا‘‘۔
عاصم نے کوئی جواب نہ دیا اور فرمس نے تلوار کا تسمہ اُس کی کمر سے باندھتے ہوئے کہا۔ ’’خدا جانتا ہے کہ مجھے تمہاری جدائی پسند نہیں۔ جب تم اپنی سرگزشت سنا رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث مجھے یہاں سے بھاگنا پڑا تو میں تمہیں اپنے ساتھ اسکندریہ لے جائوں گا۔ اور پھر وہاں سے ہم بابلیون چلے جائیں گے۔ مگر قدرت تم سے یہ کام لینا چاہتی تھی۔ لیکن اب تم جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا۔ اگر حالات زیادہ خراب ہوگئے اور مجھے تمہاری آمد سے پہلے یہاں سے کوچ کرنا پڑا تو میں اسکندریہ اور اُس کے بعد بابلیون میں تمہارا انتظار کروں گا‘‘۔
عاصم نے صندوق سے ترکش اور کمان نکالتے ہوئے کہا۔ ’’اب کہ میں اپنے عہد سے انحراف کر ہی رہا ہوں تو مجھے پوری طرح مسلح ہو کر جانا چاہیے‘‘۔
وہ کمرے سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی اور مشرق سے سپیدئہ سحر نمودار ہورہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد فرمس سرائے کے دروازے کے باہر کھڑا عاصم اور اُس کے ساتھیوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن رہا تھا۔
باب ۱۴
آفتاب نمودار ہوچکا تھا۔ اور چند میل سرپٹ دوڑنے کے بعد عاصم اور اُس کے ساتھیوں کے گھوڑے بُری طرح ہانپ رہے تھے۔ عاصم نے اپنا گھوڑا روکا اور مڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف، جو کچھ پیچھے رہ گئے تھے، دیکھنے لگا۔ لڑکی کی ماں نے اُس کے قریب پہنچ کر کہا۔ ’’گھوڑے تھک گئے ہیں۔ اب ہمیں کچھ دیر آرام سے سفر کرنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن یہ بہتر ہوگا کہ ہم دوپہر سے پہلے زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرلیں‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ راستہ دمشق کی طرف جاتا ہے‘‘۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ عاصم سے ’’تم‘‘ کی بجائے آپ کہہ کر مخاطب ہورہی تھی۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ دن کی روشنی میں انسانی حسن و جمال کے اِس پیکر مجسم کو دیکھ رہا تھا اس کی عمر چودہ یا پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ تاہم شباب کی تمام رعنائیاں اُس کے چہرے پر رقص کررہی تھیں۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’ہاں! میں اِس راستے پر پہلے بھی سفر کرچکا ہوں‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’ہم خاصی دور آگئے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تھوڑی دیر کسی جگہ، سستانے کے لیے ٹھہر جائیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ عاصم نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔ ’’ہم دوپہر سے پہلے آرام نہیں کریں گے‘‘۔
ماں نے کہا۔ ’’بیٹی! ہمت سے کام لو۔ ہماری منزل بہت دور ہے‘‘۔
ایک گھاٹی کے موڑ سے انہیں گھوڑے کی ٹاپ او رتھوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ عاصم نے جلدی سے گھوڑے کی باگ موڑی اور راستے سے ایک طرف ہٹ کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ وہ سپاہی اپنے گھوڑوں کا رُخ دوسری طرف کرلیں اور راستہ چھوڑ دیں، انہیں ہمارے متعلق یہی سمجھنا چاہیے کہ ہم بھی یروشلم جارہے ہیں۔ پھر شاید وہ ہم سے ہمکلام ہونے کی ضرورت محسوس نہ کریں‘‘۔
عاصم کے ساتھیوں نے بلاتاخیر اُس کی ہدایت پر عمل کیا۔ چند ثانیے بعد گھاٹی کے موڑ سے دو رتھ اور چند مسلح سوار نمودار ہوئے۔ سب سے اگلی رتھ پر ایک رومی افسر سوار تھا اُس نے قریب پہنچ کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور پھر ہانپتے ہوئے گھوڑوں کو چابک مارتا ہوا آگے نکل گیا۔ جب یہ لوگ کچھ دور چلے گئے تو عاصم نے اطمینان کا سانس لینے کے بعد اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میں یہ وردی پہننے پر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے تو میں کیا جواب دوں گا‘‘۔
لڑکی بولی۔ ’’تمہیں اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ لوگ دمشق سے آرہے تھے اور انہیں مرعوب کرنے کے لیے میرے ابا جان کا نام کافی تھا۔ میں اگر انہیں یہ بھی بتادیتی کہ تم ایک عرب ہو اور تم نے صرف ہماری خاطر ایک رومی کا بھیس بدلا ہے تو بھی وہ تمہیں کچھ کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ دمشق کی فوج کے تمام عہدہ دار میرے ابا جان کو جانتے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی خطرہ پیش آسکتا ہے تو صرف یروشلم کے حاکم کے آدمیوں سے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر یروشلم کے حاکم کے آدمی آپ کی تلاش میں اس طرف روانہ ہوچکے ہیں تو راستے میں ان لوگوں سے انہیں آپ کا پتا چل جائے گا۔ اس صورت میں آپ کو آرام کے لیے بہت کم وقت ملے گا۔ اب چلیے‘‘۔
عاصم نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔ ماں اور بیٹی نے بے بسی کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے اُس کے پیچھے چل پڑیں۔
ایک ساعت بعد یہ لوگ ایک سرسبز وادی میں داخل ہوئے جہاں ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی۔ گندم اور جو کے لہلہاتے کھیتوں میں کہیں کہیں زیتون کے درخت کھڑے تھے۔ سامنے تھوڑی دور کسی بستی یا قصبے کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ عاصم نے سڑک سے اُتر کر ندی کے کنارے گھوڑا روکا اور اُسے پانی پلاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میرے خیال میں ہمیں اُس بستی کے بجائے یہیں کسی جگہ تھوڑی دیر آرام کرلینا چاہیے۔ آپ اپنے گھوڑوں کو پانی پلالیں۔ اس کے بعد ہم کوئی موزوں جگہ تلاش کریں گے‘‘۔
لڑکی گھوڑے سے اُتری اور اوک سے پانی کے چند گھونٹ پینے کے بعد نڈھال سی ہو کر ندی کے کنارے بیٹھ گئی۔ ماں نے بیٹی کی تقلید کی لیکن عاصم نے کہا۔ ’’آپ اپنے گھوڑوں کی باگیں پکڑلیں ورنہ یہ پانی پیتے ہی بھاگ بھاگ جائیں گے۔
لڑکی بادلِ ناخواستہ اُٹھی اور اپنے گھوڑے کی باگ پکڑ کر بولی۔ ’’ہمارے گھوڑوں میں اب بھاگنے کی ہمت نہیں‘‘۔
عاصم نے اپنا گھوڑا آگے بڑھا کر دوسرے گھوڑے کی باگ پکڑی اور کہا۔ ’’بھوکے گھوڑوں کے لیے یہ لہلہاتے کھیت خاصے صبر آزما ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپ ذرا ہمت سے کام لیں۔ ہمارے لیے سڑک کے قریب ٹھہرنا مناسب نہیں‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’لیکن اب مجھ میں گھوڑے پر دوبارہ سوار ہونے کی ہمت نہیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’چند قدم پیدل چلنا آپ کے لیے سود مند ہوگا۔ آئیے!‘‘۔
ماں اُٹھتے ہوئے بولی۔ ’’چلو‘ بیٹی! یہ درست کہتے ہیں۔ ہمیں معمولی تکلیف سے بچنے کے لیے سڑک کے کنارے رُکنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔
لڑکی منہ بسورتی ہوئی اُن کے پیچھے چل پڑی۔ وہ کچھ دیر ندی کے کنارے چلتے رہے، ایک چھوٹا سا ٹیلا عبور کرنے کے بجائے عاصم نے اِدھر اُدھر دیکھا اور کہا۔ ’’میرے خیال میں یہ جگہ زیادہ محفوظ ہے، کم از کم ہمیں سڑک کی طرف سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا‘‘۔
لڑکی اور اُس کی ماں زمین پر بیٹھ گئیں اور عاصم نے تینوں گھوڑے زیتوں کے درختوں سے باندھ دیے۔ پھر اپنی خرجین سے ایک گٹھڑی، جس میں کھانا بندھا ہوا تھا، نکالی اور اُسے اپنے ساتھیوں کے آگے رکھ کر کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آپ تھکاوٹ سے زیادہ بھوک محسوس کررہی ہوں گی۔ دیکھیے! ہمارے میزبان نے کس قدر تکلف سے کام لیا ہے۔ یہ کھانا ہمارے پورے سفر کے لیے کافی ہوگا‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’کیا آپ کے خیال میں ہمیں اگلی منزلوں میں بھی اسی باسی کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہاں! اگر تازہ کھانا نہ ملا!‘‘۔
لڑکی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن بھوک کی شدت اُس کی قوتِ قویائی پر غالب آگئی۔
پھر گوشت کے چند ٹکڑے اور روٹی کے چند نوالے کھانے کے بعد، اُس نے قدرے تازہ دم ہو کر کہا۔ ’’دیکھیے! آپ کی ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتی ہوں۔ ہمارے لیے یروشلم ٹھہرنا اِس لیے خطرناک تھا کہ شہر کے حاکم اور اس کے جاسوسوں نے بعض افواہیں پھیلا کر عوام کو ہمارے خلاف مشتعل کردیا تھا۔ لیکن یروشلم سے باہر ہمیں کوئی خطرہ نہیں گورنر کے آدمی ہمارا تعاقب کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ آپ میرے نانا کو نہیں جانتے۔ ورنہ آپ کو ہمارے متعلق اس قدر پریشانی نہ ہوتی۔ آپ دیکھیں گے کہ جب یروشلم کے حاکم کو یہ معلوم ہوگا کہ ہم اُس سے خفا ہیں تو وہ کانپتا ہوا میرے نانا کے پاس آئے گا اور ان کے پائوں پر گر کر یہ کہے گا کہ میں بے قصور ہوں، میں تو آپ کی بیٹی اور نواسی کی حفاظت کررہا تھا۔ یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم اپنے ایرانی نوکروں کو اپنے ساتھ یروشلم لے آئے تھے۔ اور عوام کسی دشمن کی افواہوں سے ان کے خلاف مشتعل ہوگئے تھے۔ اس لیے آپ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کی کوشش نہ کریں۔ میں بہت تھک گئی ہوں‘‘۔
لڑکی کی ماں نے کہا۔ ’’فسطینہ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم اچھی طرح جانتی ہو کہ ہماری عزت اور ہماری جانیں خطرے میں ہیں۔ ہمارا ایک نوکر اب بھی انڈرونیکس کی قید میں ہے۔ اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ہمارے خلاف کوئی بیان نہیں دیا‘‘۔

حصہ