انفاق فی سبیل اللہ کے احکام

521

احکام کی دو قسمیں… عام اور خاص
برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ پہلے تو نیکی اور بھلائی کے کاموں کا ایک عام حکم دیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی زندگی میں عموماً بھلائی کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر اسی بھلائی کی ایک خاص صورت بھی تجویز کر دی جاتی ہے تاکہ اس کی خاص طور پر پابندی کی جائے۔
اللہ کی یاد کا عام حکم
مثال کے طور پر دیکھیے اللہ کی یاد ایک بھلائی ہے‘ سب سے بڑی بھلائی اور تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ اس کے لیے عام حکم ہے کہ اللہ کو ہمیشہ ہر حال میں ہر وقت یاد رکھو اور کبھی اس سے غافل نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا گیا ’’کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کی یاد میں لگے رہو۔‘‘ (النساء 103:4)
’’اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کو فلاح نصیب ہو۔‘‘ (الانفال 45:8)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں‘ جو خدا کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے رہتے ہیں اور جو آسمانوں اور زمین کی بناوٹ پر غور کرکے بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار! تو نے یہ کارخانہ بے کار نہیں بنایا۔‘‘ (آل عمران۔ 190-191:3)
’’اور اس شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل پایا اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا ہے اور جس کے سارے کام حد سے گزرے ہوئے ہیں۔‘‘ (الکہف۔ 28:18)
یہ اور بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں خدا کی یاد جاری رکھو‘ کیوں کہ خدا کی یاد ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے معاملات کو درست رکھتی ہے اور اس کو سیدھے راستے پر قائم رکھتی ہے۔ جہاں آدمی اس کی یاد سے غافل ہوا اور بس نفسانی خواہشوں اور شیطانی وسوسوں نے اس پر قابو پا لیا‘ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ راہِ راست سے بھٹک کر اپنی زندگی کے معاملات میں حد سے گزرنے لگے گا۔
اللہ کی یادکا خاص حکم:
دیکھیے‘ یہ تو تھا عام حکم۔ اب اسی یادِ الٰہی کی ایک خاص صورت تجویز کی گئی۔ نماز اور نماز میںبھی پانچ وقت میں چند رکعتیں فرض کر دی گئیں جن میں بیک وقت پانچ دس منٹ سے زیادہ صَرف نہیں ہوتے۔ اس طرح چند منٹ اِس وقت اور چند منٹ اُس وقت یادِ الٰہی کو فرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بس آپ اتنی ہی دیر کے لیے خدا کو یاد کریں اور باقی وقت اس کو بھول جائیں‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اتنی دیر کے لیے تو تم کو بالکل خدا کی یاد میں لگ جانا چاہیے‘ اس کے بعد اپنے کام بھی کرتے رہو اور ان کو کرتے ہوئے خدا کو بھی یاد کرو۔
انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم:
بس ایسا ہی معاملہ زکوٰۃ کا بھی ہے۔ یہاں بھی ایک حکم عام ہے اور ایک خاص۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ بخل اور تنگ دلی سے بچو کہ یہ برائیوں کی جڑ اور بدیوں کی ماں ہے۔ اپنے اخلاق میں اللہ کا رنگ اختیار کرو جو ہر وقت بے حد و حساب مخلوق پر اپنے فیض کے دریا بہا رہا ہے‘ حالانکہ کسی کا اس پر کوئی حق اور دعویٰ نہیں ہے۔ راہِ خدا میں جو کچھ خرچ کر سکتے ہو کرو‘ اپنی ضرورتوں سے جتنا بچا سکتے ہو بچائو اور اس سے خدا کے دوسرے ضرورت مند بندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ دین کی خدمت میں اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں جان اور مال سے کبھی دریغ نہ کرو۔ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو مال کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کر دو۔ یہ تو ہے عام حکم۔
انفاق کا خاص حکم:
اس کے ساتھ ہی خاص حکم یہ ہے کہ اس قدر مال اگر تمہارے پاس جمع ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا خدا کی راہ میں ضرور صَرف کرو‘ اور اتنی پیداوار تمہاری زمین میں ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا حصہ تو ضرور خدا کی نذر کر دو۔ پھر جس طرح چند رکعت نماز فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہ رکعتیں پڑھتے وقت ہی خدا کو یاد کرو اور باقی سارے وقتوں میں اس کو بھول جائو‘ اسی طرح مال کی ایک چھوٹی سے مقدار راہِ خدا میں صَرف کرنا جو فرض کیا گیا ہے‘ اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے پاس اتنا مال ہو بس انہی کو راہِ خدا میں صَرف کرنا چاہیے‘ اور جو اس سے کم مال رکھتے ہوں انہیں اپنی مٹھیاں بھینچ لینی چاہئیں‘ اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مال دار لوگوں پر جتنی زکوٰۃ فرض کی گئی ہے جس وہ اتنا ہی خدا کی راہ میں صَرف کریں اور اس کے بعد کوئی ضرورت مند آئے تو اسے جھڑک دیں‘ یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آئے تو کہہ دیں کہ ہم تو زکوٰۃ دے چکے۔ اب ہم سے ایک پائی کی بھی امید نہ رکھو۔ زکوٰۃ فرض کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ کم از کم اتنا مال تو ہر مال دار کو راہِ خدا میں دینا ہی پڑے گا اور اس سے زیادہ جس شخص سے جو کچھ بن آئے وہ اُس کو صَرف کرنا چاہیے۔
اِنفاق کے عام حکم کی مختصر تشریح:
اب میں آپ کے سامنے پہلے عام حکم کی تھوڑی سی تشریح کروں گا پھر دوسرے خطبے میں خاص حکم بیان کروںگا۔
قرآن مجید کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس کی حکمتیں اور مصلحتیں بھی خودہی بتا دیتا ہے تاکہ محکوم کو حکم کے ساتھ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ حکم کیوں دیا گیا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے۔ قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جس آیت پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ یہ ہے:
سیدھے راستے پر چلنے کی تین شرطیں:
’’یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ یہ ان پرہیزگار لوگوں کو زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہےجو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ۔ 2-3:2)
اس آیت میں یہ اصل الاصول بیان کر دیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں سیدھے راستے پر چلنے کے لیے تین چیزیں لازمی طور پر شرط ہیں ایک ایمان بالغیب (جس میں خدا‘ آخرت اوروحی‘ سب ہی امورِ غیب پر ایمان لانا شامل ہے۔) دوسرے نماز قائم کرنا اور تیسرے جو رزق بھی اللہ نے دیا ہو اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنا۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’تم نیکی کا مقام پا ہی نہیں سکتے جب تک کہ خداکی راہ میں وہ چیزیں نہ خرچ کرو جن سے تم کو محبت ہے۔‘‘ (آل عمرا۔ 92:3)
پھر فرمایا ’’شیطان تم کو ڈراتاہے کہ خرچ کرو گے تو فقیر ہو جائو گے اور تمہیں (شرم ناک چیز یعنی) بخیلی کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (البقرہ۔ 268:2)
اس کے بعد ارشاد ہوا ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈلو (کہ راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں۔)‘‘ (البقرہ۔ 195:2)
آخر میں فرمایا ’’اور جو تنگ دلی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (الحشر۔ 9:59)
زندگی بسر کرنے کے دو طریقے:
ان سب آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی بسر کرنے کے دو راستے ہیں:
-1 ایک راستہ تو خدا کا ہے جس میں نیکی اور بھلائی اور فلاح اور کامیابی ہے اور اس راستے کا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی کا دل کھلا ہوا ہو‘ جو رزق بھی تھوڑا یا بہت اللہ نے دیا ہو اس سے خود اپنی ضرورتیں بھی پوری کرے‘ اپنے بھائیوں کی بھی مدد کرے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے بھی خرچ کرے۔
-1 دوسرا راستہ شیطان کا ہے‘ جس میں بظاہر تو آدمی کو فائدہ ہی فائدہ نظر آتا ہے‘ لیکن حقیقت میں ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں اور اس سے راستے کا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی دولت سمیٹنے کی کوشش کرے‘ پیسے پیسے پر جان دے اور اس کو دانتوں سے پکڑ پکڑ کر رکھے تاکہ خرچ نہ ہونے پائے اور خرچ ہو بھی تو بس اپنے ذاتی فائدے اور اپنے نفس کی خواہشات ہی پر ہو۔
خدا کی راہ میں خرچ کے طریقے:
اب دیکھیے کہ خدائی راستے پر چلنے والوں کے لیے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے کیا طریقے بیان ہوئے ہیں ان سب کو نمبروار بیان کرتا ہوں:
-1 صرف خدا کی خوشنودی کے لیے:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خرچ کرنے میں صرف خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی مطلوب ہو۔ کسی کو احسان مند بنانے یا دنیا میں نام پیدا کرنے کے لیے خرچ نہ کیا جائے۔ ’‘تم جو بھی خرچ کرتے ہو اُس سے اللہ کی رضا کے سوا تمہارا اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔‘‘ (البقرہ۔ 272:2)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور اذیت دے کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو لوگوں کے دکھاوے کو خرچ کرتا ہے اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کے خرچ کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی ہو‘ او ر اس پر زور کا مینہ برسے تو ساری مٹی بہہ جائے اور بس صاف چٹان کی چٹان رہ جائے۔‘‘ (البقرہ۔ 264:2)
احسان نہ جتایا جائے:
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو پیسہ دے کر یا روٹی کھلا کر یا کپڑا پہنا کر احسان نہ جتایا جائے اور ایسا برتائو نہ کیا جائے جس سے اس کے دل کی تکلیف ہو۔
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرکے احسان نہیں جتاتے اور تکلیف نہیں پہنچاتے‘ ان کے لیے خدا کے ہاں اجر اور انہیں کسی نقصان کا خوف یا رنج نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔‘‘(البقرہ۔ 262-263:2)
بہتر مال دیا جائے:
تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ خدا کی راہمیں اچھا مال دیا جائے‘ برا چھانٹ کر نہ دیا جائے۔ جو لوگ کسی غریب کو دینے کے لیے پھٹے پرانے کپڑے تلاش کرتے ہیں‘ یا کسی فقیر کو کھلانے کے لیے بدتر سے بدتر کھانا نکالتے ہیں‘ ان کو بس ایسے ہی اجر کی خدا سے بھی توقع رکھنی چاہیے۔
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ جو کچھ تم نے کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے اچھا مال خدا کی راہ میں دو۔ یہ نہ کرو کہ خدا کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔‘‘ (البقرہ۔ 267:2)
حتیٰ الامکان چھپا کر دیا جائے:
چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ جہاںتک ممکن ہو چھپا کر خرچ کیا جائے تاکہ ریا اور نمود کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ اگرچہ کھلے طریقے سے خرچ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں‘ مگر ڈھانک چھپا کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ ’’اگر کھلے طریقے سے خیرات کرو تو یہ بھی اچھا ہے‘ لیکن اگر چھپا کر غریب لوگوں کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اس سے تمہارے گناہ دھلتے ہیں۔‘‘ (البقرہ۔ 271:2)
نادانوں کو ضرورت سے زیادہ نہ دیا جائے:
پانچواں قاعدہ یہ ہے کہ کم عقل اور نادان لوگوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ نہ دیا جائے کہ بگڑ جائیں اور بری عادتوں میں پڑ جائیں‘ بلکہ ان کو جو کچھ دیا جائے ان کی حیثیت کے مطابق دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ پیٹ کو روٹی ، پہننے کو کپڑا تو ہر برے سے برے اور بدکار سے بدکار کو بھی ملنا چاہیے‘ مگر شراب نوشی اور چانڈو اور گانجے (افیون اور بھنگ سے تیار کردہ نشہ آور چیزیں) اور جوئے بازی کے لیے لفنگے آدمیوں کو پیسہ نہ دیا چاہیے۔
’’اپنے اموال جن کو اللہ نے تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو‘ البتہ ان اموال میں سے ان کو کھانے اور پہننے کے لیے دو۔‘‘ (النساء۔ 5:4)
مقروض کو پریشان نہ کیا جائے:
چھٹا قاعدہ یہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی غریب آدمی کی ضرورت پوری کرنے کی لیے اس کو قرضِ حسن دیا جائے تو تقاضے کرکے اسے پریشان نہ کیا جائے‘ بلکہ اس کو اتنی مہلت دی جائے کہ وہ آسانی سے ادا کرسکے اور اگر واقعی یہ معلوم ہو کہ وہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہے اور تم اتنا مال رکھتے ہو کہ اس کو آسانی کے ساتھ معاف کر سکتے ہو تو بہتر یہ ہے کہ معاف کر دو۔
’’اور اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اُسے خوش حال ہونے تک مہلت دو اور صدقہ کر دینا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم اس کا فائدہ جانو۔‘‘ (البقرہ۔ 280:2)
خیرات میں اعتدال:
ساتواں قاعدہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ آدمی کو خیرات کرنے میں بھی حد سے نہ گزرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر سب کچھ خیرات میں دے ڈالا جائے‘ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سیدھے سادھے طریقے سے زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی ضرورت انسان کو ہوتی ہے اتنا اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں پر صَرف کرے اور جو باقی بچے اسے خدا کی راہ میں دے۔ اس بارے میں ارشاد فرمایا:
’’پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ اے نبیؐ! کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘ (البقرہ۔ 219:2)
’’اللہ کے نیک بندے جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل‘ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘ (الفرقان۔ 67:25)
’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھ‘ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔‘‘ (بنی اسرائیل۔ 29:17)
امداد کے مستحقین:
آخر میں یہ بھی سن لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مستحقین کی پوری فہرست بتا دی ہے جس کو دیکھ کر آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ کون کون لوگ آپ کی مدد کے مستحق ہیں اور کن کا حق اللہ نے آپ کی کمائی میں رکھا ہے:
’’اپنے غریب رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔‘‘ (بنی اسرائیل: 26-17)
’’اور نیک وہ ہے جو خدا کی محبت میں مال دے اپنے (غریب) رشتے داروں کو اور یتیموں اور مسکینوں کو اور مسافر کو اور مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں کو اور ایسے لوگوں کو جن کی گردنیں غلامی اور اسیری میں پھنسی ہوئی ہوں۔‘‘ (البقرہ: 177-2)
’’اپنے ماں باپ اور رشتے داروں سے اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں اور اپنے لونڈی غلاموں سے نیک سلوک کیا جائے۔‘‘ (النساء: 36-4)
’’اور نیک لوگ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو محض خدا کے لیے کھلا رہے ہیں۔ تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔ ہم کو تو اپنے خدا سے اس دن (یعنی قیامت) کا ڈر لگا ہوا ہے جس کی شدت کی وجہ سے لوگوں کے منہ سکڑ جائیں گے اور تیوریاں چڑھ جائیں گی۔‘‘ (الدھر: 8-10:76)
’’اور ان کے مالوں میں حق ہے مد مانگنے والوں کا اور اس شخص کا جو محروم ہو۔‘‘ (الذاریات: 19:51)
’’خیرات اُن حاجت مندوں کے لیے ہے جو اپنا سارا وقت خدا کے کام میں دے کر ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی روٹی کمانے کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری کو دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ وہ خوش حال ہیں‘ مگر ان کی صورت دیکھ کر تم پہچان سکتے ہو کہ ان پر کیا گزری ہے۔ وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر مانگتے پھریں۔ (ان کی مدد کے لیے) جو کچھ بھی تم خیرات دو گے اللہ کو اس کی خبر ہوگی اور وہ اس کا بدلہ دے گا۔‘‘ (البقرہ: 273:2)

حصہ